تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     29-06-2016

چوہدری نثار علی خاں اور دولے شاہ کا چوہا

کتنی ہی وہ شاندار اور منظم ہوں، محبوب اور مقبول، افواج کے ڈنڈے نہیں، اقوام تعلیم اور تربیت کے بل پر تعمیر ہوتی ہیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ سماجی، سیاسی اور انتظامی اداروں کی رفعت و توانائی سے فروزاں۔
چوہدری نثار کو بہت سے لوگ پسند نہیں کرتے۔ ایک خوبی مگر ایسی کہ کم یقین معاشرے میں شاذ ہوتی ہے۔ غیر ضروری جزئیات میں الجھنے سے گریزاں، انہوں نے ایک تجزیاتی ذہن پایا ہے۔ سیاست میں ان کی غیر معمولی کامیابی کا راز یہی ہے۔ شدید خواہش کے باوجود شاہی خاندان چوہدری سے بے نیاز نہیں ہو سکا؛ البتہ یہ راز بڑے بڑوں پر بھی کم کھلتا ہے کہ اجتماعی حیات میں سرخروئی کی بنیاد خلقِ خدا سے گھلنے ملنے میں ہوتی ہے۔ پوری خوش دلی سے!
اپنے ہم نفسوں سے کوئی بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ کوئی تیمور اور بابر، کوئی جارج واشنگٹن اور نپولین تو کیا، کوئی قطب، ابدال؛ حتیٰ کہ اللہ کا کوئی پیغمبر بھی نہیں۔ یونس علیہ السلام ایسے جلیل القدر پیغمبر سے یہ کہا گیا تھا کہ ناراض ہو کر وہ اپنی قوم کو چھوڑ کیوں گئے؛ اگرچہ وقتی طور پر۔ موسیٰ علیہ السلام کی لافانی عظمت کا ایک پہلو یہ ہے کہ اپنی قوم کی سرکشی سے نالاں ہونے کے باوجود اللہ کی بارگاہ میں قائم رہنے والی ضد کے ساتھ وہ ان کے سفارش کنندہ تھے۔ سرکار ؐ کا تو ذکر ہی کیا۔ ایک بار تو ان لوگوں کو یاد کرتے ہوئے آپؐ کی آنکھیں بھر آئی تھیں، بعد میں جو پیدا ہوں گے، بن دیکھے ان ؐ سے محبت کریں گے۔ 
آپؐ ان کے لیے بھی رحمت ہیں 
جو زمانے ابھی نہیں آئے 
ہم میں سے اکثر حسنِ اخلاق کی اہمیت تب دریافت کرتے ہیں، جب بہت دیر ہو چکی ہو۔ بعض تو دریافت ہی نہیں کر پاتے۔ زچ ہو کر ظاہری انکسار کی اداکاری اختیار کر لیتے ہیں۔ بہروپیے سے، ریاکار سے ہو جاتے ہیں... اپنی بے کراں مسرّتوں کا دروازہ حیات ان پر بھی کبھی نہیں کھولتی۔ اجڑے مکان کی طرح ان کا باطن ویران رہتا ہے۔ 
چوہدری کڑوا ہے مگر دکھائی بھی کڑوا ہی دیتا ہے۔ وادیء سواں کے جنگلوں میں اگنے والے خودرو آملے کی طرح!
کراچی کو چوہدری نثار علی خاں سے زیادہ جاننے والے بھی ہیں۔ جس خوبی اور صفائی سے مگر دو کروڑ مکینوں کے اس دیار کے لیے مجوّزہ ترجیحات واضح کیں، اس پر ایک خوشگوار حیرت ہے۔ بے طرف سرکاری افسروں سے پوچھا۔ وزیرِ داخلہ کے لیے ان میں سے اکثر رطب اللّسان تھے۔ ناکارہ اور ناتراشیدہ کراچی پولیس سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہر سال دس ہزار بے ہنروں کا اضافہ، اس پر مستزاد! کہا جاتا ہے کہ سکّہ رائج الوقت کے عوض۔
بیس ہزار امسال بھرتی ہوں گے مگر اب فوج کی نگرانی میں۔ تربیت بھی خاکی وردی والے کریں گے، کچھ اسلحہ بھی دیں گے۔ یہ جنرل کیانی کی پیشکش تھی، تب اس سے فائدہ نہ اٹھایا گیا۔ جنرل راحیل شریف نے برقرار رکھی اور نافذ کر دی۔ دہشت گردوں کی مالی رسد اب روکی جائے گی۔ سالِ گزشتہ، ایم کیو ایم معمول سے آدھا فطرانہ اور لگ بھگ نصف زکوٰۃ ہی وصول کر پائی تھی۔ امسال مزید کم ہو گی۔ باقیوں کا حال اور بھی پتلا ہے۔ سمگلروں، قبضہ گروپوں، بھتہ خوروں اور قاتلوں کے مختلف گروہوںکو کراچی 
کے شہری تقریباً 70ارب روپے سالانہ خراج ادا کرتے رہے۔ ریاست ان لوگوں کی سرپرستی فرماتی رہی۔ 
جنرل پرویز مشرف ہی نہیں، میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری بھی۔ 1997ء میں اقتدار سنبھالنے پر میاں صاحب نے 550 دہشت گرد رہا کر دیے تھے۔ سرکاری خزانے سے 50 کروڑ تاوان بھی دیا۔ جنرل مشرف کے دور میں وہ 200 پولیس افسر قتل کر دیے گئے، جو 1995ء کے آپریشن میں شریک تھے۔ جنرل کے سب قصور معاف کیے جا سکتے ہیں مگر ان قاتلوں کا تحفظ کبھی نہیں۔ سول ملٹری تعلقات کشیدہ نہ ہوتے، سول حکمرانوں سے اکثر کو اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ قصاص کی بجائے وہ انتقام چاہتے ہیں تو جنرل بچ نہ سکتا۔ 12مئی کو گاجر مولی کی طرح انسانوں کو کاٹ ڈالنے والوں کو اس نے ''عوامی طاقت‘‘ کہا تھا۔
