تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     27-06-2016

’’اپنا موضوع‘‘ آپ پیدا کر …

محققین کی ایک ادا ہمیں بہت پسند ہے ... یہ کہ وہ زندگی اور معاشرے کے کسی بھی پہلو کو بخشنے کے لیے تیار نہیں! یہ وہ مہم جُو ہیں کہ کسی دنیا کی تلاش میں نکلیں اور وہ نہ ملے تو اپنی دنیا آپ پیدا کرلیتے ہیں! گویا یہ وہ شہنشاہ ہیں کہ جہاں کھڑے ہوجائیں وہیں دربار لگ جاتے ہیں! اور سچ تو یہ ہے کہ اس معاملے میں محققین ذرا بھی شرماتے نہیں۔ اِنہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ شرمانے سے کام نہیں بنتا۔ یہ بخوبی جانتے ہیں کہ ساغر اُسی کا ہے جو آگے بڑھ کر اٹھالے اور اس معاملے میں ساقی کی ناراضی کو جوتے کی نوک پر رکھے! اور ساقی بھی تو یہی چاہتا ہے کہ اس کے رندوں کو ہوش ہی نہ رہے کہ کون سا ساغر کس کا ہے اور اس کے بعد یہ بھی یاد نہ رہے کہ کون سا ساقی، کیسا ساقی! 
فی زمانہ کسی بھی موضوع پر کی جانے والی تحقیق سے زیادہ پُرلطف چیز ہے خود موضوع۔ بندر کو ناچنے کے لیے کیا درکار ہوتا ہے؟ ڈگڈگی! محققین کے ذہن کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ جب تک دلچسپ اور دبنگ موضوع کی ڈگڈگی نہ ہو، محققین کا ذہن ناچنے پر راضی ہی نہیں ہوتا! 
ویسے تو خیر دنیا بھر میں عجیب و غریب موضوعات پر تحقیق کا بازار گرم رہتا ہے مگر اس معاملے میں مغرب سب پر بازی لے گیا ہے۔ ویسے بھی تحقیق کا ٹنٹا وہیں سے آیا ہے۔ دنیا والے سکون سے جی رہے تھے۔ اہلِ مغرب نے علوم و فنون سے متعلق تحقیق کو فروغ دیا تو باقی دنیا کو بھی ساتھ دینا پڑا۔ پیچھے رہ جانے کا طعنہ بھلا کِسے اچھا لگتا ہے؟ بس، پھر کیا تھا۔ تحقیق کا پہیہ گھومنے لگا۔ اور اب تک گھوم رہا ہے۔ اس گھومتے پہیے نے موضوعات کو بھی گھماکر رکھ دیا ہے۔ 
موضوعات کے تنوع نے تحقیق کے بازار کی رونق اس قدر بڑھائی ہے کہ تحقیق ایک طرف رہ گئی ہے اور اب صرف موضوعات کی نیرنگی دیکھ دیکھ کر جی نہیں بھرتا۔ موضوعات کی تلاش میں محققین کا ذہن خوب چلتا ہے اور بہت دور کی کوڑیاں لاتا ہے۔ فی زمانہ کوئی نیا موضوع تلاش کرنا بجائے خود اچھا خاصا ''علمی معرکہ‘‘ ہے! موضوعات کی تلاش میں محققین جب اپنے ذہن کی جولانی دکھانے پر آتے ہیں تو اہلِ جہاں حقیقی معنوں میں انگشت بہ دنداں رہ جاتے ہیں۔ 
زندگی کا کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہیں جس پر محققین نے سیر حاصل دادِ تحقیق نہ دی ہو۔ معاملہ شادی کا ہو یا طلاق کا، بچوں کی پیدائش کا ہو یا بچوں کی پرورش و تربیت کا، نوکری حاصل کرنے کا ہو یا نوکری چھوڑنے کا، دوست بنانے کا ہو یا دوستوں کو خدا حافظ کہنے کا، رشتہ داروں سے تعلقات بہتر بنانے کا ہو اُن کی زندگی سے نکل جانے کا، دکان چلانے کا ہو یا دکان بڑھانے کا، گھریلو ذمہ داریوں کو اپنانے کا ہو اُن سے گلو خلاصی کا، ترقی پانے کا ہو یا تنزّل سے بچنے کا ... ہر معاملے میں محققین کی مستند آراء دستیاب ہیں۔ گویا ؎ 
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی 
ہم نے تو دل جلاکے سرِ راہ رکھ دیا! 
لطف کی بات یہ ہے کہ ایک ہی موضوع پر کی جانے والی تحقیق اس قدر متنوع ہے کہ متعلقہ افراد چکراکر رہ جاتے ہیں کہ کس کی بات مانیں اور کس کی رائے کو ردی کی ٹوکری میں ڈالیں۔ محققین کا ایک گروہ اگر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ مرغّن کھانے صحت کا بیڑا غرق کرتے ہیں تو مخالف گروہ یہ ثابت کرنے کے لیے دل و دماغ کی ساری قوت داؤ پر لگادیتا ہے کہ غیر مرغّن خوراک لینے سے جسم و جاں میں تشنگی رہ جاتی ہے جو مجموعی طاقت میں کمی کا سبب بنتی ہے! چند موضوعات ایسے ہیں جن پر محققین نے تواتر سے مشقِ ستم فرمائی ہے اور ایسا رگڑا دیا ہے کہ اب اِن موضوعات سے متعلق کچھ کہیے تو لوگ شدید گھبراہٹ محسوس کرنے لگتے ہیں! 
موٹاپا دور کرنے کے نسخوں اور سبز چائے کے فوائد کو تحقیق کرنے والوں نے ایسا رگڑا دیا ہے کہ پڑھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ موٹاپا ہے تو جینے کا کوئی فائدہ نہیں اور یہ کہ موٹاپے کے ہوتے ہوئے یہ دنیا ترقی تو کیا کرے گی جی بھی نہیں سکتی اور دوسری طرف سبز چائے کے اس قدر فوائد گِنوائے گئے ہیں کہ کبھی کبھی تو گمان گزرتا ہے کہ یہ نعمت جنّت سے اتاری گئی ہے! ان دونوں موضوعات پر تحقیق اب تک جاری ہے، بالخصوص سبز چائے پر۔ حیرت اس بات پر ہے کہ چین سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والا اور اس کی بھرپور ترقی سے حسد میں مبتلا ہوکر اس کی ہر چیز میں کیڑے نکالنے والا مغرب سبز چائے کا دیوانہ ہے! کیا مغربی محققین کو معلوم نہیں کہ یہ سبز ''عِلّت‘‘ بھی چین ہی نے متعارف کرائی ہے؟ 
اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ محققین محض انسانوں تک محدود ہیں تو اپنی رائے سے رجوع کیجیے۔ علامہ کہہ گئے ہیں ؎ 
دشت تو دشت تھے، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے 
بحرِ ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے 
محققین کا معاملہ بھی اِس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ زمین کی وسعت کیا چیز ہے، موضوعات کی تلاش میں تو یہ ثُریّا کو بھی کھنگال ڈالیں! 
محققین کی عظمت کو سلام کرنا پڑے گا کہ انسانوں پر اچھی طرح ہاتھ صاف کرنے کے بعد اب وہ جانوروں کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ انسانوں کا معاملہ یہ ہے کہ جب انٹ شنٹ تحقیق کی جاتی ہے تو وہ احتجاج کرتے ہیں اور معاملہ کچھ ٹھنڈا پڑتا ہے۔ مگر بے چارے بے زبان! وہ کہاں جاکر فریاد کریں، کس سے انصاف چاہیں؟ اب یہی دیکھیے کہ کم و بیش چار پانچ عشروں سے مغرب میں متعدد ادارے حیوانات پر تحقیق کا ہنگامہ برپا کیے ہوئے ہیں۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ جنگل میں اچھی خاصی پُرسکون زندگی بسر کرنے والے جانور حیران و پریشان ہیں کہ اپنے ماحول سے محققین کو کیسے نکالیں جو کیمرے تھامے گاڑیوں میں بیٹھ کر اُن کے درمیان آدھمکتے ہیں اور پھر ہفتوں اُن کی حرکات و سکنات کا جائزہ لینے کے نام پر اُن کا سکون غارت کرنے پر تُلے رہتے ہیں! جس مخلوق کو اللہ نے زبان نہیں دی وہ کسی کو کیسے بتائے کہ تحقیق کرنے والوں نے اُس کی پرائیویسی کو خاک میں ملا دیا ہے! جب سے جنگلی حیات پر دستاویزی فلمیں بنانے کا رواج پروان چڑھا ہے، ایک طرف تو متعلقہ تحقیق کے نام پر جی بھر کے فنڈنگ کروانا اور مزے کی زندگی بسر کرنا آسان ہوگیا ہے اور دوسری طرف حیوانات کے لیے جنگل کے کسی کونے میں، گھنے پیڑ کے سائے میں دو چار گھڑی پیار بھری باتیں کرنا بھی محال ہوگیا ہے! محققین کبھی بندروں کی ''گھریلو زندگی‘‘ کے راز جاننے کے لیے اُن کے جُھنڈ کا پیچھا کرتے ہیں تو کبھی شیروں کی ''نفسیات‘‘ جاننے کے لیے اُن کے گروہ کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ کبھی خاندان کی طرح مل کر رہنے کا راز 
پانے کے لیے ہاتھیوں کا تعاقب ہو رہا ہے تو کبھی اجتماعی سوچ کو سمجھنے کے نام پر زیبروں کے گِرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ جانوروں کی حالت تو یہ ہوگئی ہے کہ ؎ 
اب تو گھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے 
مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے! 
جانور شہر کے ہوں یا جنگل کے، انسانوں کے ہاتھوں اُن کا ڈھنگ سے جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ محققین نے خیر سے گلیوں اور سڑکوں پر بھٹکنے والے آوارہ کتوں کو بھی تحقیق کے گھاٹ پر لاکر ایسا دھویا ہے کہ بے چارے دُم دبائے پھر رہے ہیں۔ محققین ''نگاہِ عنایت‘‘ اب آوارہ کتوں پر پڑی ہے۔ اور موضوع یہ ہے کہ آوارہ کتے گاڑیوں کے پیچھے کیوں بھاگتے ہیں! ع 
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا 
اِن اللہ کے بندوں سے کوئی پوچھے کہ کتے گاڑیوں کے پیچھے نہ دوڑیں تو کیا اُن کے آگے آکر جان دے دیں! یعنی کتوں کو بھی اتنا تو معلوم ہے کہ فرّاٹے بھرتی گاڑی کے آگے نہیں آنا چاہیے۔ یہ ایک حرکت اس امر کی متقاضی ہے کہ کتوں میں اپنی حفاظت کے شعور پر تحقیق کی جائے مگر محققین اگاڑی پچھاڑی بھول کر ''بھاگنے‘‘ پر تحقیق کر رہے ہیں! 
محققین اگر موضوعات کی تلاش میں تھک گئے ہوں تو ایک موضوع ہم تجویز کیے دیتے ہیں۔ اب تک تو ہمارے افسانوں، ناولوں، ڈراموں اور فلموں کے ذریعے یہ بتایا جاتا رہا ہے کہ لڑکیاں گھر سے یا تو پریمی کی خاطر بھاگتی ہیں کہ دنیا والوں سے دور، ندی کنارے چھوٹا سا گھر بناکر سکون سے جئیں یا پھر فلموں میں کام کرنے کے لیے۔ ٹی وی پر یہ بھی سُجھایا جا رہا ہے کہ کرکٹ کے لیے بھی گھر سے بھاگا جاسکتا ہے! دیکھیے، محققین اس موضوع کے سَر پر ''دستِ شفقت‘‘ رکھنے پر مائل ہوتے ہیں یا نہیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved