ان دنوں شام کے ٹی وی پروگرام‘ جو حکومت کی نظر میں آلودگی سے بھرے ہوتے تھے‘ اب تازہ تازہ ڈرائی کلین ہو کر عوام کے سامنے آتے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم نے گزشتہ دنوں اچانک بیرون ملک جا کر اپنا دل بھی چار مرتبہ ڈرائی کلین کرا لیا۔ مجھے امید ہے کہ وطن واپس آنے کے بعد وہ ایک نئی اور چار مرتبہ دھلی ہوئی شخصیت ہوں گے۔ جب تک مجھے انہیں جاننے کا موقع ملتا رہا‘ ان کا دل بہت صاف تھا۔ کسی کو شک کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ کسی کی برائی نہیں کرتے تھے‘ بلکہ سنتے بھی نہیں تھے اور اگر شامت اعمال کوئی کسی کی برائی کر بیٹھتا‘ تو میاں صاحب موقع پر ہی احساس دلا دیتے کہ انہیں یہ بات اچھی نہیں لگی۔ مزاج کے بہت ہی صاف ستھرے ہیں۔ ایک واقعہ مجھے یاد ہے۔ ہم لاہور سے بذریعہ ٹرین راولپنڈی کے لئے روانہ ہوئے۔ وزیر اعظم کے لئے ایک خصوصی سیلون ہوتا ہے‘ جس میں دو بیڈ روم‘ ایک ڈرائنگ روم اور ڈائننگ روم ہوتے ہیں۔ سٹاف کے لئے سونے کا انتظام اسی سیلون کے اندر ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کے ساتھ صرف ان کے دوست سجاد شاہ تھے۔ ان دونوں میں لطیفے بازی شروع ہو گئی۔ اس وقت مجھے پتہ نہیں تھا کہ وزیراعظم لانڈری سے دھلے ہوئے لطائف سنتے اور سناتے ہیں۔ لطیفوں کا سلسلہ چل نکلے‘ تو کوئی بھی شخص شریک محفل ہو جاتا ہے۔ مجھے بھی ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ میں نے اجازت لے کر وزیر اعظم کو سنا دیا۔ مگر وہ ہنسنے کے بجائے‘ مجھے یوں دیکھنے لگے‘ جیسے میں نے کوئی غلط بات کر دی ہو۔ چند لمحے خاموش رہے اور پھر اسی خاموشی کے ساتھ‘ اپنے بیڈ روم میں چلے گئے۔ مجھے پتہ چل گیا کہ لطیفے میں کوئی لطیفے والی بات ضرور تھی‘ جو وزیر اعظم کو اچھی نہیں لگی۔ میاں صاحب لطیفے بھی حد ادب میں رہ کر سنتے اور سناتے ہیں۔ پھر انہوں نے اپنے دل کی چار مرتبہ ڈرائی کلیننگ کیوں کرائی؟ ہو سکتا ہے‘ طویل عرصہ اقتدار میں رہنے کے بعد‘ انہوں نے سوچا ہو کہ اب دل کو دھلا دینا چاہیے اور دھلائی کی ضرورت بھی انہوں نے اتنی شدت سے محسوس کی کہ ایک مرتبہ پر تسلی نہیں ہوئی۔ اپنا دل چار مرتبہ دھلایا۔ اگر میرا یہ اندازہ درست ہے‘ تو پاکستان واپس آنے کے بعدان کا دل انتہائی صاف بلکہ شفاف ہو چکا ہو گا۔
اس بات کا ثبوت‘ ان کے قیام لندن کے دوران ہی سامنے آ گیا۔ میڈیا کے لئے انہوں نے پاکستان میں ہوتے ہوئے ہی لانڈری شاپ قائم کر دی تھی۔ اچانک انہیں دل کی دھلائی کے لئے لندن جانا پڑا۔ ان کا قیام قدرے طویل ہو گیا۔ اتفاق سے انہوں نے جس لانڈری مین کا انتخاب کیا‘ وہ دھوبی نکلا۔ اس نے ٹی وی کے پروگرام اور اخبارات‘ یوں اچھل اچھل کر لکڑی پر پٹخے کہ ٹی وی پروگراموں کی رنگینیاں ماند پڑ گئیں۔ اب میں ٹی وی لگاتا ہوں تو بڑے بڑے دبنگ اینکر یوں بات کر رہے ہوتے ہیں جیسے کیمرے کے برابر میاں صاحب خود تشریف فرما ہوں۔ ان کی نگاہیں اینکر پر جمی ہوں اور وہ پلک بھی نہ جھپک رہے ہوں۔ آگے آپ خود تصور کر لیں کہ حاکم وقت خود سامنے بیٹھا آپ کو سنسر کر رہا ہو‘ تو پھر کہاں کی جرات اور کہاں کی بیباکی؟ اینکر تو کیا؟ سارا پروگرام ہی لانڈری میں دھل جاتا ہے۔ ان دنوں اہل پاکستان ‘ اسی طرح کے دھلے دھلائے ٹی وی پروگرام اور اخبارات دیکھ رہے ہیں۔ ایسے ایسے صحافی اور اینکرز‘ جن کی بیباکی اور جرات مندی کے چرچے تھے‘ لانڈری کے بعد یوں دھلے دھلائے لگ رہے ہیں کہ نصرت جاوید کوڈھونڈنا بھی مشکل ہو جاتا ہے‘ حالانکہ وہ آج کل بھی پروگرام کر رہے ہیں۔
ساٹھ سال کی قلمکاری کے بعد‘ اب میرے لئے ہاتھ سے لکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ میں اپنا کالم پی اے سے ٹائپ کراتا ہوں۔ آج جیسے ہی کالم لکھوانا شروع کیا‘ میرا بیٹا انیق جو لندن گیا ہوا تھا‘ ایک ماہ کے بعد واپس آیا۔ میں نے تھوڑی دیر کے لئے اس کے ساتھ گپ شپ کی اور فارغ ہو کر کالم لکھوانے لگا‘ تو پی اے نے ''بی بی سی‘‘ کے ایک نشریے کی سرخی پڑھ کر سنائی۔ گاڑی کا لفظ میں ٹھیک سے نہ سمجھ پایا اور سرخی مجھے یوں سنائی دی ''یہ لو بیٹا گالی۔کیا یاد کرو گے؟‘‘ ظاہر ہے‘ مجھے یہ سرخی عجیب لگی۔ پہلا جملہ سنتے ہی پی اے صاحب نے میری تصحیح کی اور بتایا کہ اصل سرخی یوں ہے ''یہ لو بیٹا گاڑی۔کیا یاد کرو گے؟‘‘ یہ سارہ حسن کی تحریر تھی۔ پڑھی ‘ تو لگاکہ میں بھی کچھ اسی طرح کی بات کرنے والا تھا۔ کیوں نہ یہی تحریر نقل کر دی جائے؟ پڑھیے!
''عمرے کا ٹکٹ بھی دے دیں نا پلیز! میرا بچہ گاڑی مانگ رہا ہے اور ناراض ہو گیا ہے آپ اْسے گاڑی دے دیں!‘‘
میزبان: ''بچے کو بھی سکھا کر لائی ہیں، لو بیٹا گاڑی۔ کیا یاد کرو گے؟‘‘
رمضان کے مہینے میں رات کو اگر آپ کوئی بھی مقبول پاکستانی ٹی وی چینل لگائیں تو آپ کو کم و بیش ایسے ہی مکالمے سننے کو ملیں گے۔اگرچہ پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران مختلف نوعیت کے گیم شوز بہت مقبول ہوئے ہیں لیکن رمضان میں ان کے ناظرین اور ان میں شرکت کے خواہشمندوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے جو پاسز کے حصول کی تگ و دو میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں اچھے برے کی تمیز ختم ہو رہی ہے اور یہ معاشرہ زوال پذیر ہے۔ان کے مطابق' 'زوال پذیر معاشرے میں اخلاقیات ختم ہونے سے انسانی فطرت بدل جاتی ہے ۔ شرم و حیا، عزت و احترام ختم ہو جاتا ہے اور ہر انسان اپنے ہی بارے میں سوچتا ہے کیونکہ برائی اب بہت عام ہے۔‘‘
پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ عمرانیات کے سربراہ ڈاکٹر زکریا ذاکر کہتے ہیں: ''جب سے ہم نے خود اپنی روایات اور اقدار کا مذاق اڑانا شروع کیا اورایک خاص سوچ کے ذریعے مقامی کلچر کو پسِ پشت ڈالا ہے، اْس سے مقامی سطحِ فکر میں کمی آئی ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ معاشرے میں سوچ، فکر اور سنجیدہ رویوں میں کمی کی جگہ مسخرے پن نے لے لی ہے۔