اسی طرح بے نظیر بھٹو کے اس کار نامے کو مورخ بھلا نہ سکے گا، جو انہوں نے انجام دیا۔ فروری 1995ء سے جون 1995ء تک دس لاشیں روزانہ گرا کرتیں، بہت سی بوری بند۔ سات ماہ میں شہر پوری طرح پُرامن تھا۔ شب بھر بازار کھلے رہتے۔ ساحل آباد ہو گئے۔ پھر میاں صاحب تشریف لائے، پھر جنرل صاحب، پھر ایوانِ صدر میں زرداری صاحب کی دکان! برسبیلِ تذکرہ، سیاستدان تو الگ، پاک فوج کی تشکیل میں کیا خرابی ہے کہ اس کا سربراہ، ایوانِ اقتدار میں براجمان ہوکر خواہ قتلِ عام کراتا رہے، اس سے پوچھ گچھ ممکن نہیں ہوتی؟ اقتدار ایک لعنت ہے، الّا یہ کہ لیڈر خود امیدوار نہ ہو، خلقِ خدا اس کا انتخاب کرے۔ 
کراچی کے مکینوں کا دستاویزی ریکارڈ اگر مرتب ہو گا تو خرابی کی جڑ ہمیشہ کے لیے کاٹی جا سکے گی۔ کمپیوٹر پر جرائم کا ریکارڈ ایک اور کارنامہ ہو سکتا ہے۔ جدید کامیاب پولیس کا تصور یہی ہے۔ صحت مند، متحرک اور منظم ہی نہیں، میرٹ پر منتخب، جدید ترین آلات سے لیس اور جدید اندازِ فکر کی حامل۔ ماضی پرستی ہمارے ذہنی امراض میں سے ایک ہے۔ ماضی میں جیا نہیں جاتا، اس سے صرف سیکھا جا سکتا ہے۔ 
ہُگ کینیڈی کی منفرد کتاب The great Arab conquests میں نویں صدی کے مورخ ابن الحکم کا ایک حوالہ ایسا ہے کہ غور کرنے والے کی آنکھیں کھول دے۔ ساتویں صدی کے آخر میں عبدالعزیز بن مروان مصر کا گورنر تھا۔ سکندریہ گیا تو جناب عمر بن العاصؓ کے ہاتھوں اس شہر کو تسخیر ہوئے پورے پچاس سال بیت چکے تھے۔ اصرار کیا کہ جنگ کا کوئی قدیم شاہد تلاش کیا جائے۔ یونانی بولنے والے بازنطینیوں کے 900 سالہ اقتدار کا اختتام اس شہر میں ہوا تھا۔ 
تب زندہ واحد بوڑھے گواہ نے یہ بتایا: جوانی میں اشرافیہ میں میرا رسوخ تھا۔ شاہانہ لباس پر قیمتی تلواریں سجائے، ہم دوست شہر سے باہر نکلے۔ باقیوں سے ہٹ کر گاڑے گئے ایک بدّو کے خیمے کو بلندی سے ہم نے دیکھا۔ نحیف سا گھوڑا، زمین میں گڑا گھٹیا سا نیزہ۔ اچانک اس کی نظر ہم پر پڑی۔ لپک کر اس پر وہ سوار ہوا۔ میرے دوست کو اس نے مار ڈالا، میں بچ نکلا۔ قیمتی ساز و سامان کو چھوئے بغیر بلند آواز سے تلاوت کرتا ہوا، وہ خیمے کو لوٹ گیا۔ اپنے سالار یا لشکر کو فوراً اطلاع دینے تک کی زحمت نہ کی۔ پوچھنے پر مروان کے متجسس فرزند سے اس نے کہا: میرا خیال ہے کہ اپنی کم تعداد اور کم اسلحے کے باوجود عرب اس لیے غالب آئے کہ ان میں سے ہر ایک اپنا فرض پہچانتا تھا، خوش دلی سے انجام دیتا اور داد و تحسین کا انتظار نہ کرتا۔ 
فوج کی نگرانی میں بیس ہزار کی بھرتی بجا، تربیت کا نیا طریق بھی قابلِ ستائش۔ دوسرے بہت سے اقدامات بھی، وزیرِ داخلہ نے جن کا ذکر کیا ہے۔ درست ہی نہیں، قابلِ صد تعریف! ایک سوال پریشان کرتا ہے اور بہت پریشان۔ سول ادارے اگر اسی طرح اپاہج ہوتے گئے۔ ایک ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے، فوج اگر ان کا بوجھ بانٹتی اور اٹھاتی رہی تو آخری نتیجہ کیا ہو گا؟ دولے شاہ کے بے شمار چوہے؟ کتنی ہی وہ شاندار اور منظم ہوں، محبوب اور مقبول، افواج کے ڈنڈے نہیں، اقوام تعلیم اور تربیت کے بل پر تعمیر ہوتی ہیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ سماجی، سیاسی اور انتظامی اداروں کی رفعت و توانائی سے فروزاں۔
پسِ تحریر : کتنی ہی گالیاں بکی جائیں۔ جواب یہ ہے کہ تیس کروڑ روپے انشاء اللہ مولانا سمیع الحق کو مل نہ سکیں گے۔ ثانیاً جنرل جاوید اشرف قاضی اور باقی ماندہ جنرل اگر مجرم پائے گئے تو انشاء اللہ ایک دن سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔ کہنے سننے والے کی نہیں، اہمیت سچائی کی ہوتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved