افغانستان اور پاکستان سے لے کر ترکی، مصر اور مشرق وسطیٰ کے طول و عرض میں بنیاد پرست دہشت گردی کی لہر رمضان کے آخری دنوں میں شدید ہو گئی ہے۔المیہ یہ ہے کہ یہ کشت و خون مذہبی لحاظ سے مقدس مہینے میں عید سے چند دن قبل ہو رہا ہے جو کہ مسلمانوں کے لئے خوشی کا ایک تہوار ہے۔ بنیاد پرستوں کی قتل و غارت گری اگرچہ پورا سال ہی مختلف وقفوں اور شدت کے ساتھ جاری رہتی ہے لیکن گزشتہ تقریباً دو دہائیوں کے دوران رمضان جیسے مذہبی اہمیت کے حامل مہینوں یا دنوں میں سکیورٹی کے ہائی الرٹ کے باوجود دہشت گردی معمول بن چکی ہے۔
2011ء کے عرب انقلاب کی پسپائی کے بعد بنیاد پرستی کی وحشت زیادہ شدت سے اٹھی ہے اور نتیجتاً لیبیا، عراق، یمن اور شام جیسی ریاستیں بکھر کر رہ گئی ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں لبرل حکومتوں سے لے کر فوجی آمریتوں، بادشاہتوں اور تھیوکریٹک ریاستوں تک، اس سماجی ناسور کا خاتمہ تو دور کی بات اسے جزوی طور پر قابو کرنے میں بھی سب ناکام نظر آتے ہیں۔کروڑوں انسانوں پر گلی سڑی سرمایہ داری کی مسلط کردہ غربت اور محرومی کے زخموں پر یہ دہشت گردی نمک پاشی کر رہی ہے۔ دہشت گردی کے یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ عدم استحکام، انتشار اور معاشی گراوٹ سے دو چار ان ممالک میں حالات بدتر ہی ہو رہے ہیں۔
جمعرات 30 جون کو طالبان نے کابل کے نزدیک پولیس اکیڈمی پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔حکومتی ذرائع کے مطابق اس خود کش حملے میں 27 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور 40 سے زائد شدید زخمی ہوئے۔ پغمان کے ڈسٹرکٹ گورنر موسیٰ رحمتی کے مطابق حملہ کابل سے 20 کلومیٹر دور مغربی علاقے میں کیا گیا جس میں عید کی چھٹیوں پر وردک کے ٹریننگ سنٹر سے دارالحکومت آنے والے پولیس اہلکاروں کا نشانہ بنایا گیا۔ الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے ممبر پارلیمنٹ دائود سلطان زئی نے بتایا کہ ''حملہ بہت منظم منصوبہ بندی سے کیا گیا تھا... حملہ آور کے پاس کافی معلومات تھیں... ہلاکتوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے... طالبان اس طرح کے حملوں میں اضافہ کریں گے‘‘۔
طالبان کی جانب سے نو دنوں سے بھی کم عرصے میں یہ دوسرا بڑا حملہ ہے۔ اس سے قبل کابل میں خود کش حملے میں 14 نیپالی سکیورٹی گارڈ ہلاک ہوئے تھے۔سامراجی افواج کے انخلا کے بعد پچھلے کچھ مہینوں میں طالبان کے مختلف گروہوں نے دہشت گردی کے حملے تیز کر دئیے ہیں۔ اس خانہ جنگی میں جہاں بہت سے جنگی سردار اپنی سلطنت اور کالے دھن کی حصہ داری میں اضافے کے لئے ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں وہاں بڑی تعداد میں چھوٹے بڑے دہشت گرد گروہ مختلف سامراجی قوتوں کی پراکسیاں بن کر سرگرم ہیں۔
ترکی میں جہاں طیب اردوان کی نام نہاد معتدل حکومت اپنے جبر میں مسلسل اضافہ کر رہی ہے وہاں دہشت گردی کے پے درپے واقعات بھی تسلسل سے جاری ہیں۔یعنی عوام ریاستی اور غیر ریاستی دہشت گردی کے درمیان میںپس رہے ہیں۔ صحافت پر سنسر شپ سخت کی جار ہی ہے، کرد آبادی والے علاقوں میں فوجی آپریشن ہو رہے ہیں، بائیں بازو کے سیاسی رجحانات سے وابستہ نوجوان اور ٹریڈ یونین کارکنان جمہوریت میں ملبوس اس آمریت کے خاص نشانے پر ہیں۔
28 جون کو استنبول کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر تین خود کش حملہ آوروں نے پہلے اندھا دھند فائرنگ کی اور پھر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اس حملے میں کم از کم 42 افراد ہلاک جبکہ 239 زخمی ہوئے۔ طیب اردوان کے مطابق حملہ داعش نے کیا تھا۔ اس طرح کے کئی حملے ترکی میں گزشتہ کئی ماہ کے دوران ہوئے ہیں۔ کچھ ہی ہفتے پہلے 7 جون کو استنبول میں ایک کار بم دھماکے میں سات پولیس اہلکار اور چار شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ اس سے قبل استنبول میں ہی 19 مارچ کو تین اسرائیلی اور ایک ایرانی شہری خود کش حملے میں ہلاک ہوئے۔ 13 مارچ کو انقرہ میں خود کش کار بم دھماکے میں 34 افراد ہلاک ہو گئے۔ 17 فروری کو انقرہ میں اسی طرح کے ایک دھماکے میں 29 افراد ہلاک ہوئے۔ 12 جنوری کو استنبول کے سیاحتی علاقے میں 11جرمن سیاحوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔
ان حملوں میں داعش کی شمولیت واضح نہیں ہے۔ داعش نے پچھلے سال صرف ایک نسبتاً چھوٹے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ داعش کے ساتھ اردوان کا تعلق ڈبل گیم پر مبنی رہا ہے۔ یہ صورتحال کم و بیش پاکستان سے ملتی جلتی ہے جہاں حکمرانوں کی اپنی پالیسیاں ان کے گلے پڑی ہوئی ہیں۔ پاکستان میں ایک بڑے انگریزی اخبار نے اپنے ادارئیے میں اردوان حکومت کی منافقت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ''اس عسکری، سفارتی اور انسانی بحران کے بھنور میں ترکی کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کس طرف ہے۔ شام کی خانہ جنگی ایک کثیرالجہتی تنازعہ ہے، لیکن اکثر ایسا لگتا ہے کہ صدر اردوان کی حکومت اسے کرد مسئلے کے عدسے سے دیکھتی ہے اور ''پہلے اسد سے نمٹنے‘‘ کے فلسفے پر یقین رکھتی ہے۔ اسے یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہئے کہ صدر بشار الاسد کی بے دخلی پرامن اور 'نارمل‘ شام کی ضمانت نہیں ہے... علاوہ ازیں انقرہ بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہے اگر وہ سمجھتا ہے کہ داعش کردوں کے خلاف اس کی مدد کر سکتی ہے؛ اسے معلوم ہونا چاہئے کہ داعش کسی اتحاد پر یقین نہیں رکھتی؛ وہ صرف سب کے خاتمے کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں اور موت اور تباہی ہی ان کا حتمی مقصد ہے۔ وقت آگیا ہے کہ انقرہ واضح انداز میں سوچے اور صحیح فیصلہ کرے‘‘۔
یہ علاقائی و عالمی سامراجی قوتیںاور قومی ریاستیں اس بے قابو اور بے رحم بحران کا کوئی حل نکالنے سے قاصر ہیں۔ ان کے نظام میں اتنی سکت ہی نہیں بچی ہے۔ ہر طرف منافقت اور ڈبل گیم ہے جو بذات خود سرمایہ داری کے تحت بین الاقوامی تعلقات کے بحران کی علامت ہے۔پچھلے دنوں طیب نے روسی طیارہ مار گرانے پر روس سے معافی مانگ لی ہے اور اسرائیل سے تعلقات بھی بحال کئے ہیں جس کی بنیادی وجہ ترک معیشت کا بڑھتا ہوا بحران ہے۔ ''نان سٹیٹ ایکٹرز‘‘ کو پراکسیوں کے طور پر استعمال بھی کیا جاتا ہے اور کبھی بے قابو ہو جانے پر ان کے خلاف کارروائیاں بھی ہوتی ہیں۔داخلی سطح پر بھی اپنے ممالک میں بوقت ضرورت خوف و ہراس اور انتشار پھیلانے کی ضرورت ان حکمرانوں کو پڑتی رہتی ہے جس کے لئے پھر دہشت گردی کا استعمال کیا جاتا ہے، اور دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے نام پر عوامی تحریکوں، مزاحمت اور ایجی ٹیشن کو کچلا جاتا ہے ۔طبقاتی بنیادوں پر محنت کش طبقے اور وسیع تر عوام کی یکجہتی میں دراڑیں ڈالنے کے لئے بھی مذہبی بنیاد پرستی اور فرقہ وارانہ منافرت کے اوزار استعمال کئے جاتے ہیں۔لیکن حکمرانوں کے اس کھیل میں ہر جگہ برباد غریب عوام ہی ہو رہے ہیں۔ ایک طرف بارود کی دہشت گردی ہے اور دوسری طرف وہ سرمایہ داری کی معاشی دہشت گردی کا شکار ہیں۔
پچھلی کئی دہائیوں کے دوران بنیاد پرستی کی نئی اشکال اور مظاہر نے اسی نظام کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور اسی نظام کے حکمرانوں نے افغانستان اور پاکستان سے لے کر شام اور لیبیا تک، اپنے مفادات کے تحت اسے پروان چڑھایا ہے۔ دنیا بھر میں مذہبی بنیاد پرستی کے سیاسی اور غیر سیاسی رجحانات کو امریکی سامراج نے ہی سرد جنگ کے دوران پروان چڑھایا تھا۔آخری تجزئیے میں آج دنیا اس عمل کے مضمرات سے ہی دوچار ہے جس کا آغاز افغانستان کے ثور انقلاب کو کچلنے کے لئے ڈالر جہاد کے ذریعے امریکی سامراج اور اس کے گماشتہ حکمرانوں نے کیا تھا۔ سامراجی قوتوں کی یہ پالیسی مختلف سطحوں پر آج تک جاری ہے اور اس نظام میں آگے بھی جاری رہے گی ۔ مذہبی بنیاد پرستی ، فسطائیت اور دہشت گردی آخری تجزئیے میں تاریخی طور پر متروک سرمایہ دارانہ نظام کا ہی نچڑا ہوا عرق ہیں۔ یوں دہشت گردی سے نجات سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے سے مشروط ہے۔