تحریر : آغا مسعود حسین تاریخ اشاعت     30-06-2016

کراچی آپریشن جاری رہے گا!

گزشتہ اتوار کے روز کراچی میں ملک کی دو اہم شخصیات موجود تھیں، چیف آف آرمی سٹاف جناب راحیل شریف اور وفاقی وزیر داخلہ جناب نثار چودھری صاحب۔ جنرل راحیل شریف نے کراچی میں اپنے قیام کے دوران کراچی کی سکیورٹی کے حوالے سے ایک اعلیٰ سطی اجلاس کی صدارت کی‘ جس میں سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ‘ سندھ کے گورنر عشرت العباد، آئی ایس آئی کے سربراہ جناب رضوان اختر اور سندھ میں رینجرز کے سربراہ جناب میجر جنرل اکبر موجود تھے۔ جنرل راحیل شریف نے کراچی کے عوام کو واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ ٹارگٹڈ آپریشن جاری رہے گا۔ کراچی میں امن کے قیام اور سماج دشمن عناصر کا قلع قمع کرنے میں رینجرز اور کراچی پولیس نے اہم کردار ادا کیا، لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے امجد صابری قوال کے قتل پر گہرے رنج و غم کا اظہارکرتے ہوئے ان کے خاندان کو یہ یقین دلایا کہ قاتلوں کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔ انہوں نے رینجرز کو یقین دلایا کہ کراچی کی سکیورٹی کے حوالے سے اور امن عامہ کے قیام کے لئے رینجرز کو اگر مزید سہولتیں درکار ہیں تو انہیں مہیا کی جائیں گی۔
وزیر داخلہ چودھری نثار نے بھی امجد صابری کے اہل خانہ کو یقین دلایا ہے کہ امجد صابری کے قاتلوں کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بعض شرپسند عناصر کراچی میں امن کا قیام نہیں چاہتے تاکہ اس شہر کی معاشی و سیاسی سرگرمیاں بحال نہ ہو سکیں، لیکن دشمن کے یہ ناپاک عزائم کبھی پورے نہیں ہو سکیں گے، کراچی کے عوام دہشت گردی کے خلاف حکومت کے ساتھ متحد و منظم ہیں۔ کراچی میں ملک کی دو اہم شخصیات کی موجودگی سے کراچی اور سندھ کے عوام کو یہ حوصلہ ملا ہے کہ عسکری اور سیاسی قیادت کو شہر میں لا اینڈ آرڈر کے حوالے سے حالات کا بخوبی علم ہے‘ اور ان کی یہ کوشش ہے کہ سماج دشمن عناصر کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہ برتی جائے‘ بلکہ کراچی آپریشن کو بھرپور عزم اور حوصلے کے ساتھ جاری رہنا چاہئے۔ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے جو کمزوری نظر آرہی ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سندھ‘ بالخصوص کراچی کی سیاسی جماعتوں کا رینجرز اور پولیس کے ساتھ تعاون نہ ہونے کے برابر ہے‘ جبکہ موجودہ جمہوری معاشرے میں قانون کی بالادستی کے قیام اور احترام اور سماج دشمن عناصر کی بیخ کنی کے سلسلے میں سیاسی جماعتوں کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے؛ تاہم کراچی میں ایسا نظر نہیں آ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سماج دشمن عناصر اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر اپنا گھنائونا کھیل کھیل رہے ہیں۔ بعض اہم افراد کا یہ کہنا ہے کہ امجد صابری کے قتل میں کچھ سیاسی عناصر بھی ملوث تھے‘ جن کا اپنا ایک 
مخصوص ایجنڈا ہے اور جس کے تانے بانے بیرونی ممالک سے جڑے ہوئے ہیں۔ بقول ان افراد کے دہشت گردی کے اس نیٹ ورک کو توڑنا انتہائی اہم ہے۔ بسورت دیگر کراچی میں لاقانونیت کی آگ کو دائمی بنیادوں بجھانا ممکن نہ ہو سکے گا۔ 
