تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     28-06-2016

جنگ ایک ہنڈولا ہے

9لاکھ امریکی خانہ جنگی کی نذر ہو چکے تو ابرہام لنکن نے فوجی افسروں کو بلایا اوریہ کہا : تمغوں والے جنرل نہیں ، مجھے وہ آدمی چاہیے ، جو جنگ جیت کر دے ۔ قیادت خبطی یولیسیس ایس گرانٹ کو سونپ دی گئی ۔ باقی تاریخ ہے ۔ 
امجد صابری کے قتل ایسا سانحہ رونما ہو تو زیادہ سنجیدگی ،زیادہ غور و فکر درکار ہوتاہے ۔ سائنسی انداز کے ساتھ ۔ 
پہلے سے معلوم ہوجاتا تو کامران شاہد سے میں درخواست کرتا کہ موصوفہ کو زحمت نہ دیں ۔ ماضی کی ایک معروف اداکارہ ، امریکہ میں بیاہے جانے کے بعد جس کا درجہ بلند ہے ۔ فرمایا''جو کوئی بھی اچھا کام کرتاہے ، اسے ما ردیاجاتاہے ۔‘‘ افسردگی سارے میں پھیلی تھی ۔ بحث کا موقع نہ تھا ، وگرنہ عرض کیا جاتا : ٹھیک وہی بات ، ''را‘‘ کے دہلی دفتر میں جس کا انتظار ہے ۔ 
اس جملے کو دو تین بار دہرائیے '' ہر اچھے آدمی کو قتل کر دیا جاتاہے ‘‘۔ ایسی جہات رکھتاہے کہ رونگٹے کھڑے ہو جائیں ۔ اس نیم خواندہ پہ کیا موقوف ، بعض سیاستدانوں ، پولیس افسروں اور اخبار نویسوں نے گل کھلائے ۔ 
کراچی کے پولیس افسر انٹرویو پہ انٹرویو دیتے رہے ۔ اپنی کمزوریاں دشمن پہ واضح کر دیں ۔ اخبار نویس پیچھے نہ رہے۔ کل شب ان میں سے ایک نے کہا : آپ کی عینک کا نمبر تک انہیں معلوم ہوتاہے ، سب کچھ وہ خود ہی کرتے ہیں ۔ ''انہیں‘‘ کون ہیں؟سیاچن اور وزیرستان سے لے کر بلوچستان اور کراچی تک جن کے سینے چھلنی ہوئے۔
چینلوں کے ایسے مالکان بھی ہیں ، جو اخبار تک نہیں پڑھتے ، خود اپنا ٹی وی نہیں دیکھتے ۔ کسی وزیرِ اعظم یا صدر سے ذاتی تعلقات نے کرشمہ کر دیا۔ پوچ قسم کے کاروبار ی ، بعض تو نوسر باز ۔ 
آزاد میڈیا جنرل پرویز مشرف کا کارنامہ ہے ۔ میاں محمد نواز شریف کیا، ایشیا کے ڈیگال ذوالفقار علی بھٹو سے بھی یہ امید نہ کی جا سکتی ۔ کچھ احتیاطیں مگر روا رکھنا تھیں ۔ تلواریں نہیں ، استرے ہیں ، جو بعض بندروں کے ہاتھ میں ہیں ۔ ایسا ایسا ٹی وی میزبان ہے کہ گلی میں سے گزرتا ہو تو آدمی دوسری راہ ہولے۔ قصور اس کا نہیں ، ادارے کا ہے ، جس نے بچّے کو ڈاکٹر کا نشتر تھما دیا ۔ 
سب پہلو ملحوظ رکھنا چاہئیں ۔ اندازہ اب بھی یہی ہے کہ امجد صابری کو ایم کیو ایم کے اس چھوٹے سے گروہ نے قتل کیا ہو، جس کی کمان لندن میں ہے ۔ برطانیہ سے عام طور پر جو ترجمان ایسے میں سکرین پر نمودار ہوتاہے ، اب کی بار اس نے چہرہ چھپائے رکھا ۔ خفیہ طور پر غیر ملکی دورے اس نے کیے ، خاص طور پر افریقہ کے۔ ناگوار کام مصطفی عزیز آبادی کو سونپا گیا ۔ ان کا ارشاد یہ تھا: آپ سے کلمہ ء خیر کی کیا امید۔ بجا ارشاد۔ وسیم اختر یعنی بلدیات کو اختیار نہیں ،مکمل اختیار سونپنے کی سو بار تائید کی جا سکتی ہے مگر ان سے نرمی کا کیامطلب ، سپریم کورٹ جنہیں قاتل قرار دے چکی ؟ صرف ایم کیو ایم کے درندے نہیں بلکہ پیپلز امن کمیٹی یعنی پیپلز پارٹی ۔ صوبائی وزیرِ داخلہ نے اعلان کیا تھا کہ اسلحہ کے دو لاکھ لائسنس شادیوں پر فائرنگ کی خاطر نہیں دئیے ۔ اے این پی گاندھی کے فلسفہ ء عدم تشدد کی قائل ہے ؛ اگرچہ 1974ء کے بعد کئی بار ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث رہی .....اور جی ہاں ! سرکار ؐ کی پیروی کا دعویٰ کرنے والے بہروپیے ۔ ان میں سے ایک کی نشاندہی کی تو مفتی منیب الرحمن ایسے نجیب آدمی کی سفارش پہنچی ۔ تشدد کیا، جن سے ناشائستہ اظہارِ خیال کا اندیشہ نہیں ہوتا.....ہمارے لیڈروں اور علما کی بے خبری ۔ بے خبری اور خوش فہمی۔ 
ماہِ جون کے ان تین ہفتوںمیں کم از کم پچاس قاتل بیرونِ ملک سے آئے ہیں ۔ زیادہ تر جنوبی افریقہ اور بھارت سے ۔ زیادہ تر افغانستان کے راستے ۔ کابل کی این ڈی ایس اب ''را‘‘ کے شانہ بشانہ ہے ۔ ظاہر ہے کہ امریکی جانتے ہیں ۔ امریکہ کی دوستی ہزار پا آکٹوپس کی سی لعنت ہے ۔ کتنے ہی ذہنی اور فکری بھکاریوں کو معزز بنا کر ہم پر مسلّط کر دیاگیا۔ ایسے مہربان بھی ہیں کہ سارا ملک ماتم کدہ تھا اور وہ رو رہا تھا:ایک کالاش لڑکی مسلمان کیوں ہو گئی ؟ لڑکی کہہ رہی تھی، اپنی مرضی سے ہوئی۔وہ انسانی حقوق کا محافظ ہے ؟ 
عالی مرتبت اصحابؓ کے مشورے پر عمر فاروقِ اعظمؓ نے فیصلہ کیا کہ جنگِ نہاوند کی قیادت خود کریں گے ۔ مدینہ کے اطراف میں حد نظر تک لشکر تھے اور امیر المومنین پابہ رکاب ۔ تب سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نمودار ہوئے اور ارشاد کیا: جنگ ایک ہنڈولا ہے ، جو کبھی اوپر جاتاہے اور کبھی نیچے ۔ اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو اسلام کا کیا ہوگا؟ ملّا تاریخ پڑھتا ہی نہیں ، ملحد نے ہماری تاریخ کو نہ سمجھنے کی قسم کھا رکھی ہے ۔ مسلم حکمران کو حتمی اختیار کبھی تھا ہی نہیں ۔ این جی اوز کی ایک مفکر بولی ، مراکش میں قرآنِ کریم کی ایک آیت کی یہ تشریح کی گئی ہے.....! کامران شاہد نے ٹوکا: اس مفکر صاحبہ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ خاکم بدہن رسولِ اکرم ؐ حضرت عمر ؓ کے زیرِ اثر تھے ..... شرمندہ ہونے کی بجائے وہ بولیں : مردوں کی تفسیر ہم نہیں مانتے .....مردوں کو پھر پیغمبر ہی کیوں مانا جائے ؟کوڑھ مغزی کا ایک سبب مرعوبیت بھی ہوا کرتاہے ۔
جی ہاں !جنگ ایک ہنڈولا ہے ، جو کبھی اوپر اور کبھی نیچے جاتاہے ۔ ایک جہانِ معنی ان الفاظ میں پوشیدہ ہے ۔ کسی اساطیری شاعر کے لافانی مصرعے کی طرح ۔ اس میں توگاہے ادبی جمالیات ہی کی جلوہ گری ہوتی ہے ۔ 
اعداد و شمار ایک بار پھر دہراتاہوں ۔ اویس شاہ کے اغوا اور امجد صابری کے قتل سے پہلے دہشت گردی کے واقعات میں 70فیصد کمی تھی ۔ ہدف بنا کر ہلاک کرنے میں 80فیصد ۔ اغواء میں 90فیصد ، اغوا برائے تاوان میں 85فیصد۔ اپنی جہالت سمیت انہیں ڈوب مرنا چاہئیے ، جو فرما رہے ہیں کہ جنگ ہار ی جا چکی ۔ 
کچھ خوف زدہ ، کچھ بے خبر مگر کچھ وہ ہیں ، جن میں سے ایک کا ذکر کیا ۔ جن کا کام ہمیشہ پاکستان میں کیڑے ڈالنا ہے ۔غم نہ پالنا چاہئیے ۔ کارندوں کے بھی فائدے ہیں ۔ کچوکے لگاتے ہیں تو ذہن بیدار رہتاہے ۔ 
.....اور یہ ہے تازہ فرمان جناب الطاف حسین کا ''سر میں کیل کیسے ٹھونکی جاتی ہے ؟ ہتھوڑا کس طرح مارا جاتاہے کہ بھیجا نکل آئے کہ کھا لو.... ابے! کھایا بھی نہیں جا سکتا۔ پکا کر جانوروں کو کھلا دو‘‘ ۔ خفیہ پیغام نہیں ،ایک خطاب ہے ۔
میاں صاحب لندن میں ہیں او رقدرے بے نیاز ۔ زرداری صاحب دبئی میں ہیں اور مکمل بے نیاز ۔ بس نہیں چلتا ورنہ الطاف حسین کے پاس ہری ٹائی والے مسخرے کو بھیجیں ۔ 
رینجرز اور پولیس کی جنرل راحیل شریف اور چوہدری نثار علی خاں نے حوصلہ افزائی کی۔ جنرل سے یہی امید تھی ۔ چوہدری کے بارے میں ایک افسر نے کہا : ان کا ذہن بالکل واضح تھا ۔ وہ جانتے تھے کہ کیا کرنا چاہیے....مگر وہ شاہی خاندان سے تو نہیں ! 
جنرل راحیل شریف نے ہدایت کی : دہشت گردی کے مددگاروں پر گھیرا اب تنگ کیا جائے ۔ فوجی قیادت امدادکرے گی ۔ اندازہ ہے کہ وسائل بڑھ جائیں گے ۔ اسلحہ او رمنشیات کے سوداگروں کی گردنیں بھی ناپی جائیں گی ۔ لینڈ مافیا کے خلاف منصوبہ بندی کا آغاز ہوگا۔ 
تشدد کی نئی لہر کیوں اٹھی ؟ تمام متشدد گروہ تحلیل کے خطرے سے دوچارہوئے ۔ مذہبی فرقہ پرست ، بھارت کے بلوچ کارندے اور''را ‘‘ کے زیرِ اثر چند ضمیر فروش لیڈر ۔ 
قومیں حیاتِ نو پا سکتی ہیں ، جب وہ فنا کے خطرے سے دوچار ہوں۔زمام ِ کار اگر چھچھوروں کے ہاتھ میں نہ ہو ... کیا اس پر ہم مجبور ہیں ؟ 
9لاکھ امریکی خانہ جنگی کی نذر ہو چکے تو ابرہام لنکن نے فوجی افسروں کو بلایا اوریہ کہا : تمغوں والے جنرل نہیں ، مجھے وہ آدمی چاہیے ، جو جنگ جیت کر دے ۔ قیادت خبطی یولیسیس ایس گرانٹ کو سونپ دی گئی ۔ باقی تاریخ ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved