افغانستان میں جگہ جگہ سفارتی عملے کے روپ میں تعینات بھارتی سول اور فوجی اہلکاروں کے ذہنوں میں افغانستان کا درجہ ان کی ایک کالونی سے زیادہ نہیں۔ بھارتی افغانستان میں من مانیاں کرتے‘ دندناتے پھرتے ہیں ‘لگتا ہے کہ انہوں نے افغانستان کو فتح کر لیا ہے۔ کسی بھی افغان عورت کی ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ‘ جب چاہا ‘جہاں سے چاہا ‘جسے چاہا زبردستی اٹھالیا اور اپنی ناپاک ہوس کا نشانہ بنا ڈالا ۔افغانستان کے میڈیا میں اس وقت پاکستان جیسے لبرل اور ترقی پسند بھارت نواز لکھاریوں کی تعداد بہت زیا دہ ہے اس لئے کوشش کی جاتی ہے کہ ان خبروں کو دبا دیا جائے لیکن کبھی کبھی متاثرہ خاندان این ڈی ایس (خفیہ افغان ایجنسی) کی دھمکیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سامنے آ جاتا ہے ۔اسی قسم کا ایک تازہ افسوسناک واقعہ بھارتی سفارت خانے کے دفاعی اتاشی بریگیڈئر ایس کے نرائن کی صورت میں سامنے آ یا ہے جس کے ہاتھوں لٹی ایک افغان لڑکی کی پکار نے ان سب کا چہرہ ننگا کر دیا ۔متاثرہ افغان طالبہ کا کہنا ہے کہ میرے علا وہ اب تک نہ جانے کتنی معصوم افغان بچیاں سکالر شپ کی آڑ میں سفارت خانے کے بھارتی اہلکاروں کی بر بریت کا نشانہ بن چکی ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ یہ بھارتی اہلکار نجی محفلوں اور ایس ایم ایس میں بڑے فخر سے افغان لڑکیوں کے قصے سناتے ہیں ۔ ابھی دو ہفتے قبل بھارت کی قومی کرکٹ ٹیم زمبابوے کے دورہ پر پہنچی تو اس کے ایک مشہور کرکٹر نے وہاں کی مقامی خاتون سے زبردستی زیا دتی کر ڈالی متاثرہ خاتون کے شور مچانے پر پورے زمبابوے میں ہلچل مچ گئی جس پر زمبابوے پولیس اس بھارتی کھلاڑی کو گرفتار کر کے لے تو گئی لیکن
چانکیہ کے چیلوں نے ایک چھوٹے ملک کی انتظامیہ پر محکوم کشمیریوں کی طرح رعب ڈال کر اس معاملے کو رفع دفع کرا دیا اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا کھلاڑی فخر سے مسکراتا ہوادوبارہ ٹیم میں کھیلنے کیلئے شامل ہو گیا۔
جون کے پہلے ہفتے میں امرتسر ایکسپریس میں سوار تین بھارتی فوجی چھٹیاں گزارنے کے بعد واپس مقبوضہ کشمیر اپنی یونٹوں میں جا رہے تھے راستے میں انہوں نے ایک چودہ سالہ معصوم لڑکی کو زبردستی شراب پلا کر اجتماعی زیا دتی کا نشانہ بنا ڈالا اور لڑکی کی حالت غیر ہونے پر اسے ٹرین سے نیچے پھینک گئے ۔ چند سکھ وہاں سے گزر رہے تھے جن کی نظر پڑ گئی اور معاملہ میڈیا تک جا پہنچا۔ایشیاہیومن رائٹس کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطا بق مقبوضہ کشمیر میں تعینات چھ لاکھ کے قریب بھارتی فوج اور بارڈر سیکیورٹی فورس کے لوگ اب تک کشمیر کی 70 ہزار کے قریب بہو بیٹیوں کو زبر دستی اپنی ہوس کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ کوئی انہیں پوچھنے اور ٹوکنے والا نہیں ۔وجہ یہی بتائی جا تی ہے کہ جب بھارتی فوج کے سپاہی اپنے افسران کو خوش کرنے کیلئے کشمیرکی بیٹیوں کو ان کے گھروں سے بندوق کی نالی کے زور پر اغوا کر کے پیش کریں گے تو وہ من مانیاں کرنے کیلئے خود کس طرح پیچھے رہ سکتے ہیں۔
2007 ء میں بھارتی فوج کے ایک میجر جنرل اے کے لال کا ا پنی جونیئر افسر سے زبردستی زیا دتی کرنے پر کورٹ مارشل ہوا لیکن اس خبر کو میڈیا پرجان بوجھ کر جاری نہیں کیا گیا کہ اس طرح فوج کے مورال پر برا اثر پڑے گا لیکن بھلا ایسی خبریں بھی چھپی رہ سکتی ہیں ۔حیران کن بات یہ ہے کہ میجر جنرل اے کے لال بھی دو سال کشمیر میں گزار کر آئے تھے اور کلاشنکوف کی نوک پر محکوم مسلم خواتین کی عزتوں سے کھیلنا ان کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ ستمبر2013ء میں بھارتی فوج کے ایک لیفٹیننٹ کرنل اجے چوہدری کا،جو میانمار میں تعینات تھا 24 کروڑ مالیت کی ہیروئین سمگلنگ کرنے کے جرم میں گرفتار کرتے ہوئے کورٹ مارشل کیا گیا ۔اس کی تفتیش کی گئی تو حیران کن طور پر اس نے سفارت خانے آنے والی خواتین سے زبردستی جنسی زیا دتیوں کے جرائم کا بھی اقرار کر لیا۔
کابل میں بھارتی سفارت خانے کی جانب سے افغان طالبات کو سکالر شپ دینے کیلئے اخبارات میں اشتہارات دیئے گئے جس پر سینکڑوں کی تعداد میں افغان طالبات نے درخواستیں جمع کرانے کیلئے بھارتی سفارت خانے آنا شروع کر دیا بھارتی فوج کے بریگیڈیئر ایس کے نرائن جو کابل میں افغانستان کے بھارتی سفارت خانے میں بطور فوجی اتاشی کام کر رہا تھا وہاں سکالر شپ کیلئے درخواست دینے کیلئے آنے والی افغان طالبات کی مجبوریوں
سے کھیلنا شروع ہو گیا ۔ہو سکتا ہے کہ اس کا گھنائونا کھیل طویل عرصے تک چلتا لیکن ایک ضرورت مند افغان لڑکی اپنا سب کچھ تباہ کرانے کے بعد بول پڑی کیونکہ ایس کے نرائن اس خاتون کو دیکھتے ہی بھوکے کتے کی طرح اس کے پیچھے پڑ گیا اور اسے صاف کہہ دیا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے صرف اس طالبہ کو سکالر شپ دیا جائے گا جس کی وہ کلیرنس رپورٹ جاری کرے گا کہ اس کا یا اس کے خاندان کا تعلق کہیں طالبا ن یا پاکستان کے ساتھ تو نہیں اوراس طرح اسے اپنے دفترمیں لے جا کر اس کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے زبردستی اس کی عزت کا جنازہ نکال دیا۔ شائد بھارتی فوج کے ہر افسر اور سپاہی کی نظر میں افغان خواتین بھی کشمیر کی بہو بیٹیوں کی طرح ان کی محکوم بن چکی ہیں؟ستم ظریفی یہ دیکھئے کہ افغان حکومت نے تو ڈر کے مارے اس پر چپ سادھے رکھی کہ کہیں ان کی طرف سے کسی بھی قسم کی حرکت سے ''تاجدار ‘‘ افغانستان نریندر مودی کا موڈ نہ خراب ہو جائے بلکہ اس افغان لڑکی اور اس کے اہل خانہ کو دھمکی دیتے ہوئے انہیں خاموش رہنے کی تاکید کر دی لیکن یہ افغان طالبہ پہلے بھارتی سفارت خانے اور پھر شنوائی نہ ہونے پر میڈیا کے پاس پہنچ گئی جس پر معاملہ باہر آنے پر بھارتی سفارت خانے اور افغان چیف ایگزیکٹو عبد اﷲ عبد اﷲ کی مشاورت سے بریگیڈیئر ایس کے نرائن کے خلاف کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی کرنے کی بجائے اسے خاموشی سے واپس بھارت بھجوا دیا گیا ۔
ایسا لگتا ہے کہ بھارتی فوج کو یہی تربیت دی جا رہی ہے کہ تم لوگ جہاں بھی جائو وہاں کا سب کچھ تمہاری ملکیت ہے اور وہاں رہنے والے سب لوگ تمہارے غلام اورمحتاج ہیں آپ کی حکومت افغانوں کیلئے ڈیم اور سڑکیں بناتی ہے ان کو کھانے پینے کیلئے مدد فراہم کرتی ہے اس لئے وہاں کی عورتیں بھی تمہاری ملکیت ہیں شائد یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں اقوام متحدہ کے امن مشن کیلئے جانے والے بھارتی فوجی وہاں کی خواتین کی جبری آبرو ریزی کرنا بھی اپنا حق سمجھ بیٹھے ہیں ۔ کانگو میں امن مشن کیلئے جانے والے بھارتی فوجیوں نے کانگو کی لڑکیوں اور خواتین کو پکر پکڑ کراُن سے زیادتی شروع کر دی۔ ان لڑکیوں کے حاملہ ہونے پر یہ معاملہ گھروں سے نکل کر میڈیا کے سامنے آ گیا تو وہاں کے لوگوں نے اس پر احتجاج شروع کر دیا جس پر ایک لیفٹیننٹ کرنل اور دو میجروں سمیت چودہ بھارتی فوج کے افسروں اور جوانوں کو کانگو سے نکال دیا گیا۔ شائد یہی وجہ ہے کہ امن مشن کیلئے بھیجی گئی بھارتی فوج کادنیا بھر کے میڈیا میں رسوا ہوکر کانگو سے نکالے جانے کا انتقام لینے کے لیے بھارت میں تعلیم کی غرض سے آئے ہوئے کانگو کے 6 طلبا کو بھارتی انتہا پسندوں اور ان کے بھیس میں کام کرنے والے خفیہ ایجنسی کے غنڈوں نے قتل کیا ہو؟۔ خواتین کی بے حرمتی کا معاملہ صرف کانگو تک ہی محدود نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے امن مشن کیلئے کسی بھی جگہ جانے والے بھارتی فوجیوں کی شرمناک حرکتوں کی اقوام متحدہ کی فائلیں گواہ ہیں۔اسی لئے کانگو اور دوسرے ممالک میں خواتین بھارتی فوجیوں کو نکالنے کیلئے باقاعدہ احتجاج کرتی دکھائی دیتی ہیں ان کے ہاتھوں میں پکڑے بینرز پر انگریزی لکھا ہوتا ہے ''سیاہ کاروں کی فوج‘‘!!