ماہِ صیام آخری عشرے میں داخل ہوچکا ہے۔ یہ ماہِ مبارک ہر صاحبِ ایمان کو اُس کی طلب کے مطابق نوازتا ہے۔ ایک طرف وہ ہیں جنہیں ہر حال میں صرف عبادت عزیز ہے۔ وہ اپنے رب سے اس ماہِ مبارک میں صرف رحمت و مغفرت کے ملتمس ہوتے ہیں۔ قدم قدم پر اُن کی آرزو صرف یہ ہوتی ہے کہ اللہ اُن کے تمام گناہوں کو بخش کر اُنہیں نیک اور مقرّب بندوں میں شمار کرے۔ اس کے لیے وہ عبادت و ریاضت کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ رب اُن سے راضی ہوجائے۔
رمضان المبارک میں جو نیکیوں کے ذریعے رب العالمین کی رحمت سمیٹنا چاہتے ہیں وہ ایسا کر گزرتے ہیں اور جنہیں کچھ اور درکار ہو وہ بھی اپنی مرضی کے مطابق کام کرتے رہنے سے نہیں چُوکتے۔ جو اپنے رب کے ساتھ تجارت کرتے ہیں اُنہیں آخرت کی بھلائی کی شکل میں منافع حاصل ہوتا ہے اور جو اس ماہِ مبارک میں بھی اُصولوں اور ایمان پر سودے بازی سے باز نہیں آتے وہ آخرت کی بھیانک و ہلاکت خیز خرابی اپنے کھاتے میں لکھوا لیتے ہیں۔ یہ ماہِ مبارک سب کو نیت اور کوشش کے مطابق نوازتا ہے۔
کئی برس پہلے کی بات ہے۔ ایک صاحب سے پندرہویں روزے کو ملاقات ہوئی۔ وہ تمباکو نوشی کے عادی ہیں۔ رمضان میں سب کے سامنے سگریٹ پینا ممکن نہیں ہوتا اِس لیے ایسے لوگ دن کے اوقات میں بہت الجھن محسوس کرتے ہیں۔ ہم نے پوچھا سگریٹ نہ پینے پر دن بھر الجھن تو بہت محسوس ہوتی ہوگی۔ اُنہوں نے جواب دیا ہاں، مگر اب ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔ اللہ نے جہاں پندرہ روزے گزار دیئے ہیں، باقی بھی گزار ہی دے گا! اپنی اپنی سوچ ہے اور اپنا اپنا مقدر۔ کسی کو ماہِ صیام کے انتیس یا تیس دن بہت کم محسوس ہوتے ہیں اور کسی کے لیے یہ تیس دن گزارنا سال گزارنے کے مترادف ہوجاتا ہے۔ رب العالمین سے ہمیں وہی ملتا ہے جو ہم چاہتے ہیں۔ جب ہم کچھ نہ چاہیں تو وہ اپنی مرضی سے بہت کچھ دیتا ہے اور جو کچھ وہ اپنی مرضی سے دیتا ہے وہ ہماری خواہش، توقع یا طلب سے کہیں بڑھ کر ہوتا ہے۔
ماہِ صیام میں ایک طرف وہ ہیں جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور اپنے آپ کو رب کی مرضی کے حوالے کردیتے ہیں۔ پھر جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اُن کے حق ہی میں ہوتا ہے۔ اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اس ماہِ مبارک کو دنیوی منفعت کے حصول کا ذریعہ سمجھ کر بہتی گنگا میں خوب ڈبکیاں لگاتے ہیں۔ اُنہیں پل بھر کو بھی یہ احساس نہیں ستاتا کہ اللہ نے ہمیں یہ ماہِ مبارک دنیوی مفادات کے حصول کے لیے عطا نہیں فرمایا بلکہ اُس کی مرضی تو صرف یہ ہے کہ ہم اپنی مذموم دنیوی روش کم از کم ایک ماہ کے لیے ترک کرکے اُس کی راہ پر گامزن ہوں تاکہ ہماری اپنی نیت کا اخلاص ہی ہمارا کچھ بھلا کر گزرے۔
رمضان المبارک کو ہم ''شہرالفرقان‘‘ یعنی فرق واضح کردینے والا مہینہ بھی قرار دے سکتے ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ اِن مبارک ساعتوں میں ایک طرف تو رب کو تلاش کرنے والے ہیں۔ وہ اس فکر میں غلطاں رہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ عبادت کے ذریعے رب کو راضی کرلیں۔ ایسے لوگ باقی گیارہ مہینوں کی روش کو عملاً ترک کرکے گوشہ نشینی اختیار کرلیتے ہیں تاکہ اِس ماہِ مبارک کی سعید ساعتوں سے زیادہ سے زیادہ فیوض و برکات کشید کرسکیں۔ اُنہیں ہر وقت یہ غم ستاتا رہتا ہے کہ قبولیت کی گھڑیاں ضائع نہ ہوجائیں، رائیگاں نہ چلی جائیں۔
اور دوسری طرف وہ ہیں جو ہر وقت یہ سوچتے رہتے ہیں کہ ماہِ صیام میں لوگ پُرجوش ہیں اور زیادہ سے زیادہ مسرّت کا اہتمام کرنا چاہتے ہیں تو اُن سے زیادہ سے زیادہ وصولی کس طور کی جائے! یہ لوگ دنیا کمانے نکلے ہیں۔ اِن کے مزاج میں صرف دنیا پرستی ہے۔ یہ ہر معاملے میں صرف اور صرف دنیوی منفعت چاہتے ہیں۔ اِن کی سوچ صرف اِس نکتے تک محدود رہتی ہے کہ اِس زندگی نے، اِس دنیا نے، اِس معاشرے نے اِنہیں دیا کیا ہے۔ اِنہیں بس یہی غم ستاتا رہتا ہے کہ جو کچھ ملا ہے وہ کم ہے اور مزید مل جائے تو کچھ بات بنے۔ اِن کے نزدیک ماہِ صیام فیوض و برکات سمیٹنے کا نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ مال بٹورنے کا مہینہ ہے۔
ہر سال ماہِ صیام کے آخری عشرے میں ہر طرح کی دکان داری نقطۂ عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ جو اللہ کی راہ پر چلنے کے خواہاں اور عادی ہوتے ہیں وہ مساجد میں کونا پکڑتے ہیں یعنی معتکف ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ آخری عشرے میں وہ اللہ سے اپنی تجارت کا دائرہ وسیع کردیتے ہیں۔ ایسے لوگ عقیدت کی منڈی میں اپنا سب کچھ بیچنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور اِس کے عوض سب اللہ کی رضا چاہتے ہیں۔ اِن کے نزدیک نفع صرف یہی ہے کہ اللہ راضی ہوجائے، اور اللہ کو راضی ہونے میں کیا وقت لگتا ہے؟ بندے کی نیت خالص اور عمل بے غرض ہونا چاہیے، بس۔ اللہ کو اپنا بنانا کسی بھی درجے میں کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ یہ تو دو اور دو چار کی طرح انتہائی واضح معاملہ ہے۔ کوئی اُلٹ پھیر بھی نہیں کہ اِنسان کو اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے چوکنّا رہنا پڑے۔ اور حتمی نتیجہ ظاہر ہونے میں کچھ دیر بھی نہیں لگتی۔ ع
کیا خوب سَودا نقد ہے، اِس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے!
اِدھر آپ نے اپنا وجود اپنے رب کے حوالے کیا اور اُدھر رب العالمین نے آپ کو اپنالیا اور آپ کا ہوگیا۔ پل بھر میں پورا وجود یوں تبدیل ہوتا ہے کہ اِنسان دیکھتا اور سوچتا ہی رہ جاتا ہے۔ ؎
یہ پل بھر میں کیا ماجرا ہوگیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا!
یہ تو ہوئی اُخروی دکان داری۔ اور اِس کے مقابل دنیوی دکان داری ہے جو بڑھتی ہی جاتی ہے، ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ آپ دیکھتے دیکھتے شرمندہ ہوجائیں گے مگر وہ ذرا بھی نہیں شرمائیں گے جو ماہِ صیام میں بھی اپنی دکان داری کا بازار گرم رکھنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
ہر سال ماہِ صیام کے آخری عشرے میں اہلِ وطن کا جو حال ہوا کرتا ہے وہی حال اِس سال اور اِن دنوں بھی ہے۔ عیدالفطر کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ جنہیں دُنیا کمانی ہے وہ خریداری کرنے والوں کو جی بھر کے لُوٹ رہے ہیں۔ ون ٹو کا فور کرنے والوں کی پھر چاندی ہوگئی ہے۔ منافع خوری کا یہ عالم ہے کہ جس کی آمدنی واجبی سی ہو وہ اہلِ خانہ کے ساتھ ڈھنگ سے عید منانے کا صرف تصوّر کرسکتا ہے۔ ماہِ صیام کو دُنیوی دکان داری کے فروغ کا ذریعہ بنانے والوں نے معاملات کو اِس نہج پر پہنچادیا ہے کہ لوگ عید کی خوشیوں سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ ذرا بھی شرمندہ ہوئے بغیر منافع خوری کی لعنت کو اِس حد تک پروان چڑھایا گیا ہے کہ مبارک ساعتوں کا حسین و لطیف احساس بھی اِس لعنت کے ہاتھوں دُھندلا سا گیا ہے۔ کیا غضب ہے کہ لوگ اللہ سے تجارت کرنے کے بجائے اُس کے بندوں کو اپنے تجارتی شکنجے میں کَسنے پر تُلے ہوئے ہیں!
رمضان المبارک کی بابرکت ساعتیں خرید و فروخت کے لیے ہیں۔ خرید و فروخت کس نوعیت کی ہونی چاہیے یہ طے کرنا آپ کا کام ہے۔ ایک طرف اللہ کی ذات ہے جو آپ کو خریدنے کے لیے بے تاب ہے۔ یہ عقیدت کی دکان داری ہے جس میں گھاٹے کا کہیں دور تک کوئی شائبہ نہیں۔ اللہ آپ سے یعنی بندوں سے تجارت چاہتا ہے۔ اور اِس تجارت میں وہ آپ کو صرف منفعت کی ضمانت دے رہا ہے۔ مگر اے وائے ناکامی کہ لوگ اِس کے لیے تیار نہیں۔
ماہِ صیام کے بازار میں کس نے کیسی دکان داری کی اس کا فیصلہ تو اللہ کی ذات ہی کرسکتی ہے کہ نیتوں کا حال صرف اللہ جانتا ہے مگر جو کچھ دکھائی دے رہا ہے وہ بھی ایسا غیر واضح نہیں کہ ہماری سمجھ میں کچھ بھی نہ آئے۔ دعا ہے کہ ماہ مبارک کے رخصت ہوتے ہوئے دِنوں میں ہمیں کچھ ایسا کرنے کی توفیق نصیب ہو کہ حتمی تجزیہ اُخروی منفعت کی صورت برآمد ہو یعنی دنیوی دکان داری پر اُخروی دکان داری غالب آجائے!