یہ کل کے اخبارات کی شہ سرخی تھی کہ فوج جمہوریت کی مضبوطی کے لیے تعاون کر رہی ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو چشم ما روشن‘ دل ما شاد! اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے لیکن جمہوریت کے ساتھ اس سے بڑا مذاق بھی اور کوئی نہیں ہو سکتا کیونکہ فوج تو ہر طرح سے حکومت کے ماتحت ہے اور حکومت کے احکامات کی پابند ہے جبکہ اس بیان کا ایک مطلب تو یہ بھی ہے کہ فوج کی یہ مہربانی ہے جو وہ حکومت کے ساتھ تعاون کر رہی ہے یعنی اس کے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ تعاون کرے یا نہ کرے‘ یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے۔ قانونی اور آئینی پوزیشن یہ ہے کہ آرمی چیف سیکرٹری ڈیفنس کے ماتحت ہوتا ہے جس کے احکامات و ہدایات سے وہ سرتابی نہیں کر سکتا لیکن ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ ہر وقت یہ سوال کھڑا رہتا ہے کہ فوج اور سول حکومت ایک صفحے پر ہیں یا نہیں جو کہ اکثر و بیشتر نہیں ہوتیں‘ بلکہ حکومت پر فوج کی بالادستی ہی کا تصور موجود ہے اور حکومت بالعموم بیک فٹ پر ہی کھیلتی نظر آتی ہے اور اس خطرے سے بھی دوچار کہ اس کا تختہ کسی وقت بھی اُلٹ سکتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ فوج نہیں بلکہ حکومت فوج کے ماتحت ہے۔
انتہائے ستم ظریفی یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ دو تہائی اکثریت سے اقتدار میں آنے والی حکومت مقبول عوام ہو‘ اس کی جگہ فوج عوام کی آنکھ کا تارا بنی ہوئی ہے اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ حکومت کو نہ صرف یہ کہ یہ صورتحال قبول ہے‘ بلکہ وہ اسے روزمرّہ اور معمول کی بات سمجھے ہوئے ہے اور اس کی ایک روشن مثال یہ بھی ہے کہ ایک ماہ سے وزیراعظم کی ملک سے غیر حاضری میں بھی ملک اس طرح سے چل رہا ہے‘ ماسوائے اس کے رسمی اور علامتی طور پر کچھ وزراء بھی حکومت چلاتے نظر آتے ہیں۔
مزید برآں‘ اکثر اوقات غیر ملکی دورے وزیراعظم کے بجائے آرمی چیف ہی کرتے ہیں اور انہیں ہر جگہ پروٹوکول بھی سربراہ حکومت ہی کا دیا جاتا ہے۔ مزید لطف کی بات یہ ہے کہ اگلے روز آرمی چیف نے وفاقی وزراء کو بعض معاملات پر بریفنگ کے لیے جی ایچ کیو میں طلب کیا۔ کیسی بلندی‘ کیسی پستی کہ شاید اس سے بہتر کوئی اور مثال دستیاب نہ ہو۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر حکومت کو فوج سے کوئی بات منوانا مطلوب ہو تو اس کے لیے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی سفارش بروئے کار لائی جاتی ہے۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ عامۃ الناس میں جہاں حکومت کو کرپشن سمیت جملہ آلائشوں کا منبع سمجھا جا رہا ہے وہاں ان کے خاتمے کے لیے آرمی چیف کو ایک مسیحا کے طور پر ساری امیدوں کا مرکز قرار دیا جا رہا ہے جبکہ پاناما لیکس کی وجہ سے حکمران طبقے کی رسوائی اور جگ ہنسائی اپنی انتہائی بلندیوں کو
چھونے لگی ہے یہ تو ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ دفاع اور خارجہ امور کی ذمہ داری سے حکومت خود ہی دستبردار ہو چکی ہے اور تمام بڑے بڑے فیصلے جی ایچ کیو میں ہوتے ہیں اور بیرون ملکی حکومتیں بھی اختیار و اقتدار کا اصل مالک فوج ہی کو سمجھتی ہیں۔
