تحریر : شمشاد احمد تاریخ اشاعت     29-06-2016

این ایس جی میں شمولیت کا بھارتی خواب چکنا چور

وزیر اعظم نریندر مودی کی ''مارکو پولو سفارت کاری‘‘ اور واشنگٹن کی بھرپور حمایت کے باوجود اڑتالیس ارکان پر مشتمل نیوکلیئر سپلائرز گروپ کے سیول میں ہونے والے سالانہ اجلاس میں بھارت کی اس گروپ میں شمولیت کے لیے دی جانے والی درخواست ناکامی سے دوچار ہوئی۔ اگرچہ یہ درخواست گروپ میٹنگ کے ایجنڈے پر نہیں تھی‘ لیکن انڈیا کے کچھ جوشیلے حامیوں نے اس متنازعہ درخواست کو فیصلے کے لیے اجلاس میں پیش کر دیا۔ اور فیصلہ یہ ہوا کہ انڈیا پر این ایس جی کی رکنیت کے دروازے، اگر ہمیشہ کے لیے نہیں تو کم از کم فی الحال بند سمجھے جائیں۔ سیشن، جس میں تمام رکن ریاستوں کے نمائندے موجود تھے، کے اختتام پر جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ ''میٹنگ کے شرکا این پی ٹی (ایٹمی عدم پھیلائو کا معاہدہ) کی مکمل‘ بھرپور اور جامع حمایت کرتے ہوئے اسے عالمی سطح پر ایٹمی عدم پھیلائو کا سنگ میل قرار دیتے ہیں‘‘۔ چین سمیت کم از کم دس اہم رکن ممالک نے زور دیا کہ اس گروپ میں شمولیت کے لیے این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے والے ممالک میں سے کسی مخصوص ملک کو ترجیح دینے کی بجائے کوئی واضح قاعدہ اپنایا جائے؛ چنانچہ یہ ایشو ڈیڈلاک کا شکار ہو گیا۔ یہ نئی دہلی کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا کیونکہ اس نے دیوانہ وار کوشش کی تھی کہ صدر اوباما کے عہدے کی مدت تمام ہونے سے پہلے پہلے اسے این ایس جی میں شمولیت کا پروانہ مل جائے ۔ 
ایسا لگتا ہے کہ بھارت کا این ایس جی میں شمولیت کا کیس اب بھی وہیں ہے جہاں 2008 ء میں تھا۔ امریکہ سے امتیازی بنیادوں پر ہونے والی ایٹمی ڈیل کے گھوڑے پر سوار بھارت چور دروازے سے اس گروہ میں شامل ہو کر حساس ایٹمی ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ امریکہ کے ساتھ قریبی الائنس میں شریک ہونے اور اپنے عقربی سٹیٹس کے خبط کا شکار ہونے کی وجہ سے انڈیا کم و بیش دو عشروں سے کسی نہ کسی طور پر یو این سکیورٹی کونسل کی مستقل نشست حاصل کرنے کی کوششیں کرتا رہا ہے۔ ایک مشہور سینئر انڈین سفارت کار، جو باقاعدگی سے بھارت کی احمقانہ علاقائی اور عالمی اپروچ پر لکھتے رہتے ہیں، کا کہنا ہے، ''اگر بھارتی حکومت احمقوں کی جنت میں رہتی ہے تو اس کے لیے کسی کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں‘‘۔ نائن الیون کے بعد سے بھارتی پالیسی ساز اس غلط فہمی کا شکار رہے کہ ان کا امریکہ کے ساتھ الائنس اُنہیں ایک ''عالمی طاقت‘‘ بنا دے گا۔ یہ جارج بش تھے جنہوںنے سب سے پہلے یہ احمقانہ خیال بھارتی ذہن میں انڈیلا، اور پھر صدر بارک اوباما نے 2010ء میں اس کی مزید آبیاری کی۔ 2010ء کے بعد سے صدر اوباما بھارت سے وعدے پر وعدہ کرتے دکھائی دیے کہ اُسے این ایس جی کی رکنیت دلا دی جائے گی؛ تاہم بھارت کے لوگ، خاص طور پر اس کا میڈیا، ایک بات بالکل نہیں جانتے تھے کہ اس تمام عرصے کے دوران ان کے ملک کو رکنیت دینے کا ایجنڈا اس گروپ کی فہرست میں کبھی بھی شامل نہیں رہا۔ اور کسی اور نے نہیں، اُن کی اپنی حکومت نے اُنہیں سچائی سے دور رکھا۔ 
