تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     02-07-2016

کاک ٹیل کالم

خواب میں استقبال
کیا دیکھتا ہوں کہ وطن واپسی پر لاہور ایئر پورٹ پر لینڈ کر چکا ہوں جہاں میرے استقبال کے لیے ہر طرف خلقت ہی خلقت نظر آرہی ہے اور یہ سب دُخترِ اوّل کی کوششوں کا نتیجہ ہے اور میں اب تک وزارت عظمیٰ ان کے سپرد کر چکا ہوتا لیکن بُرا ہو پاناما لیکس کا کہ سب تدبیریں الٹی ہو گئیں۔ مجھے بتایا جا رہا ہے کہ میرے استقبال کے لیے پورا پاکستان اُمڈ آیا ہے اور کراچی اور کوئٹہ سے لے کر لنڈی کوتل وغیرہ تک تمام شہر خالی ہو کر بھائیں بھائیں کر رہے ہیں اور سارا ملک خوشیاں منا رہا ہے۔ آتش بازی چلائی جا رہی ہے اور مٹھائیاں تقسیم کی جا رہی ہیں۔ معلوم ہوا کہ اگلے چوک میں جلیبیاں تقسیم کی جا رہی ہیں جو ایک اہلکار کو بھیج کر منگوائی گئیں‘ شاید وہ پرویز رشید تھے۔ بہت مزیدار تھیں اس لیے لانے کے لیے بھیجا بلکہ یہ کہلا بھیجا کہ ساتھ بھی کچھ باندھ دیں۔ یہ ملک سے میری غیر حاضری کا فیض ہے ورنہ پہلے تو ایسی لاجواب جلیبیاں یہاں تیّار نہیں ہوتی تھیں‘ ہیں جی؟
ڈاکٹر سید نذیر احمد
محبی پروفیسر ڈاکٹر مظفر بخاری نے گورنمنٹ کالج لاہور کے سابق پرنسپل کی بے مثال شخصیت کے حوالے سے تین قسطوں 
میں جو کالم لکھا ہے‘ میں نے تینوں قسطیں بڑے ذوق و شوق سے پڑھی ہیں جبکہ ایک دلچسپ واقعے کا ذکر نہیں ہو سکا جو میں کیے دیتا ہوں اور وہ یہ کہ ڈاکٹر صاحب جب گورنمنٹ کالج سے ریٹائر ہوئے تو پیکیجز والے سید امجد علی نے ان سے رابطہ کر کے درخواست کی کہ ان کے ادارے میں آ جائیں جیسا کہ بخاری صاحب نے بھی لکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کام کے پیشِ نظر یہ دعوت قبول کر لی۔ تنخواہ طے کرنے کا مرحلہ آیا تو انہوں نے کہا کہ آپ اپنی تنخواہ خود ہی مقرر کر لیں؛ چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے ایسا ہی کیا۔ سات آٹھ ماہ گزرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب دفتر کے متعلقہ آدمی کے پاس گئے اور کہا کہ میری تنخواہ میں سے اتنے ہزار روپے کم کر دیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب‘ یہاں تو لوگ تخواہیں بڑھانے کے لیے آتے ہیں‘ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں‘ جس پر ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ یہ میرے مکان کی قسط تھی‘ قسطیں پوری ہو چکی ہیں‘ اس لیے اب مجھے ان پیسوں کی ضرورت نہیں ہے۔
ایک ہجو‘ ایک قصیدہ
عزیزی علی اکبر عباس نے کچھ عرصہ پہلے میری ایک ہجو لکھ کر بھیجی تھی جو میں نے اپنے کالم میں شامل کر لی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے ایک مدحیہ غزل لکھ کر گویا تلافی کرنے کے لیے بھجوائی۔ وہ میں نے اس لیے نہیں چھاپی کہ اپنی تعریف میں نظمیں اپنے ہی کالم میں چھاپتا کیا اچھا لگوں گا۔ اب موصوف نے وہی مدحیہ غزل دوبارہ اس فرمائش کے ساتھ بھجوائی ہے کہ اسے ضرور شائع کیا جائے۔ میرا موقف اب بھی وہی ہے‘اس 
لیے اسے نہیں چھاپ سکتا۔ البتہ اگر وہ ایک آدھ ہجو اور لکھ بھیجیں تو وہ ضرور چھاپ دوں گا کیونکہ اپنی ہجو میں خود بھی کرتا رہتا ہوں۔ سو، موصوف کے اطمینان قلب کے لیے میں یہ لکھنا کافی سمجھ رہا ہوں کہ انہوں نے اب میری مدح میں بھی غزل لکھی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ تائو کھا کر ایک آدھ ہجو ہی اور لکھ دیں۔ مجھے انتظار رہے گا ع
قدم نُما و فرود آ کہ خانہ خانۂ تُست
ایک افسوسناک لطیفہ
اوکاڑہ سے ہمارے برخوردار شاعر مسعود احمد کی شاعری انہی کالموں میں گاہے آپ کی نظروں سے گزرتی رہتی ہے۔ اگلے روز ان کا خط آیا‘ لکھتے ہیں:
محترم میاں صاحب
آداب
آپ سے ہی نہیں‘ میں آج کل کسی سے بھی سیدھے مُنہ بات نہیں کر رہا۔ مغروری کا کوئی جواز نہیں البتہ معذوری ضرور ہے۔ پچھلے پندرہ دن سے مجھے لقوہ ہو گیا ہے۔ بینک کی نوکری میں یہ حسرت ہی رہی کہ کسی سے ٹیڑھے منہ بات 
کریں مگر برا ہو اس نوکری کا‘ کبھی ایسا نہ کر سکا۔ آج کل یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہوں کہ افسروں سے بھی سیدھے مُنہ بات نہیں کرتا۔ والسلام
مسعود احمد
موصوف کی صحت یابی کے لیے دُعا بھی نہیں کی جا سکتی تاکہ انہیں افسروں سے سیدھے مُنہ بات نہ کرنے کا جو موقع میسر آیا ہے‘ وہ تادیر قائم رہے اور وہ اس سے زیادہ سے زیادہ لُطف اندوز ہو سکیں۔آمین‘ ثم آمین!
ایک واقعی دعائے صحت یابی
موصول شدہ ایک میسج کے مطابق فیصل آباد سے اردو اور پنجابی کے صاحبِ طرز شاعر انجم سلیمی کے جواں سال صاحبزادے کا روڈ ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور وہ شدید زخمی حالت میں وہاں کے الائیڈ ہسپتال میں داخل ہیں۔ ان کی جلد صحت یابی کے لیے دُعا کی اپیل ہے!
آج کا مطلع
نقشِ ہوس دلوں پہ مکرّر بٹھا دیا
ہر دشمنِ وفا مرے سر پر بٹھا دیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved