''یہ کمیاب وسائل کی دنیا ہے ‘‘ یہ جملہ بار بار دہرا یاجاتاہے ۔معیشت (Economics)کاسب سے بنیادی اصول ہی یہی ہے کہ وسائل ہمیشہ محدود ہوتے ہیں (Resources are scarce)؛لہٰذا احتیاط سے انہیں ان چیزوں پر صرف کرنا چاہیے ، جن میں صارف کو زیادہ سے زیادہ فائدہ (Utility)حاصل ہو ۔ وسائل کی یہ کمیابی ہماری روزمرّہ زندگی کا حصہ ہے ۔ وسائل کی کمی نہ ہو تو گھر کا ہر فرد اپنی ذاتی کار بلکہ ہوائی جہاز رکھنا پسند کرے ۔ہمارے پہننے ، اوڑھنے ، کھانے پینے کی ہر چیز اور ہر خواہش کی تکمیل میں وسائل کی یہی کمیابی حائل ہے ۔ ان وسائل پہ قبضے کی جنگ اس وقت سے جاری ہے ، جب سے انسان نے ہوش سنبھالا ہے اور تب تک جاری رہے گی ، جب تک ہم زندہ ہیں ۔عمارتیں ، تیل کے کنویں ، کوئلے ، ہیرے کی کانیں ، جس کے پاس زیادہ وسائل ہوں گے ، اسی کو زیادہ عزت دی جاتی ہے ۔ لوگ جھک کر سلام کرتے ہیں ۔ دوسری طرف انہی وسائل کی خاطر ،ساری زندگی ہم اپنا پسینہ بہاتے ہیں ۔ اپنی زندگی کا زیادہ تر وقت ہم انسان رزق کمانے میں لگاتے ہیں ۔ اس میں خود کفیل ہو جائیں تو پھر آسائشوں (Luxuries)کے حصول میں ، جو وسائل ہی کا دوسرا نام ہے ۔
وسائل کی کمیابی اتفاق نہیں ، ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے ۔ یہ خیال مجھے اس وقت آیا ، جب میں نے نیلی وہیل (Blue Whale)کے بارے میں پڑھا۔ کرئہ ارض کی تاریخ میں جتنے بھی جاندا رگزرے ہیں ، یہ ان میں سب سے بڑی ہے ؛حتیٰ کہ ڈائنا سار سے بھی ۔ اس کی لمبائی 100فٹ ہوتی ہے اور وزن 150ٹن سے زیادہ یعنی ڈیڑھ لاکھ کلو گرام ۔ ایک اسّی کلوگرام کا آدمی دس کلو وزن بڑھنے پر موٹا اور بھدّا دکھائی دینے لگتاہے ، نیلی وہیل کا وزن روزانہ کی بنیاد پر 70کلو بڑھتاہے ۔ اس کی کم از کم تین اقسام ناپید (Extinct)ہوچکی ہیں ، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم۔ سوسال تک انسان نے ان کااس بے دردی سے شکار کیا کہ موجودہ آخری نسل بھی ناپید ہوتے ہوتے بچی۔ اس کی صرف زبان کا وزن اڑھائی ہزار کلو ہے ۔ پہلے سات ماہ کے دوران نیلی وہیل کا بچہ روزانہ کم و بیش 400لٹر دودھ پیتا ہے ۔جیسا کہ پہلے عرض کیا، اس کی تین انواع ناپید ہو چکی ہیں ۔اپنی خوراک میں تقریباً مکمل طور پر یہ دو انچ کے ایک حقیر کیڑے Krillپہ منحصر ہے ۔ ایک جوان نیلی وہیل روزانہ کم و بیش ایسے چار کروڑ کیڑے کھا جاتی ہے ۔ اگلے روز چار کروڑ مزید موجود ہوتے ہیں ۔ اب ذرا ایک لمحے کو سوچیے ، جو سمندر میں ایسے جاندار پال رہا ہے اور جو زمین پہ
ڈائنا سار پالتا رہا، آپ کا کیا خیال ہے کہ انسان کو زیادہ خوراک دینا اس کے لیے مشکل ہے ؟ کیا سمندر سے دس بارہ ایسے جاندار نکال کر قحط کے ماروں کو نہیں دے سکتا ۔ کیوں نہیں لیکن اس کی کتاب میں اس وقت قحط سے لاکھوں کی موت درج ہوتی ہے ۔ یہ کتاب ایک مکمل منصوبے کے تحت بنائی گئی ہے اور اس کا ایک لفظ بھی ادھر سے ادھر نہیں ہو سکتا۔ چلیے فرض کیجیے ، آپ کو قحط سے پالا نہ پڑا، آپ کو تمام تر وسائل میسر آئے ۔ پھر کیا آپ کو بڑھاپا اور موت نہ آلے گی ؟ اور بڑھاپے سے بری کیا چیز ہو سکتی ہے ۔
اب ذرا ہیرے جواہرات، سونے چاندی پر آجائیے ۔ سونا ایک ایسی ٹھوس، پائیدار قسم کی دھات ہے ، جو دوسرے عناصر کے ساتھ تعامل نہیں کرتی ۔ یہ چمکدار رنگ رکھتی ہے ۔ اسے انسانوں نے قیمتی جانا تو یہ قیمتی ہوئی وگرنہ کون اسے پوچھتا تھا۔آج بھی ہم اسے کھا تو نہیں سکتے ۔ لوہے ہی کی طرح ، یہ ستاروں میں بنی ، دم دار ستاروں کی صورت میں زمین پر نازل ہوئی ۔ ستاروں میں آج بھی دیکھ لیجیے، یہ سب قیمتی عناصر تشکیل پارہے اور خلا میں بکھرتے جا رہے ہیں ۔ صرف ایک بڑا دمدار ستارہ زمین کو اس قدرقیمتی جواہرات سے بھر سکتاہے ، جو ہمارے وہم و گمان سے بھی باہر ہوں لیکن تب پھر اس فراوانی کے بعد یہ قیمتی نہیں رہیں گے ۔ جس خدا نے پانچ ارب مخلوقات کو اس چھوٹے سے سیارے پر پالا، کیا اس کے لیے ان میں سے ایک (انسان ) کو زیادہ رزق اور زیادہ وسائل دیناایک مشکل کام تھا؟ جی نہیں ، وسائل کی یہ کمیابی ہماری آزمائش کا ذریعہ ہے ۔
بہت سے رشتے وسائل کی کمیابی تک ہی باقی رہتے ہیں ۔ آپ فلمی دنیا میں دیکھ لیجیے ، امریکہ اور یورپ کو دیکھیے ۔ جہاں ایک دوسرے پہ انحصار ختم ہوا، جہاں معاشی تنگی ختم ہوئی ، رشتے ٹوٹنے لگے ، طلاق عام ہوئی ۔
نیلی وہیل کی کھوپڑی بیس فٹ لمبی ہے ۔ یہ اور ان جیسے ان گنت جاندار اس زمین پر کیوں پیدا کیے گئے؟ ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے ڈائنا سار سمیت زمین کے 70فیصد جاندار کیوں ہلا ک ہوئے ۔ سائنس بتاتی ہے کہ انہی جانداروں کے مردہ اجسام سے وہ کوئلہ ، تیل اور گیس بنی ہے ، آج ہم جسے استعما ل کر رہے ہیں ۔ مختلف حادثات میں زمین مختلف پلیٹوں میں تقسیم ہوئی ۔ وہ حرکت کرتے اور ٹکراتے ہیں اور یہ کاربن کے چکر سمیت ، مختلف مفید عمل قائم رکھتی ہے ۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آکسیجن کے انقلاب (Great Oxydation Event)، سے لے کر Cambrian Explosionاور چک ژولب والے دم دار ستارے میں ڈائناسار ز کی اموات تک ، جتنے بھی بڑے واقعات اور حادثات ہمیں نظر آتے ہیں ، وہ سب کے سب ایک مکمل منصوبے کا حصہ تھے ۔
بکرے ، ہرن ، گائے ، بیل ، مختلف جانداروں سے انسان خوراک حاصل کرتا اور ان کی قوت سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔ انہی کو وہ کھیتی باڑی میں جوتتا رہا ۔ یہ جاندار دوسرے بہت سے پودوں اور جانوروں پہ منحصر ہیں ۔ یوں یہ ایک بہت بڑا چکر ہے ، جس میں مختلف جاندار ایک دوسرے کی خوراک بنتے ہیں ۔ان سب چیزوں کو ملا کر وہ مثالی حالات جنم لیتے ہیں ، جن میں آج کا انسان زندگی گزار تا اور آزمایا جا رہا ہے ۔ وہ اس زمین پر اکیلا نہیں رہ سکتا تھا۔ اسے دوسرے جانوروں اور پودوں کی مدد درکار تھی ۔