ہماری ساتھی شمائلہ خان، چند روز قبل ایک مقبول گیم شو میں گئیں۔ان کے مطابق حاضرین کی اکثریت لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی تھی اور اقتصادی عدم توازن کے اس دور میں، وہ انعام لینے کے لیے کوئی بھی عجیب و غریب حرکت کرنے کو تیار تھے۔ جیسے کہ میزبان کے قریب آتے ہی ایک 70 سالہ بزرگ نے کہا کہ ''میری شادی کو اتنے سال ہو گئے ہیں، میں اپنی بیوی سے اب بھی محبت کرتا ہوں‘ مجھے انعام دیں۔‘‘ اس گیم شو کے میزبان سے جب پوچھا گیا کہ وہ اپنے پروگرام میں عجیب طرح کی حرکتیں کیوں کرتے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ وہ ایک انٹرٹینر ہیں جو چیزیں لوگ پسند کرتے ہیں وہ وہی کرتے اور دکھاتے ہیں۔
ماہر عمرانیات ڈاکٹر زکریا کا کہنا ہے کہ ''ہمارے یہاں تو اشتہارات میں بھی معلومات کی بجائے مسخرا پن اور تمسخر زیادہ ہے اور یہی حال ٹی وی شوز کا بھی ہے۔‘‘ ان پروگراموں سے ایک بات اور جو سامنے آتی ہے وہ یہ کہ عوام کی اکثریت کی جنرل نالج اور جغرافیے کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں اور اکثر و بیشتر تکْے پر کام چلتا ہے۔ ماضی کے مقابلے میں جہاں اب انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا کی معلومات آپ کی گرفت میں ہیں‘ وہیں لوگوں کے معیارِ علم کا یہ انحطاط قابل غور ہے۔ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ لوگوں میں اب جستجو اور کچھ جاننے کا شوق ختم ہو گیا ہے۔''وہ علم اور معلومات بھی سطحی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا اندازہ اْس زبان سے لگایا جا سکتا ہے جو ہم بولتے ہیں‘ اس میں شائستگی نہیں۔ لوگوں میں پڑھنے کا شوق ختم ہو گیا ہے۔ ہر انسان دوسرے کو دھوکا دے کر آگے بڑھنے پر خوش ہوتا ہے۔‘‘
پاکستان میں عام آدمی میں علم کا معیار کیوں زوال پذیر ہے اور اس کا ذمے دار کون ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر زکریا کا کہنا ہے کہ جب تعلیمی اداروں کو کمرشلائز کر دیا جائے اور طالبعلم فخر سے کہیں کہ ''صرف امتحان کی تیاری کے لیے پڑھتے ہیں‘ تو پھر تعلیم محض ملازمت حاصل کرنے کے لیے ہی حاصل کی جاتی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ''فکر اور سوچ علم سے آتی ہے۔ کتاب سے تعلق نہیں۔ بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں بھی کوئی بڑی کتاب کی دکان نہیں ہوتی اور اگر کوئی ہوتی بھی ہے تو وہاں ٹیسٹ پیپرز اور خلاصے ہی فروخت ہوتے ہیں۔‘‘
سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رجحان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ فکری انحطاط کا شکار ہو گیا ہے اور جہاں جس کا بس چلے، وہ وہاں سے زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ انسان اور حیوان میں فرق صرف فکر کا ہی تو ہے۔ فکر انسان کو یہ باور کراتی ہے کہ اْسے دوسروں کا خیال رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے لیکن تعلیم کی کمی انسان کو پستی کی جانب دھکیلتی ہے‘ جو بقول ڈاکٹر مبارک حسن کے ایک 'بلیک ہول‘ ہے جس کی کوئی آخری حد نہیں ہے۔‘‘