تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     30-06-2016

میاں طفیل محمد، عزم و استقامت کا تابندہ کردار

روزمرہ سیاست پر لکھنا لکھانا، پڑھنا پڑھانا تو ہوتا ہی رہتا ہے، کیوں نہ کبھی کبھار ان کرداروں کا ذکر بھی ہو جنہوں نے سیاست کو وقار بخشا اور اپنے اصولوں کے لئے ایثار و قربانی اور عزم و استقامت کا استعارہ بن گئے۔ گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ ٔ پارینہ را۔ میاں طفیل محمد بھی پاکستانی سیاست کے انہی تابندہ کرداروں میں ایک تھے۔ جماعت اسلامی میں سید مودودی کے جانشین۔ گزشتہ دنوں ان کی ساتویں برسی آئی اور چپکے سے گزر گئی۔ جماعت نے ملک بھر میں کسی ایک جگہ بھی ان کی یاد میں کسی سیمینار، کسی مذاکرے کے انعقاد کی ضرورت محسوس کی، نہ جماعت کے شعبہ ٔ نشر و اشاعت نے ان کے ذکر کا اہتمام ضروری سمجھا۔ حافظ محمد ادریس ایک اخبار میں ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں۔ میاں طفیل محمد پر ان کے اس کالم کو شاید پوری جماعت کی طرف سے فرضِ کفایہ سمجھ لیا گیا۔ سید مودودی کے دور کے ایک بزرگ رکنِ جماعت کا کہنا تھا: شاید جماعت اسلامی میاں طفیل محمد جیسے کرداروں کے آئینے میں اپنا آپ نہیں دیکھنا چاہتی۔ تو قارئین! آئیے آج میاں طفیل محمد کو یاد کرتے ہیں۔ 
متحدہ ہندوستان کی ریاست کپورتھلہ کے ایک گاؤں میں طفیل محمد کے والد ایک سکول ٹیچر تھے‘ جو پسماندگی کے عالم میں بھی اپنے لاڈلے کے بڑا آدمی بننے کے خواب دیکھتے، جسے صاحبزادے نے اپنے عزم سے پورا کر دکھایا۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے اعلیٰ نمبروں کے ساتھ بی ایس سی آنرز اور پھر پنجاب یونیورسٹی لأ کالج سے امتیاز کے ساتھ ایل ایل بی کرنے کے بعد وہ ریاست کپورتھلہ کے پہلے مسلمان وکیل تھے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ، کلین شیو اور سوٹڈ بوٹڈ نوجوان سارے علاقے کے مسلمانوں کے لئے فخر اور اعزاز کی علامت بن گیا تھا۔ انہوں نے جالندھر کے شیخ محمد شریف ایڈووکیٹ کے جونیئر کے طور پر وکالت کا آغاز کیا (شیخ صاحب بعد میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج بھی بنے) اسی دوران سید مودودی اور ان کی دعوت سے تعارف ہوا، طاغوت سے انکار اور خدا کے بندوں پر خدا کی حکومت قائم کرنے کی دعوت۔ طفیل محمد کو یہ آئیڈیا اچھا لگا‘ لیکن یہ شہادت گہہِ الفت میں قدم رکھنا تھا۔ کانٹوں بھرے راستے میں کئی سخت مقامات درپیش تھے۔ سید کی فکر کے مطابق انگریز کی حکومت اور اس کا نظام طاغوت تھے، جس کی ملازمت روا تھی، نہ اس کی عدالتوں میں پیش ہونا جائز۔ نوجوان وکیل عملی زندگی کے پہلے ہی مرحلے میں سخت ترین آزمائش سے دوچار ہو گیا تھا، لیکن اسے یکسو ہونے میں دیر نہ لگی۔ نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ گھر آ کر نوبیاہتا سے کہہ دیا، اس مشکل سفر میں رفاقت پر آمادہ ہو تو ٹھیک، ورنہ...! نیک بخت وادیٔ پُرخار میں بھی رفاقت پر آمادہ تھی۔
26 اگست 1941ء کو لاہور کے اسلامیہ پارک میں سید مودودی کی دعوت پر پورے ہندوستان سے 75 افراد جمع ہوئے۔ یہ جماعت کا تاسیسی اجتماع تھا۔ عشقِ بلاخیز کے قافلہ سخت جان میں، طفیل محمد بھی تھے۔ لیکن کلین شیو اور سوٹڈ بوٹڈ نوجوان اپنی وضع قطع کے باعث بیشتر کی نظروں میں نہ سمایا۔ پُرعزم نوجوان کی دنیائے دل تو تبدیل ہو چکی تھی، وضع قطع کی تبدیلی کے لئے صرف چھ ماہ کی مہلت چاہی۔ جماعت کے نظریے میں انگریزی قانون کی وکالت کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ طفیل محمد مرکز جماعت میں ''ہمہ وقتی کارکن‘‘ (ہول ٹائم ورکر) ہو گئے۔ ان کارکنوں کی گزر بسر کے جملہ اخراجات جماعت کی ذمہ داری ہوتے تھے۔ اس کے لئے ''کفاف‘‘ کا تعین کارکن کی تعلیمی قابلیت اور گریڈوں اور سکیلوں کے حساب سے نہیں بلکہ اس کی اور اس کے زیرِ کفالت افراد کی کم از کم ضروریات کے مطابق ہوتا تھا۔ نوجوان وکیل کو جماعت کے مرکزی مکتبے کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ منی آرڈرز کی وصولی ان کا حساب کتاب اور کتابوں کے بنڈل باندھ کر حوالہ ڈاک کرنا بھی ان کی ذمہ داری تھی۔ اگست 1947ء میں سید مودودی اور ان کے رفقا دارالسلام پٹھان کوٹ سے ہجرت کر کے لاہور آ گئے۔ قائدِ اعظم کی زندگی تک جماعت اور حکومت کے درمیان کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوا۔ ویسے بھی یہ دور مہاجرین کے لٹے پٹے اور کٹے پھٹے قافلوں کو سنبھانے کا تھا۔ جماعت کے رہنما اور کارکن اپنے زخموں کو بھول کر شب و روز ان کی خدمت میں مشغول ہو گئے۔ اسی دوران مولانا کو ریڈیو پاکستان پر اسلامی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر خطاب کی دعوت بھی دی گئی۔ قرادادِ مقاصد کی منظوری کے بعد جماعت کے نزدیک مملکتِ خداداد کی حیثیت ایک مسجد کی سی تھی اور اس کی ملازمت بھی جائز اور حلال۔ نوزائیدہ مملکت کی آئین سازی کا آغاز ہوا تو جماعت نے ''مطالبہ نظامِ اسلامی‘‘ کی تحریک چلائی، جس میں دیگر قائدین کے ساتھ میاں طفیل محمد بھی تقریباً ڈیڑھ سال قید رہے۔ 1953ء کی قادیانی تحریک میں سید مودودی کو موت کی سزا میاں طفیل محمدکے لئے زندگی کا بھیانک ترین صدمہ تھا، لیکن سید کے یہ الفاظ غم زدگان کے لئے ہمت و حوصلے کا باعث بن گئے کہ ''زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں، آسمان پر ہوتے ہیں، جہاں تک رحم کی اپیل کا تعلق ہے وہ میری جوتی کی نوک بھی نہیں کرے گی‘‘۔ فیلڈ مارشل ایوب خاں کی فوجی حکومت میں آزمائشوں کا نیا سلسلہ تھا۔ ؎
پھر بہار آئی وہی دشت نوردی ہو گی
پھر وہی پاؤں، وہی خارِ مغیلاں ہوں گے
چاروں طرف فیلڈ مارشل کے مارشل لا کی دہشت تھی۔ ایسے میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے جن 9 لیڈروں نے مارشل لا کو چیلنج کیا، ان میں میاں طفیل محمد بھی تھے۔ اس کیس کا عنوان ہی ''9 لیڈروں کے خلاف مقدمہ ٔ بغاوت‘‘ تھا۔ وہ اس سے پہلے فیملی لاز آرڈیننس پر تنقید کے جرم میں ساڑھے سات ماہ جیل کاٹ چکے تھے۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت بھی دو سال پیشیاں بھگتتے رہے۔ لاہور میں جماعت کے سالانہ اجتماع پر سرکاری غنڈوں کا حملہ اور اس میں اللہ بخش کی شہادت آزمائش کا ایک اور باب تھا۔ فائرنگ کے ہنگام کارکنوں نے چیخ کر کہا: مولانا بیٹھ جائیے، مولانا کا جواب تھا: میں بیٹھ گیا تو کھڑا کون رہے گا؟ آزمائش کے اس مرحلے میں میاں طفیل محمد بھی استقامت کا پہاڑ بنے رہے۔ بالآخر ڈکٹیٹر نے آخری وار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ غداری کے الزام میں جماعت کو خلاف قانون قرار دے کر ساری قیادت کو پسِ دیوارِ زنداں دھکیل دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے پابندی کو کالعدم قرار دیا تو ڈکٹیٹر کے مقابل مادرِ ملت کی انتخابی مہم کے قافلہ سالاروں میں میاں طفیل محمد بھی تھے۔ ایوب کی دس سالہ آمریت کے خلاف ہر تحریک میں جماعتِ اسلامی اور میاں طفیل محمد پیش پیش رہے۔ 
سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد بھٹو شملہ مذاکرات کے لئے روانہ ہوئے تو لاہور ایئرپورٹ پر انہیں الوداع کہنے والوں میں میاں طفیل محمد بھی تھے کہ وہ پوری قوم کے نمائندے کی حیثیت سے اندرا گاندھی سے جنگی قیدیوں کی واپسی اور مفتوحہ علاقوں کی بازیابی کے لئے مذاکرات کریں (حالانکہ جماعتِ اسلامی اور میاں طفیل محمد سقوط مشرقی پاکستان میں بھٹو کو بھی برابر کا ذمہ دار سمجھتے تھے)۔ قید و بند کی صعوبتیں اس راہ کے لازمی مراحل ہیں۔ میاں طفیل محمد بھی یہ منزلیں خندہ پیشانی کے ساتھ طے کرتے رہے، لیکن قائدِ عوام کے نئے پاکستان میں وہ جس اذیت سے گزرے اس کا تو کوئی شریف آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ عجب دورِ ستم تھا جس میں سیاسی مخالفین کو بدترین ذہنی اذیتوں سے دوچار کیا جاتا۔ ان کی عزتِ نفس پامال کی جاتی۔ یہی دور تھا جب جاوید ہاشمی کو دسمبر کی ٹھٹھرتی رات میں برف کی سلوں پر برہنہ لٹایا گیا اور اپنے بدترین سیاسی مخالفین کو بھی خیر اور اصلاح کی دعا دینے والے سید مودودی کے ہونٹوں پر بددعا آ گئی۔ لاہور ہائی کورٹ میں میاں طفیل محمد کے لئے بات کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ آنکھیں بھیگ گئیں، ہونٹ کپکپانے لگے، زبان کو اس بدسلوکی کے اظہار کا یارا نہ تھا، جو مردِ شریف کے ساتھ روا رکھی گئی تھی، داڑھی نوچنے کے علاوہ بھی... چند روز بعد ملک قاسم کو سٹریچر پر جیل سے ہائی کورٹ لایا گیا۔ برہنہ جسم پر تشدد کے دوران ریڑھ کی ہڈی بطورِ خاص نشانہ تھی۔ میاں طفیل پر بغاوت کا یہ مقدمہ بلوچستان میں عطااللہ مینگل حکومت کی برطرفی کے خلاف موچی دروازہ لاہور میں تقریر پر قائم کیا گیا تھا۔ بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک میں بھی میاں طفیل محمد اور ان کی جماعت پیش پیش تھے۔ 
ضیاالحق کے مارشل لا میں جماعتِ اسلامی نے وزارتیں قبول کیں تو یہ پی این اے کا فیصلہ تھا جس میں مسلم لیگ، نوابزادہ صاحب کی پی ڈی پی اور مفتی صاحب کی جے یو آئی بھی شامل تھی۔ پی این اے نے 9 ماہ کے بعد واپسی کا فیصلہ کیا تو جماعت نے بھی وزارتوں سے استعفوں میں لمحہ بھر کی تاخیر نہ کی۔ اس بات سے انکار نہیں کہ میاں طفیل محمد کی زیرِ قیادت جماعتِ اسلامی نے ضیاالحق کے مارشل لا میں اس طرح کا احتجاجی کردار ادا نہ کیا‘ جو وہ ماضی کی سول اور فوجی آمریت کے خلاف کرتی رہی تھی۔ وہ ایم آر ڈی میں پیپلز پارٹی کی ہم قدمی پر بھی آمادہ نہ ہوئی کہ اس کی عوامی جمہوریت سیاسی مخالفین کے لئے فوجی آمریتوں سے بھی بدتر تجربہ تھا۔ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد اور مشرقی سرحد پر ہندوستان کے جارحانہ عزائم بھی اس کا اہم سبب تھے، اور یہ خوف بھی کہ کوئی بڑی تحریک بوڑھے اور کمزور جرنیل کی جگہ جوان اور تازہ دم جرنیل کی راہ ہموار کر سکتی تھی۔ ضیاالحق کے ریفرنڈم اور 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے ان کا استدلال تھا کہ اس سے مارشل لا کی پسپائی اور جمہوری عمل کی راہ کھلے گی۔ قاضی حسین احمد کے دورِ امارت میں میاں طفیل محمد کو کئی معاملات پر شدید اختلاف ہوا۔ کویت پر صدام کے غاصبانہ قبضے کی حمایت، پھر پاکستان اسلامک فرنٹ اور پاسبان جیسے (ناکام) تجربات کے میاں طفیل محمد سخت ناقد تھے‘ لیکن جناب نعیم صدیقی (اور ان کے بعض رفقأ)کے برعکس انہوں نے اندر رہ کر اصلاح کی کوشش جاری رکھی۔ 
مردِ درویش نے ساری زندگی سادگی سے گزار دی۔ انگریزی سوٹ چھوڑے تو شلوار قمیض گھر میں اہلیہ سے سلوائے۔ صرف شیروانی تھی جو درزی سے سلوائی۔ بچیاں بڑی ہو گئیں تو وہ ماں کا ہاتھ بٹا دیتیں کہ ''کفاف‘‘ میں درزی سے کپڑے سلوانے کی ''عیاشی‘‘ کی گنجائش نہ تھی۔ بڑے بیٹے کی جاب ہو گئی تو جماعت سے ''کفاف‘‘ میں کمی کے لئے کہہ دیا۔ جوانی میں جس مقصد کو، مقصدِ حیات بنایا تھا، ساری زندگی اسے حرزِ جاں بنائے رکھا۔ ؎
نفس نفس کو رہ عاشقی میں کرکے نثار
تم اہلِ دل کا سا جینا ہمیں سکھا کے چلے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved