ہر نئی رت کے ساتھ زندگی پر نئے آفاق طلوع ہوتے ہیں۔ دانا وہ ہیں، جو حقائق سے ہم آہنگ ہو جائیں۔ اچکزئی جیسے، بدلتی دنیا سے روٹھے رہنے والے خود اپنی زندگی دوبھر کرتے ہیں، دوسروں کی بھی۔ وہی خود ترسی کی بیماری۔ عارف کا وہی قول، عقل جہاں رکتی ہے، وہیں بت خانہ تعمیر ہوتا ہے۔
دعویٰ یہ ہے کہ افغان سلطنت کبھی دریائے سندھ تک دراز تھی۔ جی ہاں، ان دنوں، برّصغیر جب خانہ جنگی میں الجھا تھا۔ غزنوی کے مختصر عہد کے سوا وگرنہ معلوم تاریخ میں کابل اور اس کا نواح کبھی اس خطے کا مرکز نہ تھا۔
تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ کے عجائب گھر میں ایک پتھر محفوظ ہے، جس پر ظہیرالدین بابر کے حکم پر ایک شعر کندہ کیا گیا تھا۔ 432 برس کے بعد تاجک عالم مختاروف نے یہ پتھر تلاش کرکے میوزیم کے حوالے کیا۔ وہ شعر یہ ہے:
گرفتیم عالم بہ مردی و زور
ولیکن نبردیم باخود بہ گور
مردانگی اور قوت کے بل پر ایک عالم کو میں نے تسخیر کیا‘ لیکن خود کو آخر کار قبر کے حوالے کر دیا۔ عظیم لیڈر وہی ہوتے ہیں، جو بڑی تصویر دیکھتے ہیں۔ مدتوں افغانوں کی سرزمین دہلی کی مسلمان حکومتوں کے تحت رہی بلکہ وسطی ایشیا بھی۔ تو کیا اب انہیں پاکستان میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے؟
احمد شاہ ابدالی ایک ستارہ تھا جو سرشام چمک کر بجھ گیا۔ پانی پت کی دوسری جنگ میں مرہٹوں کو شکست دے کر ہندوستان پر ان کے غلبے کا خواب اس نے بکھیر دیا۔ ایسی اور اتنی استعداد وہ بہرحال نہ رکھتا تھا کہ برصغیر پر حکومت کرے۔ محمود غزنوی سے پہلے اور بعد کا خراسان بھی اکثر باہم الجھا رہا اور ابدالی کے بعد بھی۔ موجودہ افغانستان کی تقدیر بھی یہی دکھائی دیتی ہے کہ متحارب قوتیں ایک دوسرے کو تباہ کرنے پر تلی رہیں۔ یہی نہیں، دوسروں کے لیے بھی دردِ سر۔ ان کا مزاج یہی ہے؛ چنانچہ تاریخ بھی یہی۔
جغرافیہ بدلتا رہتا ہے۔ اس کی پوجا نہیں کی جاتی۔ دو ہزار برس پہلے کا خراسان جدید افغانستان کے علاوہ، ایران اور موجودہ پاکستان کے نصف حصے پر مشتمل تھا۔ اب فقط ایران کا ایک صوبہ ہے اور فارسی کے ایک اخبار کا نام۔
بابر کے عہد میں طورخم سے ادھر پشتونوں کی کوئی قابل ذکر آبادی نہ تھی۔ فقط سوات میں چند یوسف زئی خاندان اس نے دیکھے اور حیرت سے ان کا ذکر کیا۔ معاشرے کی سماجی یادداشت پر بعض اوقات بھروسہ کیا جاتا ہے، کبھی تو باقاعدہ تاریخ سے بھی زیادہ۔ قبائل مگر مبالغہ آمیزی کرتے ہیں، شاعروں کی طرح۔ کسی بھی معزز پشتون خاندان یا وادیٔ کشمیر کے کسی بھی نجیب الطرفین گھرانے کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جائے تو واضح ہو جائے گا کہ ان کے اجداد سرزمین شام سے آئے تھے۔ بخت نصر کے زمانے میں، وہی بادشاہ خواب میں دیوار پر لکھا جسے دکھایا گیا تھا: ''تجھے تولا گیا اور تو کم نکلا‘‘۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت پر اس نے بہت ظلم توڑے۔ فرار ہو کر ان میں کچھ ایران پہنچے۔ ایک ویرانے میں انہیں رکھا گیا، اور وسیع و عریض شاہی اصطبل کے ہزاروں گھوڑوں کی خدمت پر مامور کر دیا گیا۔ اس مقام کو اسپ ہاہان کہا جانے لگا۔ اسپ فارسی میں گھوڑے کو کہا جاتا ہے۔ بگڑ کر اصفہان ہو گیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں یہی نام تھا۔ ایک ایرانی بھی تب مسلمان نہ ہوا تھا۔ آپ نے مگر ایران ہی نہیں، روم اور ترکوں کے ایمان لانے کی پیش گوئی بھی فرمائی اور اہل ہند کی بھی۔ اصفہان کے بارے میں البتہ عالی جنابؐ سے منسوب ہے کہ ان کے کالے کپڑوں والے امّت کا ساتھ نہ دیں گے۔
اجڑے ہوئے بعض دوسرے قبائل نے خراسان کے دور دراز مقامات اور بعض نے دنیا کے بلند ترین میدان کشمیر کا ذکر کیا، جو تب ''کثیر‘‘ تھا۔
ایک ہزار برس پہلے، خفیہ طور پر مندروں میں ایک عرصہ بتا کر البیرونی نے کتاب الہند لکھی تو بتایا کہ یہودیوں کے سوا کوئی شخص وادی میں داخل نہیں ہو سکتا۔ یہ تو ابھی پانچ سو برس پہلے کا قصہ ہے کہ ایک عارف شمال کی دشوار گزار وادیوں سے گزرتا ہوا ایران سے کشمیر پہنچا اور وہ ایمان لائے۔ وہی تھے، جو بعد ازاں تب پارچہ بافی کی دنیا میں ہنر کے معجزے دکھانے والے ایرانی کاریگروں کے ساتھ دوبارہ اس سرزمین کو پلٹے۔ خاص طرح کی اون سے انہوں نے وہ شال بنائی، دنیا کا کوئی دوسرا خطّہ جس کی مثال کبھی پیش نہ کر سکا۔ یورپی شرفا جس پر فخر کیا کرتے؛ تاآنکہ چغتائیوں کا آفتاب غروب ہوا۔ ان کی جگہ انگریزوں نے لی۔ صنعتی عہد کا آغاز ہوا اور اس کرہ خاک پہ زندگی کے تیور بدل گئے۔ مشین کے بغیر معاشرے پسماندہ ہوتے گئے۔ پھر کہانیوں پر ان کی بسر ہونے لگی۔ پدرم سلطان بود۔
محمود اچکزئی بھی یہی کہتا ہے۔ محمود غزنوی نہیں، بیچارہ بلوچستان کے ایک گائوں کا نحیف و نزار محمود ہے۔ اس کی داستان لکھی جائے تو ایک دلچسپ فلم ہو گی۔ مثلاً اپنی چھوٹی سی پارٹی کو اتنے بہت سے عہدے سونپنے پر میاں محمد نواز شریف کو اس نے کیسے آمادہ کیا، کس طرح چکمہ دیا۔ آج میں ایک سنسنی خیز دستاویز تلاش کرتا رہا۔ یہ ان صاحب کے بارے میں پاکستان کی وزارتِ داخلہ کی طرف سے سرکاری طور پر لکھا گیا خط ہے۔ جلد ہی انشاء اللہ میں ڈھونڈ نکالوں گا۔
بلوچستان کے رند، بگٹی اور مری قبائل سے پوچھیے تو اپنا رشتہ وہ قدیم عربوں سے جوڑتے ہیں۔ جی نہیں، وہ ایرانی ہیں اور ثبوت وہی ہے ڈی این اے ٹیسٹ۔ ناک، کان، آنکھوں اور سروں کی ساخت بھی یہی کہتی ہے، مینگل الگ ہیں، اور حافظ حسین احمد کا بروہی قبلہ جدا، بلوچستان کے پشتون بالکل مختلف، جن میں سے بعض یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تین ہزار برس سے وہ یہاں آباد ہیں، جی نہیں، افغانستان سے بعد ازاں وارد ہوئے ۔
بلوچستان، افغانستان اور کشمیر ہی پر کیا موقوف، دنیا بھر کے قبائل مبالغہ کرتے ہیں۔ سلیقہ مندی کے ساتھ تاریخ لکھنے کا تب رواج ہی نہ تھا۔ رفتہ رفتہ یہ فن مرتب ہوا۔ سپین کا ابن خلدون پہلا عظیم مورخ سمجھا جاتا ہے، بنیادی اصول جس نے مرتب کیے تا آنکہ ٹائن بی تک پہنچ کر وہ ایک سائنس ہو گئی۔ علوم کا سفر ہمیشہ جاری رہتا ہے۔
تاریخ میں مسلمانوں کا سب سے بڑا کارنامہ حدیثِ رسولؐ کی تدوین ہے۔ ایسا کڑا معیار کہ آج کا مغرب بھی اس مقام کو پہنچ نہیں سکا۔ جو لوگ احادیث کے منکر ہیں، وہ اپنی ضد کی ''جنت‘‘ میں بستے ہیں۔ 1400 برس پہلے سرکارؐ نے بتا دیا تھا کہ زمین کی کائنات سے وہی نسبت ہے، جو ایک انگشتری کی زمین سے، فرمایا: جنگل میں جیسے پڑی ہو۔
دیہات میں پیغمبر پیدا نہ ہوئے اور نہ بہت بڑے شہروں میں۔ غور کرنے والوں کے لیے اس میں نشانی ہے۔ نبی پوری قوم کے لیے ہوتا ہے اور سرکارؐ تمام زمانوں کے لیے تھے۔ چھوٹے سے گائوں کی آبادی متحمل نہیں ہو سکتی کہ ایک بہت محدود تناظر رکھتی ہے۔ تجارتی قافلوں کی رہگزر کے جوار میں واقع مکہ کو اہل عرب زمین کی ناف کہا کرتے۔
بیچارے محمود اچکزئی کو کیا خبر کہ تاریخ کیا ہے۔ تعصب کا گرفتار، حقائق میں نہیں دلدل میں جیتا ہے۔ عدم تحفظ کا مارا، چھوٹی سی دنیا میں لیڈری کے خواب دیکھتا، ایک چھوٹا سا متعصب آدمی۔ تعصب کے سوا کوئی ہنر وہ رکھتا ہی نہیں۔ اسے کیا معلوم کہ لیڈر وہ شخص ہوتا ہے جو معاشرے کی تقسیم اور تعصبات سے بالا ہو۔ رنگ، نسل، علاقے، زبان اور قبائل کی بنیاد پر انسانوں کو تقسیم یا متصادم کرنے والا ان کا رہنما کیسے ہو سکتا ہے؟ بنیادی طور پر تمام بنی نوع انسان کے مسائل اور امنگیں مشترک ہیں۔ اکثر علاج بھی ایک ہی۔
زمین اللہ کی ہے اور بادشاہت بھی اسی کی۔ جسے وہ چاہتا ہے، مُلک عطا کرتا ہے۔ آبادیاں ہجرت کرتی رہتی ہیں۔ ہر نئی رت کے ساتھ زندگی پر نئے آفاق طلوع ہوتے ہیں۔ دانا وہ ہیں، جو حقائق سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ اچکزئی جیسے، بدلتی دنیا سے روٹھے رہنے والے خود اپنی زندگی دوبھر کرتے ہیں، دوسروں کی بھی۔ وہی خود ترسی کی بیماری۔ عارف کا وہی قول، عقل جہاں رکتی ہے، وہیں بت خانہ تعمیر ہوتا ہے۔