اور یہ اُلٹی گنگا صرف اور صرف حکومت کی نااہلی اور بد حکومتی کی وجہ سے ہے جو خود تو پیسے بنانے میں لگی ہوئی ہے اور حکومت کا سارا بوجھ اس نے فوج پر ڈال رکھا ہے اور یہ صورتحال اس حقیقت سے مزید واضح ہو جاتی ہے کہ ملک کا نہ تو کوئی باقاعدہ وزیر خارجہ ہے نہ وزیر دفاع۔ کہنے کو تو وزیر داخلہ بھی ہیں لیکن وہ بھی مرضی کے مالک ہیں اور کبھی کبھی حکومت کو آنکھیں بھی دکھاتے نظر آتے ہیں کیونکہ ان کی طاقت کا اصل سرچشمہ بھی سول حکومت نہیں بلکہ جی ایچ کیو ہی سے نکلتا ہے۔
وزیراعظم کی غیر حاضری میں بچے کھچے اختیارات کی زمام کار جن ہاتھوں میں ہے وہ بھی اب کوئی راز نہیں رہا۔ شیخ رشید احمد کے بیانات کو بیشک ہم زیادہ اہمیت نہ دیں لیکن ان کا یہ کہنا خالی از علّت نہیں ہے کہ جنرل راحیل شریف کو برخاست کر دیا جائے گا۔ آثار بھی اسی طرف کو جاتے دکھائی دیتے ہیں اور وزیراعظم کے لندن میں جا کر بیماری اور ڈاکٹروں کے مشورے سے مشروط ہو کر بیٹھ رہنے میں بھی یہی مصلحت کارفرما ہو سکتی ہے کیونکہ انہیں اصل خطرہ اپوزیشن سے نہیں‘ فوج سے ہے جس کے ساتھ موصوف نے اپنے ادوار اقتدار میں کبھی بنا کر نہیں رکھی۔ اُن کا خیال ہوگا کہ اگر کوئی گڑ بڑ ہوتی ہے تو کم از کم اس بات کا امکان نہیں کہ پکڑ کر اندر کر دیں گے کیونکہ وہ اور ان کے صاحبزادگان تو لندن میں ہونے کی وجہ سے دستیاب ہی نہ ہوںگے‘ وغیرہ وغیرہ۔ مطلب یہ کہ ڈپریشن کے جس عالم میں صاحب موصوف پائے جاتے ہیں‘ اس کے دبائو میں آ کر وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں یعنی ہرچہ بادا باد! وہ اس لیے کہ آںحضرت ایسی بوالعجبیاں چھوڑنے کا ایک ریکارڈ بھی رکھتے ہیں۔
اور یہ جو آئی ایس پی آر کا بیان آیا ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے‘ یہ بھی ایک سموک سکرین ہو سکتی ہے تاکہ وزیراعظم اپنے آپ کو عافیت میں سمجھتے ہوئے کوئی الٹا سیدھا اقدام نہ کر گزریں اور انہیں اپنے سکرپٹ پر عمل کرنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے اور اگر وزیراعظم کو یہ خدشات دامن گیر نہ ہوتے تو وہ کب کے واپس آ چکے
ہوتے۔ مزید برآں ان کی علالت اور اوپن ہارٹ سرجری کا معاملہ اس بات نے بھی مشکوک بنا کر رکھ دیا ہے کہ کوئی سربراہ حکومت اگر داخل ہسپتال ہو تو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد اس کی صحت کی صورتحال کے حوالے سے باقاعدہ بلیٹن جاری کیا جاتا ہے جبکہ یہاں عالم یہ تھا کہ ان کی صحت کے حوالے سے گھر کے افراد مثلاً ان کی صاحبزادی ہی کی طرف سے ٹویٹس جاری کئے جاتے رہے۔ علاوہ ازیں جن ڈاکٹرز کے وہ زیر علاج رہے اس دوران ان کا بھی کوئی بیان سامنے نہیں آیا نہ ہی ان کے ساتھ کسی نے رابطہ کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ چنانچہ اگر تقسیم اختیارات کا یہ قضیہ اسی طرح جاری رہنا ہے تو سیدھے سیدھے ترکی کی طرح فوج کو شریک اقتدار کیوں نہیں کر لیا جاتا تاکہ کامیابیوں اور ناکامیوں کا کوئی ذمہ دار تو ہو اور فوج اور سول حکومت کے درمیان بلی چوہے کا یہ کھیل تو ختم ہو اور ملک کو اطمینان سے آگے جانے کا موقع میسر آئے کیونکہ موجودہ صورتحال کے جاری رہنے سے نہ تو بد حکومتی میں کوئی کمی آنا ہے اور نہ اقتدار کی رسہ کشی اور سازشوں میں کوئی کمی آنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ وزیر اعظم سے تو یہی عرض کیا جا سکتا ہے کہ ع
اے باد صبا ایں ہمہ آوردۂ تُست
آج کا مقطع
لرز رہا تھا ستارہ بھی میرے ساتھ‘ ظفر
شبِ جدائی کی تصویر اور کیا ہوتی