اب بھارتیوں کو کم از کم چین کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ اس نے اُنہیں حقیقت کا آئینہ دکھا دیا کہ انڈیا کی رکنیت کبھی بھی این ایس جی کے ایجنڈے پر نہیں تھی۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان، ہوا چینانگ کا کہنا تھا۔۔۔ ''جن ممالک نے این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے، اُنہیں اس گروپ میں شامل کرنے کا کوئی ایجنڈا فہرست میں کبھی موجود ہی نہیں تھا‘‘۔ اُنھوں نے اپنے بیان میں تین نکات اٹھائے‘ جن سے پتہ چلتا تھا کہ انڈیا کی این ایس جی میں شمولیت کا معاملہ آسان نہ ہو گا۔ پہلا یہ کہ انڈیا کی شمولیت کے یہ موزوں وقت نہیں کیونکہ این ایس جی اپنی صفوں میں اُن ممالک کو شامل کرنے پر اختلاف پایا جاتا ہے جنہوں نے ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ دوسرا، اتفاق رائے حاصل کرنے کے لیے مزید بحث درکار ہے، اور آخر میں، چین کسی ملک کو ترجیحی بنیادوں پر اس گروپ کی رکنیت دینے کی کبھی حمایت نہیں کرے گا۔ 
بھارت اس گروپ میں شمولیت کے لیے گزشتہ آٹھ برس سے کوشاں ہے۔ اس دوران چین کا موقف بھی اٹل اور دوٹوک رہا ہے۔ اگر نئی دہلی کا ابھی تک یہی خیال ہے کہ کوئی دن جاتا ہے‘ جب اُسے این ایس جی کی رکنیت حاصل ہو جائے گی‘ تو پھر اس کے فہم و ادراک پر سوالیہ نشان ضرور لگ جاتا ہے۔ اسے پتہ ہونا چاہیے کہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کے متفقہ فیصلے کا دار و مدار اس کے پاکستان کے ساتھ رویّے پر ہے۔ چھ جون 1998ء کو منظور ہونے والی قرارداد نمبر 1172 میں یو این سکیورٹی کونسل اس ضرورت کو تسلیم کرتی ہے۔ اس قرارداد میں سکیورٹی کونسل نے دونوں ممالک کی طرف سے ایٹمی دھماکے کرنے کی مذمت کرتے ہوئے دونوں کو ایٹمی ہتھیار رکھنے والی ریاستیں تسلیم کرتے ہوئے مساوی سلوک کا حق دار ٹھہرایا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر امریکہ انڈیا کے ساتھ جوہری ڈیل کر سکتا ہے تو پھر پاکستان کے ساتھ بھی یہ ڈیل کی جانی چاہیے۔ یہ اور بات ہے کہ پاکستان ہمیشہ سے ہی دہرے رویّوں کا شکار رہا، اور اسے بھارت کے مقابلے میں ایٹمی فیول اور ٹیکنالوجی تک رسائی سے محروم رکھا گیا۔ 
تاہم اب چین نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ این ایس جی ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدے پر دستخط نہ کرنے والے ممالک کی رکنیت کے ایشو کا مجموعی طور پر، نہ کہ کسی کو خصوصی حیثیت دیتے ہوئے، جائزہ لیا جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں، گروپ کو کوئی نہ کوئی معیار طے کرنا پڑے گا تاکہ این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے والوں کی رکنیت پر غور کیا جا سکے تاکہ کسی کے ساتھ ترجیحی اور من پسند بنیادوں پر سلوک نہ کیا جا سکے۔ دراصل این ایس جی کوئی تجارتی کلب نہیں ہے جو محض حساس ٹیکنالوجی اور پرزہ جات کو کنٹرول کرتا ہو، یہ دراصل ایک ایسی عالمی تنظیم ہے جس کے وجود کا مقصد ایٹمی عدم پھیلائو کو یقینی بنانا ہے۔ درحقیقت اسے 1974ء میں انڈیا کے پہلے ایٹمی دھماکے، ''سمائلنگ بدھا‘‘ کے رد عمل میں تخلیق کیا گیا تھا کیونکہ اس دھماکے نتیجے میں ایٹمی پھیلائو کا خطرہ پیدا ہو چلا تھا۔ مغرب کا دہرا پن یہ ہے کہ اُس وقت اُس دھماکے کو ''پُرامن‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ انڈیا کے برعکس پاکستان نے کبھی بھی ایٹمی عدم پھیلائو کو چیلنج نہیں کیا۔ جب این پی ٹی کے مسودے کو 1968ء میں حتمی شکل دی جا رہی تھی‘ تو پاکستان نے اس کے مقاصد کی تائید کی تھی؛ تاہم اس نے اس پر دستخط صرف اس لیے نہیں کیے کہ بھارت اپنے جوہری عزائم کو خطرناک حد تک ترقی دے رہا تھا۔ این پی ٹی کے اجرا کے بعد سے اس خطے سے اس کے لیے ہر پیش رفت پاکستان کی طرف سے آئی۔ اس طرح ایس این جی جانتا ہے کہ یہ پاکستان نہیں بلکہ بھارت کا ایٹمی پروگرام ہے جس نے جنوبی ایشیا کی سکیورٹی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ 
مئی 1998ء میں انڈیا نے پانچ ایٹمی دھماکے کیے تو پاکستان کے پاس اسی ماہ اُن کا جواب دینے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔ اگرچہ انڈیا کے دھماکے اُس کے سٹیٹس کے خبط کا ننگا اظہار تھے، لیکن پاکستان کے دھماکوں نے خطے میں جوہری اور تزویراتی توازن قائم کر دیا۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد امریکہ نے دونوں ریاستوں کے ساتھ برابری کی بنیادوں پر مذاکرات کیے۔ فروری 1999ء میں ہونے والے ان مذاکرات کے آخری رائونڈ میں دونوں ممالک کے درمیان ایک واضح جوہری مساوات کی تفہیم طے پا گئی۔ اس مساوات میں ان دونوں کے ساتھ مستقبل میں ایٹمی صلاحیت تک رسائی کا برابری کی سطح پر سلوک کا وعدہ کیا گیا؛ تاہم آج یہ مساوات برہم ہو چکی ہے۔ 2008ء میں واشنگٹن نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تمیز کرنا شرو ع کر دی۔ اس نے امتیازی بنیادوں پر انڈیا کے ساتھ ایٹمی ڈیل کی اور مساوات کے معیار کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے اسے این ایس جی میں شامل کرکے حساس ایٹمی ٹیکنالوجی تک رسائی دینے کا وعدہ کیا۔ یہ بات تعجب خیز ہے کہ جس این ایس جی کو انڈیا کے ایٹمی پھیلائو کو روکنے کے لیے قائم کیا تھا، اب یہی یک طرفہ طور پر انڈیا کو اس میں شامل کرنے کا سوچ رہا ہے۔ جس مقصد کا یہ گروپ سرخیل ہے، انڈیا اسی مقصد کو پامال کرنے پر تلا ہوا ہے؛ تاہم این ایس جی میں موجود انڈیا کے حامیوں کو سمجھ آ گئی ہے کہ اب اس میں رکنیت کا کوئی معیار طے کرنا پڑا گا، اس کے لیے ترجیحی بنیادوں کوئی چور دروازہ تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ 
اگر این ایس جی کی رکنیت کے ذریعے انڈیا کو ایٹمی عدم پھیلائو کا پابند بنایا جا سکتا ہے تو پاکستان کو کیوں نہیں؟ اس میں انڈیا کو امتیازی بنیادوں پر شامل کرنے کا مطلب انصاف کا خون ہو گا‘ اور غالباً این ایس جی نہیں چاہے گا کہ بے انصافی کی وجہ سے اس خطے میں ایٹمی عدم توازن خطرناک رخ اختیار کر جائے۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved