ہمارے سینئر شاعر اور ممتاز نقاد پروفیسر غلام حسین ساجد کا پنجابی غزلوں کا مجموعہ ''کسے سفنے دے نال‘‘ کے عنوان سے شائع ہو گیا ہے جسے ''سانجھ‘‘ نے چھاپا اور اس کی قیمت160روپے مقرر کی گئی ہے‘ اس کا سنِ اشاعت2011ء ہے۔ میں نے اسے ابھی اِدھر اُدھر سے سونگھا ہی ہے اور شاعر کا لکھا ہوا پیش لفظ اس قدر چشم کشا ہے کہ سب سے پہلے اسی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ کیونکہ یہ ایک بہت بنیادی بات ہے اور جس کا لبِ لباب یہ ہے کہ یوں تو ہم پنجابی زبان میں غزل لکھتے ہیں لیکن پنجابی غزل نہیں لکھتے۔ ان کا موقف ہے کہ پنجابی غزل پنجابی بحروں ہی میں لکھی جا سکتی ہے اور جس کے لیے پنجابی''چھند‘‘ استعمال کرنے ضروری ہیں نیز کافی راگ میں۔ علاوہ ازیں غزل چونکہ ایران سے آئی ہے اس لیے اردو غزل کی تلمیحات‘ کلچر اور روایت وہی کی وہی چلے آ رہے ہیں جبکہ اس کے پس منظر میں حافظ‘ میر‘ درد‘ آتش اور انشاء کی بجائے بھگت کبیر اور شاہ حسین وغیرہ ہونا چاہئیں تاکہ پنجابی غزل اپنا آپ اجاگر کر سکے جس کے لیے ضروری ہے کہ غزل کی زبان کو یہ کلاسیکی پہناوا پہنا کر بات کی جائے تاکہ صحیح معنوں میں پنجابی غزل کہی جا سکے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مثلاً لاہور میں جو زبان ہم بولتے ہیں وہ شہری بلکہ عورتوں کی زبان ہو کر رہی گئی ہے‘ اس لیے اس زبان میں واقعی جاندار غزل نہیں کہی جا سکتی جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ دراصل ہم دو زبانیں بول رہے ہوتے ہیں یا دو زبانوں کا آمیزہ یعنی ایک تو لاہوری اور دوسری وہ زبان جہاں سے ہم نقل مکانی کر کے یہاں آئے ہیں کیونکہ پنجاب کے ہر ضلع کی زبان ایک دوسرے سے کسی قدر مختلف ہے اور اس کا اپنا لب و لہجہ وہ زبان جو ہم بچپن اور لڑکپن سے بولتے چلے آئے ہیں‘ اس لیے قدرتی اور فطری زبان وہی ہو گی جسے ہم پیچھے چھوڑ آئے ہیں لیکن ہمارے رگ و پے میں اب بھی موجود ہے‘ اس لیے غزل میں ہم جتنی زیادہ وہ زبان بروئے کار لائیں گے‘ اتنی ہی زیادہ کامیابی سے ہمکنار ہوںگے۔
اور جہاں تک اس کلاسیکی زبان کا تعلق ہے جس پر صاحب موصوف نے زور دیا ہے اور جس میں کلاسیکی پنجابی شاعری کا تڑکا بھی لگایا گیا ہو تو اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلے گا کہ زبان کا دائرہ کار محدود ہو کر رہ جائے گا جبکہ اپنے موضوعات کے لحاظ سے اس صنف کو بجا طور پر تنگنائے غزل کا نام دیا گیا ہے۔ دوسرے یہ وہ زبان نہیں رہے گی جسے ہم بولتے اور سمجھتے ہیں اور مذکورہ زبان اور اس کا ماحول اختیار اور اس کی نقل کرنے کی بجائے یہی بہتر سمجھا جائے گا کہ خود انہی شعراء کو پڑھنے پر اکتفا کی جائے جبکہ اس کے اثرات قدرتی طور پر ہماری شاعری اور خصوصاً غزل میں پہلے سے ہی موجود ہیں اور بروئے کار بھی لائے جا رہے ہیں کیونکہ اس زبان اور ماحول کو یکسر نقل کرنے سے ایک طرح کے تصنع کا بھی احساس ہو گا بجائے اس کے کہ اس سے کوئی تازگی پیدا کی جا سکے۔ تاہم یہ ایک الگ
موضوع ہے کہ ہر جینوئن شاعر اپنی زبان ساتھ لاتا ہے۔
ہمارے محبوب تخلیق کار نجم حسین سید اس وقت پنجابی شعر وادب کے جس مقام اور مرتبے پر فائز ہیں اور جس کے اعتراف میں مَیں نے اپنی پنجابی کلیات انہی کے نام سے منسوب کی ہے‘اپنی نظم و نثر میں جو زبان استعمال کرتے ہیںاس سے ایک عام قاری لطف اندوز نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ اسے سمجھنے ہی سے قاصر ہے۔ بیشک پنجابی کی ٹھیٹھ ادبی زبان وہی ہو لیکن اس کا ابلاغ ہونا بھی ضروری ہے اور اگر صاحب موصوف اس کے ذریعے قاری کو ٹھیٹھ ادبی زبان سکھانے کی کوشش کر رہے ہیں ہوں تو الگ بات ہے۔