سندھ حکومت کی کارکردگی کے بارے میں جو کچھ بھی کہا جائے کم ہے۔ پارٹی کے بعض ذمہ دار عناصر نے کراچی پولیس کو مکمل طور پر سیاسی بنا دیا ہے۔ نیز تھانوں کی خرید و فروخت کے علاوہ من پسند پولیس افسروںکی اچھی جگہ پوسٹنگ بھی ان عناصر نے اپنے ہاتھوں 
میں لے کر لا اینڈ آرڈر کے حوالے سے صورتحال کو انتہائی پیچیدہ بنا دیا ہے۔ کراچی کے عوام کو درپیش ایک اور تکلیف دہ مسئلہ گلیوں اور سڑکوں پر دن دہاڑے لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا سلسلہ ہے۔ رینجرز نے سٹریٹ کرائم کو روکنے کی کسی حد تک کوشش کی‘ اور اب بھی کر رہے ہیں لیکن کراچی پولیس کے بعض چھوٹے بدعنوان اہل کار مبینہ طور پر سٹریٹ کرائم کرنے والوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سٹریٹ کرائم میں کمی نہیں آ رہی ہے۔ اس کے علاوہ کراچی کے مختلف علاقوں میں پولیس کے ٹائوٹ ٹھیلے والوں سے بیس روپیہ روزانہ کے حساب سے وصول کرتے ہیں‘ جو شام تک کئی لاکھ روپے بن جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ رقم بعد میں پولیس کے بڑے افسران کے درمیان تقسیم کر دی جاتی ہے۔ اس صورتحال سے سندھ کی حکومت کے علاوہ سندھ رینجرز بھی واقف ہے‘ لیکن اس کھلی برائی اور لوٹ کھسوٹ کو روکنے والا کوئی نہیں۔ چھوٹے بڑے جرائم میں پکڑے جانے والے عناصر عدالتوں سے ضمانت (Bail) کرا کر چھوٹ جاتے ہیں اور دوبارہ اپنا پرانا کاروبار شروع کر دیتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے بالائی سطور میں لکھا: پولیس میں بدعنوان عناصر کی موجودگی بھی کراچی میں لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ نیز ابھی تک صحیح معنوں میں پولیس میں اصلاحات نہیں ہو سکی ہیں حالانکہ پولیس کی اصلاحات سے متعلق جامع رپورٹس بھی موجود ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان پر عمل درآمد کون کرے گا؟ اور کیا پولیس کے بڑے افسران واقعی پولیس میں اصلاحات کی دلچسپی رکھتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ نہیں؛ چنانچہ کراچی کے معاملات کو خصوصیت کے ساتھ لا اینڈ آرڈر کے حوالے سے کون سنوارے یا سدھارے گا؟ کیا یہ شہر اسی طرح لاقانونیت کی آگ میں جلتا رہے گا؟ نامور یا غیر نامور بے گناہ افراد یونہی قتل ہوتے رہیں گے، جبکہ سندھ کی حکومت متاثرین کو یہ کہہ کر ''مطمئن‘‘ کرتی رہے گی کہ قاتلوں کو جلد گرفتار کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔گزشتہ پندرہ سالوں سے نامور افراد کے قاتلوں کو نہ تو گرفتار کیا جا سکا ہے‘ اور نہ ہی ان کا پتہ چل سکا ہے۔ قاتلوں کو نہ پکڑنے کے سلسلے میں سیاسی جماعتوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سیاسی مصلحتوں اور مفاہمت کی وجہ سے سماج دشمن عناصر کو حوصلہ ملتا ہے‘ اور پھر یہ عناصر نئے حوصلوں کے ساتھ کراچی کے باسیوں کو لوٹنے اور قتل میں تیزی سے آگے بڑھتے ہیں کیونکہ ان کی پشت پناہی کرنے والے موجود ہوتے ہیں۔ یہ کراچی شہر کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved