اختلاف کی گنجائش موجود اور دفتر خارجہ کی کارکردگی پر سوالات و اعتراضات بجا مگرایڈیٹرز اوراینکرز کے سامنے مشیر خارجہ سرتاج عزیزنے قومی خارجہ پالیسی کا دفاع خوب کیا اور مشکل مراحل خوش اسلوبی سے طے کیے۔
شفقت جلیل نے دفتر خارجہ کی بریفنگ میں شرکت کی دعوت دی تو طبیعت رمضان المبارک کی وجہ سے سفر پر آمادہ نہ تھی مگر مجیب الرحمن شامی صاحب اور عارف نظامی صاحب کی رفاقت غنیمت لگی۔ کسی زمانے میں وزرائے خارجہ ہی نہیں صدر اور وزیر اعظم بھی ہر چار چھ ہفتے بعد سینئر اخبارنویسوں کے ساتھ تبادلہ خیال کوضروری سمجھتے تھے۔ یہ روایت جنرل پرویز مشرف کے دور تک برقرار رہی۔ بھٹو صاحب تو خیر بلا کے ذہین‘ برجستہ گو اور حاضر جواب سیاستدان تھے، زبان کے دھنی اور دماغ کے غنی‘ مگر جنرل ضیاء الحق بھی ابتدائی دنوں کی جھجک کے بعد رواں ہو گئے تھے۔ مجید نظامی مرحوم اور نثار عثمانی مرحوم جیسے صاف گو اور کسی حد تک تلخ نوا صحافیوں کا سامنا دلیری سے کرتے۔ شرمیلے محمد خان جونیجو بھی وقتاً فوقتاً اہم قومی امور پر سینئر صحافیوں کو اعتماد میں لیتے اور حال دل بیان کرتے۔ محترمہ بینظیر بھٹو اپنے والد کی طرح گفتگو میں طاق تھیں بلکہ بسا اوقات صحافیوں کو یہ شکایت پیدا ہوتی کہ وہ بولتی زیادہ سنتی کم ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف جب ایک دوسرے کے مدّ مقابل تھے تو یہ بات زبان زد عام تھی کہ دونوں مقبول سیاستدانوں میں سے ایک کسی کی سنتا نہیں‘ دوسرا کچھ سمجھتا نہیں۔ میاں صاحب جب بھی اقتدار میں آئے مقرّب و مخصوص صحافیوں کے سوا انہوں نے کسی کو تبادلہ خیال کے لائق نہیں سمجھا۔ ہمیشہ اپنے پسندیدہ صحافیوں کے درمیان آسودگی محسوس کی۔ 1997-99ء کے دوران تو ایک ہیلی کاپٹر گروپ وجود میں آیا جو اتنا طاقتور تھا کہ میاں صاحب کے قریبی ساتھی بھی ان سے خائف رہتے۔ اخبار نویسوں سے تسلسل کے ساتھ تبادلۂ خیال کی روایت نے میاں صاحب کے دوسرے دور میں دم توڑا مگر جنرل پرویز مشرف نے اس کا بارِ دگر احیا کیا کیونکہ موصوف میں کئی اور خامیاں سہی لیکن وہ اپنا مدعا بیان کرنے اور صحافیوں کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کربات کرنے پر قادر تھے۔ جنرل پرویز مشرف اپنے حامی اور مخالف‘ ملکی اور غیر ملکی صحافیوں سے جس طرح کھل کر بات کرتے اور سخت سے سخت سوال کا جواب دیتے کوئی اور باید و شاید! بعض لوگ تو الیکٹرانک میڈیا کی ترویج کو بھی جنرل صاحب کی اسی خود اعتمادی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ آگرہ میں بھارتی اخبار نویسوں کو انہوں نے جس طرح زچ کیا اسے یاد کر کے آج بھی کئی بھارتی صحافی لال پیلے ہو جاتے ہیں۔
آغا شاہی‘ صاحبزادہ یعقوب خان‘ خورشید محمود قصوری‘ سردار آصف احمد علی اور عبدالستار بطور وزیر خارجہ ہمیشہ اخبارنویسوں کی دسترس میں رہے اور ہر اہم ایشو پر وہ میڈیا کو بریف کرکے خورسند ہوئے۔ خورشید قصوری اس ملک کے آخری وزیرخارجہ تھے جواسلام آباد‘ کراچی اور لاہو ر میں ہر ماہ اخبار نویسوں کے ساتھ کبھی دفتر خارجہ‘ کبھی سٹیٹ گیسٹ ہائوس میں اور کبھی اپنی اقامت گاہ پر مکالمے کا اہتمام اور قومی و بین الاقوامی معاملات میں اہم پیش رفت سے میڈیا کو آف دی ریکارڈ آگاہ کرتے ع
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
سرتاج عزیز صاحب نے بریفنگ میں سفارتی محاذ پر حکومت اور دفتر خارجہ کی کامیابیاں گنوائیں جن میں سے قابل ذکر نیوکلیٔر سپلائر گروپ میں شمولیت کے حوالے سے بھارت کی ناکامی ہے ؛ حالانکہ امریکی صدر بارک اوباما نے بھارت کے حق میں مہم چلائی‘ مختلف ممالک کے سربراہوں کو خطوط لکھے اور فون کیے۔ جبکہ گزشتہ تین سال کے دوران پاکستان نے بین الاقوامی تنظیموں کے اٹھارہ الیکشن لڑے اور سترہ جیتے ‘ شنگھائی تنظیم کی رکنیت بھی ہماری سفارتی کامیابی ہے مگران کے بقول ہمارے سیاستدان‘ بعض تجزیہ کار اور دانشور ایسے ہیں جنہیں بھارت کی سفارت کاری کامیاب اور اپنی ناکام نظر آتی ہے اور نہیں سوچتے کہ سفارتی طور پر تنہا ملک امریکہ کے حمایت یافتہ بھارت کا راستہ روک سکتا ہے نہ بین الاقوامی تنظیموں کے انتخابات میں باربار کامیابی حاصل کرنے کی پوزیشن میں۔
سرتاج عزیز صاحب نے برملا اس بات کا اعتراف کیا کہ دنیا بھر میں خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ کے تعاون اور تائید سے تشکیل پاتی جبکہ دفاع کی طرح خارجہ امور اور سفارت کاری کے محاذ پر بھی جی ایچ کیو کی صلاحیت کار سول اداروں سے بہتر ہے۔ مشیر خارجہ نے یہ بدیہی حقیقت بھی بیان کی کہ اندرونی سیاسی اور معاشی استحکام اور سول اداروں کی بہتر کارکردگی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوتی اورکامیابی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ طویل بریفنگ سے ان تجزیہ کاروں کے موقف کو تقویت ملی جو عرصہ دراز سے چیخ چلّا رہے ہیںکہ ہم دنیا میں یکّہ و تنہا نہیں مگرسول ادارے بے عملی اور زوال کا شکار ہیں۔ فوج کے سوا کوئی ادارہ ملک میں باقی نہیں بچا جسے ہمارے منتخب اور فوجی حکمرانوں نے سیاست زدہ کر کے تباہ نہ کیا ہو۔ پولیس‘ انتظامیہ‘ تعلیم‘ صحت‘ عدلیہ اور سراغرسانی کے ادارے مسلسل رُو بہ زوال ہیں اور انہیں بہتر بنانے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ کراچی بے عملی‘ کوتاہ اندیشی اور زوال کی بدترین مثال ہے، جہاں آپریشن کی وجہ سے اچھی خاصی بہتری آئی مگر سول اداروں کے تساہل‘ نالائقی اور عدم تعاون کی وجہ سے حالات نے یو ٹرن لیا اور کراچی ہی نہیں ملک کے عوام ایک بار پھر بے یقینی اور عدم تحفظ کا شکار ہوگئے۔
گزشتہ روز وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے ایک بار پھرکراچی کے عوام کوبعض یقین دہانیاں کرائیں۔ آرمی چیف اور ڈی جی رینجرز نے حوصلہ دیا اور آپریشن کے کپتان سید قائم علی شاہ
نے بھی بعض اقدامات کی منظوری دی، مگر ایسا گزشتہ اڑھائی سال میں چار چھ بار ہو چکا ہے۔ سانحہ صفورا کے بعد اس سے بھی زیادہ بلند بانگ دعوے ہوئے اور دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں پر زمین تنگ کرنے کا اعلان ہوا مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ لوگ جانتے ہیں کہ شاخیں کاٹنے سے دہشت گردی کا درخت کمزور ہوتا ہے نہ ناسور و ناکارہ عضو کو کاٹ پھینکے بغیر انسان صحت یاب۔ جب تک دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کے چار چھ بڑے سرپرستوں کو پکڑ کر الٹا نہیں لٹکایا جاتا ‘ یہ عبرت کا نشان نہیں بنتے اس وقت تک پاک سرزمین پارٹی بنانے‘ ڈاکٹر عاصم حسین اور عزیر بلوچ کی ویڈیوز سامنے لانے سے نیٹ ورک ٹوٹ سکتا ہے نہ پائیدار امن کی ضمانت مل سکتی ہے۔ اویس مظفر ٹپی اور دیگر سرپرستوں و سہولت کاروں کے بآسانی بیرون ملک فرارکے بعد ویڈیوز منظر عام پر لانا تو سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنے کے مترادف ہے۔ کراچی سے فرار ہو کر بلوچستان‘ اندرون سندھ اور پنجاب میں پناہ لینے والوں کا تعاقب کرنے کی بجائے صرف عروس البلاد میں چھاپے مسئلہ کا حل نہیں۔ ایم کیو ایم چھوڑ کر پاک سرزمین پارٹی یا کسی دوسری جماعت میں شامل ہونے والے بلدیہ ٹائون اور 12مئی2007ء کے مبینہ ملزموں سے چشم پوشی اور آپریشن کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والی سیاسی قیادت کے علاوہ پولیس و انتظامی افسران سے نرمی اگر سیاسی مصلحت ہے تو پھر بلا امتیاز احتساب کے دعوئوں پر کون یقین کر سکتا ہے؟ ایم کیو ایم کے علاوہ پیپلز پارٹی کی طرف سے آپریشن کو محض سیاسی حربہ قرار دیا جائے تو کون غلط قرار دے گا۔ آخر کراچی کے عوام یہ تاثر دینے کے بعد کہ پنجاب اور اسلام آباد ملک کی اقتصادی و معاشی شہ رگ پر قبضے اور غلبے کی جنگ میں مصروف ہیں،کامیابی کی امید کیسے کی جا سکتی ہے؟ جبکہ نواز شریف‘ عمران خان اور دیگر قومی قائدین کراچی کے عوام کی بات سننے‘ ان کے زخموں پرمرہم رکھنے‘ رابطہ عوام کی مہم کے ذریعے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے تیارہی نہیں۔ حیرت عمران خان پر ہے جس نے آٹھ لاکھ ووٹروں کی لاج نہیں رکھی اور مخلص کارکنوں کو مایوس کیا۔
کراچی کے عوام کو ریلیف دینے‘ انہیں شرکت کا احساس دلانے اور انصاف کی یقین دہانی کرانے کے لیے ٹھوس اور حقیقی اقدامات پائیدار امن کی ضمانت فراہم کرسکتے ہیں مگر ریاست ‘حکومت اور قومی ادارے مصلحتوں کی چادر اوڑھ لیں‘ طاقتور مافیاز اور انہیں چلانے والے ڈان زندہ و موجود رہیں اور ریاست‘ سیاست، عدلیہ اور دیگراداروں کے لیے خطرہ تو مایوسی و بے یقینی امید اور اعتماد میں کیسے بدلے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ نہ قاتل کو معلوم ہو گا اس نے کیوں قتل کیا اور نہ مقتول کو خبر ہو گی کہ وہ کیوں قتل ہوا‘‘۔ کراچی میں عرصہ دراز سے یہی ہو رہا ہے ؎
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہُو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
دعوئوں‘ خواہشات سے پیٹ بھرتا ہے نہ امن ملتا اور نہ ظلم گھٹتا‘ مٹتا ہے؛ صرف اور صرف ٹھوس عملی اقدامات جناب والا! کراچی اور ملک بھر میں ہرجگہ لیپا پوتی نہیں‘ بے رحمانہ سرجری‘ بے لاگ احتساب!