سو‘ شاعر جس زبان میں شعر کہتا ہے وہ قدرتی طور پر اس کے اندر اور خون میں شامل ہوتی ہے‘ اسے باہر سے کوئی مخصوص لبادہ پہنا کر گوہر مقصود حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اس سے شعر کے لطفِ سخن سے خالی ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور شعر اگر لطف سخن اور تازگی سے خالی ہے تو وہ کوئی شعر نہیں۔ اور جہاں تک غزل کی بحروں کا تعلق ہے تو ایک تو اردو کی بحروں میں خاصی تبدیلی بھی لائی گئی ہے اور صرف ''چَھند‘‘ کے رنگ میں رنگی جانے کے بعد وہ ''چِھند‘‘ ہی ہو کر رہ جائے گی ‘ پنجابی غزل نہیں۔
زبان کا تجربہ بجا بھی ہے اور ضروری بھی لیکن اگر یہ تجربہ ہی رہتا ہے اور شاعری پیداکرنے سے قاصر رہتا ہے تو وہ بے سود ہے۔ اپنی مثال دیتے ہوئے مجھے اچھا نہیں لگ رہا‘ میں نے ''گلا فتاب‘‘ میں زبان کا تجربہ کیا‘ توڑ پھوڑ کر اس کا تیا پانچا کر دیا‘ لیکن شمس الرحمن فاروقی نے لکھا کہ دیوان غالب کی اشاعت کے بعد یہ تہلکہ خیز ترین کتاب آئی ہے ۔اس رائے کی بنیاد زبان کی توڑ پھوڑ نہیں بلکہ کتاب کا کانٹنٹ تھا کیونکہ زبان کو ملیا میٹ کرنے کے باوجود اس میں شاعری اور تازگی کا معیار یہ تھا کہ فاروقی صاحب کو یہ بات کہنا پڑی اور ان کی اس رائے کا شہرہ دور دور تک پھیلا بھی۔ میری اپنی رائے میں بھی کانٹنٹ کے لحاظ سے وہ میری اہم ترین کتاب ہے۔ غلام حسین اسی پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایک ہزار کے قریب اردو غزلیں کہہ رکھی ہیں، بڑی بات ہے کیونکہ میری غزلوں کی تعداد تو چھ سات سو سے زیادہ نہیں ہوگی۔ ساجد صاحب نے جب غزل کہنا شروع کی تھی تو ان کے گروپ‘ جس میں محمد خالد اور ابرار احمد وغیرہ موجود تھے جنہوں نے غزل میں نیٔو کلاسیکی طرز اظہار کو فروغ دینے کا اہتمام کیا تھا لیکن اس کا انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا کیونکہ یہ آگے چلا اور نہ ہی اس کا کوئی مثبت نتیجہ نکلا۔ ان تینوں حضرات کا میرے دل میں بڑا احترام ہے اور یہ میرے ذاتی اور قریبی دوست بھی ہیں اور شاید وہ میری بات کو تسلیم بھی کریںگے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ ساجد صاحب کے پہلے مجموعہ کلام ''عناصر‘‘ کا دیباچہ لکھتے وقت ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے چار پانچ صفحے میری غزل پر لکھنا بھی ضروری سمجھا اور یہ نتیجہ بھی نکالا کہ ظفر اقبال کی شاعری سے اگر اس کا تجرباتی اور متنازعہ حصہ نکال بھی دیا جائے تو بھی اس کے پاس اتنا کچھ بچتا ہے کہ اس کے تمام ہم عصروں کی شاعری کو ملا کر بھی اتنا کچھ نہیں بنتا‘ حالانکہ دیباچہ وہ غلام حسین ساجد کی کتاب کا لکھ رہے تھے‘ میری کتاب کا نہیں۔
میں کوئی پیشہ ور نقاد نہیں ہوں اور الحمد للہ کہ نہیں ہوں‘ حتیٰ کہ میں نے اپنے نام نہاد تنقیدی مجمو عے کا نام بھی''لا تنقید‘‘ رکھا ہے اور محض گپ شپ ہی کیا کرتا ہوں‘ اس لیے اس تحریر کو میری رائے نہ سمجھا جائے اور اگر ہو بھی تو میں اپنی رائے کو خود بھی کون سا اہمیت دیتا ہوں۔ البتہ اپنے جھوٹے سچے تاثرات دینے سے باز بھی نہیں آتا۔
آج کا مقطع
پائوں پھیلاتا ہوں چادر دیکھ کر میں بھی ظفر
کچھ مجھے اُس نے بھی ہے اوقات میں رکھا ہوا