''میں مر گیا تو پتہ نہیں مجھ پر کوئی مضمون بھی لکھے گا یا نہیں؟‘‘ وارث میر نے کہا۔''میں لکھوں گا‘‘میں نے جواب دیا۔
یہ وارث میر کی وفات سے چھ دن پہلے کی بات ہے۔ پروفیسر وارث میر، ایس ایم ظفر، نثار عثمانی، نفیس صدیقی اور چند دوسرے احباب ایک لنچ پر اکٹھے تھے۔ پروفیسر صاحب کے ساتھ حسب معمول جملہ بازی چل رہی تھی۔ انہوں نے چند روز قبل وفات پا جانے والے اپنے دانشور دوست پروفیسر عثمان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ''میں ان کے بارے میں اپنا کالم لکھ چکا ہوں ‘‘ اور اس کے بعد وہ آخری جملہ کہا جو میں نے ابتدا میں لکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مذاق کی بات تھی۔ اس وقت میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پرو فیسر صاحب اتنی جلدی میں ہیں۔ یہ میری ان کے ساتھ آخری ملاقات نہیں تھی، اگلے ہی دن صبح سویرے سرور بٹ کو ایک دوست کا پیغام پہنچانے جا رہا تھا تو سوچا کہ راستے میں پروفیسر کو بھی ساتھ لے چلوں ،گپ رہے گی۔ پروفیسر باتھ روم میں تھے کہ میری آمد کا پتہ چلا اور اندر ہی دھاڑے ''اسے جانے مت دینا‘‘۔ اگلے ہی لمحے وہ باہر آچکے تھے۔ دو روز بعد گھر لوٹتے وقت یونیورسٹی کے قریب سرور بٹ کی گاڑی نظر آئی جس میں وارث میر بھی براجمان نظر آئے۔ ہم نے گاڑیاں روک کر سڑک پر ہی تبادلہ خیال کیا، ایک دو جملے انہوں نے چھوڑے اور ایک میں نے اور ایک دوسرے پر ہنستے ہوئے ہم رخصت ہوئے۔ اگلے روز اخبار پڑھنا شروع ہی کیا تھا کہ سرور بٹ کا فون آیا: ''ایک بہت ہی بری خبر ہے ۔آج صبح وارث میر فوت ہوگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔‘‘
وارث میر سے میری ملاقات 1968ء کے ہنگامہ خیز دور میں ہوئی تھی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ مجھے ایک فوجی حکمران کا عشرہ اقتدار مکمل ہونے پر ملے اور دوسرے کا عشرہ اقتدار مکمل ہونے پر بچھڑ گئے۔ پروفیسر وارث میر اپنے دور کے ممتاز صحافی، دانشور اور علمی شخصیت تھے، جنہوں نے جنرل ضیاالحق کے آمرانہ دور حکومت میں اپنی جرأتمندانہ تحریروں کے ذریعے آواز حق بلند کی۔ اس دور کی حکومت نے پاکستانی میڈیا کی آزادی اور جدو جہد کو پابند سلاسل کیا ہوا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے سربراہ ہونے کے علاوہ آپ نے یہاں 25 سال صحافت پڑھائی۔ جناب وارث میر ملک کے مشہور ومعروف اردو اخبارات میں بے باک مضامین اور فکر انگیز کالم لکھا کرتے تھے۔ آپ نے ''سچائی کے لئے لکھو اور لوگوں کی آواز بن کر بولو‘‘ کے مصداق ایک مشن کے ساتھ پاکستان کے عوام کے امنگوں کی ترجمانی کی۔ بنیادی انسانی حقوق کے داعی‘آزادی اظہار اور سوچ کے علمبردار ہونے کے ناطے پروفیسر وارث میر نے اپنے لئے اس راہ کا انتخاب کیا جو جان لیوا تھی۔ پابندیوں، دھمکیوں، ذہنی اذیت اور تشدد برداشت کرنے کے باوجود آپ پختہ عزم کے ساتھ ظالم قوتوں کے سامنے ڈٹے رہے، ہمیشہ آمریت کی مخالفت میں اپنے اصولی موقف پر قائم رہے اور جمہوریت اور آزادی اظہار کی وکالت کی۔ میری اور وارث میر کی ملاقاتیں بڑی پر جوش رہا کرتیں۔ انہیں بھی زیادہ دیر تک دھیمے بولنا پسند نہیں تھا اور مجھے بھی؛ چنانچہ ہر ملاقات پرتپاک انداز میں شروع ہوتی اور نقطہ نظر کے اختلاف کے باعث سخت کشیدگی میں ختم ہوتی۔ چند ہی ملاقاتوں میں ہم دونوں اس اسلوب کے عادی ہوگئے بلکہ بعد میں تو اس کی لت پڑگئی۔ ملاقات کو زیادہ دن گزر جاتے تو ایک بے چینی سی ہونے لگتی کہ بہت دنوں سے وارث میر کے ساتھ چخ چخ نہیں ہوئی۔ ہمیشہ یوں ہوا کہ ادھر یاد آئی، ادھر پروفیسر آگئے۔
اندرون ملک بیشتر پیشہ ورانہ سفر ہم نے اکٹھے کئے۔ ان مختصر دوروں میں وہ ہمیشہ ہمارے گروپ کے ساتھ رہتے۔ ہمارے گروپ سے مراد زندہ دلان صحافت کا ایک مختصر سا گروپ ہے جس میں انتظار حسین، مجیب الرحمن شامی اور عطاء الحق قاسمی شامل ہیں۔ ناموں سے ہی ظاہر ہے اس میں تیز فقرے کرانے والے لوگ ہیں۔ یہ آپس میں دوستانہ میچ بھی کھیل رہے ہوں تو چوکے چھکے بہت کم لگتے ہیں اور بوریت پیدا ہوجاتی ہے۔ وارث میر اس محفل میں جان پیدا کر دیتے، وہ ہر جملہ دوستانہ انداز میں پھینکتے۔ ہر شخص کا دل چاہتا کہ اس پر طبع آزمائی کرے اور وارث میر بھی بھرپور طریقے سے جواب دیتے۔ یوں وہ اپنی موجودگی سے محفل کو کشت زعفران بنا دیتے۔
بطور سیاسی تجزیہ نگار انہوں نے ''نوائے وقت‘‘ سے ابتدا کی اور یہیں سے شہرت پائی۔ ابتدا میں انہوں نے ایک خاص نقطہ نظر کی ترجمانی کی لیکن بعد میں آزادانہ موقف اختیار کر لیا۔ غیر جانبدارانہ انداز میں تبصرہ نگاری کی۔ ''نوائے وقت‘‘ کے بعد جنگ میں گزارے ہوئے آخری چند برسوں میں ان کا جرأت مندانہ انداز کافی مقبول ہوا۔ بوجوہ اپنے پرانے ادارے سے وابستگی نہ رکھ سکے۔ وارث میر بے حد تحقیق و جستجو کے عادی تھے‘ اسی لیے ان کی تحریروں میں علمیت کا پہلو نمایاں ہوتا تھا۔ اپنی زندگی انہوں نے واقعی ایک دانشور کے انداز میں گزاری۔
یہاں میں ایسی بات کرنے لگا ہوں جس پر ارباب اقتدار خلاف عادت میکانکی طرز فکر سے باہر آکر غور کریں تو شاید ان کا بھلا ہوجائے۔ ہمارے ملک پر جاگیردارانہ اور فوجی طرز فکر کی مسلسل حکمرانی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اختلاف رائے کو ''دشمنی ‘‘ تصور کیا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی قیمت اتنی زیادہ کردی گئی کہ ایک نارمل آدمی کے لیے حکومت پر تنقید کرنا دشوار بلکہ ناممکن ہوگیا۔ اب صرف چند سر پھرے ایسے رہ گئے ہیں جو تنقید کی قیمت چکانے کا حوصلہ کر لیتے ہیں۔ لیکن یہ قیمت اتنی زیادہ ہوتی جا رہی ہے کہ مزید چند برسوں کے بعد پاکستانی معاشرے میں حکومت کے ساتھ اختلاف کرنے والے نا پید ہو جائیں گے۔ اختلاف رائے سے محروم معاشرہ ایک زوال آمادہ اور تباہی کی طرف بڑھتا معاشرہ ہوتا ہے۔ اس میں اپنی اصلاح و بہتری کی صلاحیت باقی نہیں رہتی۔ میں اختلاف رائے کی ضرورت پر اس لیے زور دے رہا ہوں کہ تائید و حمایت کا فالج پاکستانی صحافت کے جسم پر غالب آتا جا رہا ہے۔ اس میں زندگی کے آثار ختم ہوتے جارہے ہیں۔ ایسا نہ ہوکہ یہ شعبہ فالج سے پوری طرح مفلوج ہوجائے اور اس میں چبھونے کے لیے کوئی نشتر نہ ملے اور جب ملے تو اس میں اتنی زندگی نہ ہو کہ وہ چبھن محسوس کرسکے۔ اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب لوگوں کو اختلاف رائے کرنے کا طریقہ بھول جائے اور ہم بھیڑوں کے ریوڑ میں بدل جائیں۔