گزشتہ ہفتے کے روز مغرب کے بعد خلاف معمول آفس سے جلد فارغ ہوکر میں نے ارادہ کیا کہ بستی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ جا کر رمضان کی رونقوں سے لطف اندوز ہوں اور تراویح بھی ادا ہوجائے۔ مسلم بستیوں سے باہر یہاں رمضان کی رحمتوں کا ادراک ہی نہیں ہوتا۔ حضرت نظام الدینؒ کی تاریخی بستی دہلی شہر کے قلب میں واقع ہے۔ یہاں حضرت نظام الدین اولیاء کے روضہ مبارک، حضرت امیر خسروؒ، اسداللہ خان غالب، عبدالرحیم خان خاناں، مغل تاجدار ہمایوں کے علاوہ لاتعداد مغل شہزادوں اور 1965ء کی جنگ میں شہید پاکستانی فضائیہ کے دوپائلٹوں کی قبریں ہیں۔ بستی کے دروازے پر ہی تحریک دعوت و تبلیغ کا ہیڈ کوارٹر ہے۔گاڑی پارک کرتے ہی احساس ہوا کہ ماحول کچھ کشیدہ ہے۔ پولیس کی بھاری جمعیت اور رکاوٹوں کو دیکھ کر پہلی نظر میں لگا کہ شاید ہندو مسلم فساد پھوٹ پڑا ہے، مگر جلد ہی معلوم ہوا کہ تبلیغی جماعت کے ہیڈ کوارٹر 'مرکز نظام الدین‘ المعروف بنگلہ والی مسجد میں دو گروہ باہم دست وگریبان ہیں۔ لاٹھیوں کا آزادانہ استعمال ہو رہا ہے، پولیس چاقو ہاتھ میں لئے کئی باریش افراد کو قابو کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو دشنام طرازی کے ساتھ مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دہلی پولیس کے دو اعلیٰ افسران آلوک کمار اور ایس پی تیاگی جو موقع پر موجود تھے، بتارہے تھے کہ تقریباً ایک ماہ سے جماعت کے صدر دفتر میں کشیدگی کا ماحول ہے اورکئی بار پولیس مداخلت کر چکی ہے۔ افسوس! ایک جانب ملت اسلامیہ دنیا بھر میں نشانے پر ہے اور یہاں افطار کے دسترخوان پر مرحوم 'حضرت جی‘ مولانا زبیر کے صاحبزادے مولانا زہیر اور مولانا سعد کے حامیوں کے درمیان تکرار اور مارپیٹ ہو رہی ہے۔ معلوم ہوا کہ گھروں پر حملہ ہوا اور مستورت کا بھی لحاظ نہیں رکھا گیا۔ 15افراد کو شدید زخمی حالت میں اسپتال میں داخل کرایا گیا۔
مولانا انعام الحسن کی وفات کے بعد ان کے فرزند مولانا زبیرکو امیر مقررکیا گیا تھا مگر مولانا انعام الحسن کے پیشرو مولانا یوسف کے پوتے مولانا سعد نے انہیں قبول نہیں کیا، جس کی وجہ سے مولانا اظہارالحسن امیر مقرر ہوئے اور شورائی نظام کا قیام عمل میں آیا، مگر وہ جلد ہی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ دینی جماعتوں میں تبلیغی جماعت یقیناً ایک بہترین تنظیم ہے۔ اس کی بنیاد 1926ء میں دیوبند سے فارغ التحصیل مولانا الیاس کاندھلوی نے ڈالی۔ وہ کسی مسجد میں نمازکے بعد عبادت میں مشغول تھے کہ ان کی نظر دہلی سے متصل میوات علاقہ کے کچھ مزدوروں پر پڑی جو غلط سلط وضو کرنے کے بعد نمازکے ارکان کے ساتھ انصاف نہیں کر پا رہے تھے۔ مولانا نے ان افراد کو اسلام کی بنیادی تعلیم دینے اور ارکان نماز کی درست ادائیگی سکھانے کا بیڑا اٹھایا۔ مولانا نے جب ان سے درخواست کی کہ وہ تین دن تک مسجد میں ہی قیام کریں تو ان لوگوں نے کہا کہ ان کی مزدوری میں حرج ہوگا، چونکہ وہ غریب ہیں اور ان کا انحصار یومیہ مزدوری پر ہی ہے۔ مولانا نے ان کو پیشکش کی کہ وہ ان کا حرجانہ پورا کردیں گے۔ اس کامیاب تجربے کے بعد ان افراد نے مولانا کو اپنے علاقہ میوات آنے کی دعوت دی۔ دہلی سے متصل اس علاقہ میں ہریانہ اور راجستھان کے کئی اضلاع شامل ہیں اور آج بھی یہ مسلم اکثریتی علاقہ پسماندہ اور حکومت کی غفلت کا شکار ہے۔ تبلیغی جماعت کے بانی نے دیکھا کہ یہاں ارتداد کے قریب بس نام کے مسلمان رہتے ہیں۔ اپنے پہلے تجربے کا اعادہ کرتے ہوئے انہوں نے تین دن اور دس دن کے چلوں پر مشتمل ایک منصوبہ وضع کیا جس کے تحت علاقہ کے افراد کو دین کے بنیادی ارکان کی تربیت دے کر ان کو بڑی حد تک بیدار کر دیا۔ یہ سلسلہ وسیع ہوتا گیا حتٰی کہ تبلیغی جماعت عالمی سطح کی ایک تنظیم بن گئی۔ اس وقت دہلی کی بیشتر مساجد کے لئے امام، خطیب، قاری و حفاظ میوات سے آتے ہیں۔
مگر آج کل اس دعوتی تنظیم میں جوتم پیزار ہو رہی ہے، اس پر ملت کے بہی خواہوں کا تشویش میں مبتلا ہونا لازمی امر ہے۔ اب یہ تبلیغی جماعت کا داخلی ایشو نہیں رہا کیونکہ آئے دن پولیس کی مداخلت اور مار پیٹ کے باعث پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے۔ 'مرکز نظام الدین‘ میں امارت و شورائیت کا مسئلہ نیا نہیں،یہ مولانا یوسف کاندھلوی کے دور سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ 'حضرت جی‘ مولانا یوسف کاندھلوی کو بانی تبلیغی جماعت مولانا محمد الیاس کاندھلوی نے اپنا جانشین نامزد کیا تھا جو بظاہر اختلاف سے پاک تھا، البتہ اندرون خانہ چہ میگوئیاں ہوئی تھیں مگر اکابرین نے معاملہ سنبھال لیا تھا۔ ان کے بعد جب مولانا انعام الحسن کاندھلوی 'حضرت جی‘ بنے تو ان کے اور مولانا ہارون کاندھلوی کے مابین کچھ اختلاف ہوا۔ اس کے بعد مرکز میں شورائی نظام نافذ ہوا اور تمام ارباب حل و عقد نے اسے قبول کیا، البتہ عملًا مولانا زبیر الحسن ''حضرت جی‘‘ کے فرائض انجام دیتے رہے۔ لیکن مولانا زبیر الحسن کے انتقال کے بعد جب ان کے فرزند مولانا زہیر الحسن کاندھلوی کو شوریٰ میں داخل کیا گیا تواختلاف شروع ہوگیا اور دیکھتے دیکھتے عالم اسلام کا یہ عظیم سرمایہ خاندانی ورثہ بن گیا، جس پر اجارہ داری کے لئے پگڑیاں اچھلنے لگیں،گریبان پکڑے جانے لگے، ہاتھا پائی سے آگے بڑھ کر بات زد وکوب تک جا پہنچی۔
چونکہ تبلیغی جماعت غیر مسلموں کے بجائے مسلمانوں کو ہی راہ راست پرلانے کا کام کرتی آرہی ہے اس لئے شاید حکومتی اداروں کو بھی اس سے کوئی سروکار نہیں رہا، مگر2011ء میں وکی لیکس کے اس انکشاف کے بعد کہ القاعدہ سے منسلک چند افراد نے سفر اور دستاویزات کے حصول کے لئے اس تنظیم کو استعمال کیا، یہ دنیا بھرکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگی۔گلاسکو ایئر پورٹ پر دہشت گردانہ حملوں میں ملوث کفیل احمد اور جولائی 2005ء کے لندن حملوں میں نامزد شہزاد تنویر اور محمد صدیق کے تار ایجنسیوں نے ڈیوسبری کی تبلیغی مسجد سے جوڑے۔ بھارت کے قومی سلامتی کے موجودہ مشیر اجیت دووال تو ہمیشہ ہی اس تنظیم کے بار ے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ جب وہ انٹیلی جنس بیوروکے سربراہ تھے، انہوں نے ٹخنوں سے اوپر شلوار یا پائیجامہ پہننے اورکاندھے پر ٹوٹے پھوٹے تھیلے لٹکا کر چلنے والوں پر باقاعدہ نگاہ رکھنے کی ہدایت کی تھی۔ ابھی تک خفیہ ایجنسیوں کو ایسا کوئی سراغ نہیں ملاجس سے یہ ثابت ہو سکے کہ ان لوگوں کی کوئی سرگرمی ملک مخالف، سماج مخالف یا انسان مخالف ہے۔ دووال نے لکھا کہ اس تبلیغی تنظیم میں شفافیت کی عدم موجودگی اور خفیہ پن شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے اس لئے انٹیلی جنس ایجنسیوںکا اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا لازمی ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اتنی وسیع تنظیم کی فنڈنگ اور اس سلسلے میں برتی جانے والی رازداری بھی شک کو جنم دیتی ہے۔ جماعت کے افراد کے مطابق مخیر حضرات رقم فراہم کرتے ہیں جس کا بیشتر حصہ بنگلہ والی مسجد کے مرکز میں لنگر پر خرچ ہوتا ہے، جہاں روز ہزاروں لوگوں کو طعام پیش کیا جاتا ہے۔ تبلیغی جماعت خود کبھی چندے کا نظم نہیںکرتی نہ ہی رقوم دینے والوںکو رسید دی جاتی ہے۔ اس نے ابتدائی دور سے ہی اپنے آپ کو سیاست سے کوسوں دور رکھ کر صرف اسلام کی ابتدائی تعلیم اور ارکان پر توجہ مرکوزکی ہوئی ہے۔ تبلیغی جماعت کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ صرف آسمان سے اوپر اور زمین سے نیچے کی باتیں کرتے ہیں، روزمرہ زندگی گزارنے کے سلسلے میں ان کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں۔ وہ مسلمانوںکو اسی حلیے میں دیکھنا چاہتے ہیں جو ان کے مطابق چودہ سو سال قبل صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کا ہوتا تھا۔کچھ ہندو لیڈر ان کے بار ے میں کہتے ہیںکہ یہ مسلمانوںکو دنیا سے کاٹنے کا کام کرتے ہیں، اس لئے ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ تنظیم میں لاکھ کمیاں سہی مگر اپنے میدان میں اس نے ان پڑھ اور غریب مسلمانوںکو اسلام کے ابتدائی ارکان سے روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا اور انہیں مذہب کے نام پر شعبدہ بازوں کے چنگل سے آزاد کرکے مذہب کے قریب کر دیا۔ لیکن لگتا ہے کہ اب تبلیغی جماعت کو نظر لگ گئی ہے۔ ملت کے ذمہ داروںکو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ جس مرکز سے کبھی خفیف سی آواز بھی باہر نہ آتی تھی آج اس کے چاروں طرف پولیس کا پہرہ ہے۔
اس پورے قضیے کی جڑ تقویٰ کے بجائے اقربا پروری اور امارت کو چند خانوادوں تک محدود رکھنا ہے۔ چند ایک کو چھوڑکر سبھی مسلم تنظیموں کا المیہ یہی ہے۔ مولانا سعد امارت پر فائز رہنے کے لئے بضد ہیں جبکہ مولانا زہیر الحسن شورائیت پر زور دیتے ہیں۔ دونوں ذاتی مفاد کی وجہ سے امت کے اس عظیم سرمایے کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کے اختلاف کے باعث مفاد پرست عناصر اپنی اپنی روٹیاں سینک رہے ہیں۔ کروڑوں روپے کے عطیات نے بہت سے مفاد پرستوںکے کان کھڑے کر دیے ہیں۔کیا عرف عام میں اللہ والے کہلانے والوں میں دنیا داری عود کر آئی ہے؟ بھارت اور پاکستان کے علما اورامت کے زعما کا دینی و ملی فریضہ ہے کہ وہ فوری طور پر اس مسئلے میں مداخلت کریں اور اس امانت کو لٹنے سے بچائیں۔ امت کے خلاف پہلے ہی ایک طوفان بلا برپا ہے۔ لازم ہے کہ متاثرین اپنی جان کی خاطر اختلاف کو نظر انداز کرکے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ سمجھ دار قوموں کا ہمیشہ یہی شیوہ رہا ہے۔