تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     02-07-2016

بارے ’’شاپنگ‘‘ کا بیاں ہوجائے!

عید آنے والی ہے۔ مگر اس سے پہلے ایک انتہائی ''بارونق‘‘ قیامت آئی ہوئی ہے۔ یہ قیامت وہ ہے کہ خواتین سے شروع ہوتی ہے اور منتہائے کمال کو پہنچ کر مَردوں کا بیڑا غرق کر ڈالتی ہے۔ پھر وہ بے چارے کہیں کے نہیں رہتے۔ ماہِ صیام میں جنہیں اللہ کی رضا چاہیے وہ عبادات میں مگن ہیں۔ اور دوسری طرف بیشتر اہل وطن کا یہ حال ہے کہ ساری دنیا کے غم بھول کر صرف ایک غم کو پالے ہوئے، سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور یہ غم ہے شاپنگ کا! عبادات اور فیوض و برکات کے لحاظ سے ماہِ صیام تین حصوں یعنی تین عشروں پر مشتمل ہے۔ اور اگر بات رونق میلے اور دل پشوری کے حوالے سے کی جائے تو پورا ماہِ صیام ایک ہی درجے میں ہے، ایک ہی رنگ کا ہے یعنی ون یونٹ ہے! مملکتِ خداداد میں ایسی اہل ایمان کی کمی نہیں جو ماہِ صیام کے شروع ہوتے ہی عبادات سے زیادہ شاپنگ یعنی عید کی تیاریوں کے بارے میں سوچنے لگتی ہیں! 
عشروں پہلے ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ جب خواتین گھر سے شاپنگ کے لیے نکلتی تھیں تو صرف شاپنگ کرتی تھیں۔ یعنی ''شعلے‘‘ کی بسنتی کے بقول رام گڑھ گئے تو سمجھو رام گڑھ گئے! ہم جس کا ذکر کر رہے ہیں وہ ایک پنتھ ایک کاج کا زمانہ تھا۔ تب زندگی میں سادگی اِس قدر تھی کہ اب سوچیے تو کوفت سی ہونے لگتی ہے کہ کیا واقعی کبھی ہم اِتنے سادہ بھی ہوا کرتے تھے! کیا زمانہ ہے کہ اپنے ہی وجود کا پچھلا ورژن انجانا سا محسوس ہوتا ہے! ایک پنتھ ایک کاج کا زمانہ ایسا گیا کہ اب اُس کے پلٹ آنے کا تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا۔ زمانے کی ہوا یُوں بدلی ہے کہ ایک راہ پر چل کر کئی منزلیں پانے کی تمنّا ہے کہ توانا ہوئی جاتی ہے۔ ڈیڑھ دو عشروں کے دوران پاکستانی معاشرہ قیامت خیز تیزی سے سے تبدیل ہوا ہے۔ جو کچھ محض خیال و خواب کا حصہ تھا وہ اب حقیقت بن کر ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ آج کا پاکستانی معاشرہ ''ملٹی ٹاسکنگ‘‘ کے دور سے گزر رہا ہے۔ یعنی ایک وقت میں ایک ساتھ کئی کام کرنے کا مزاج پنپ چکا ہے۔ ایک تیر سے کئی نشانے لینا اب فن، فیشن اور جنون ہے۔ گزرے ہوئے وقتوں میں ''سوشل ملٹی ٹاسکنگ‘‘ کی انتہا یہ تھی کہ کوئی عورت کسی کام سے میاں کے ساتھ گھر سے نکلتی تھی تو واپسی پر ''ملا کی دوڑ مسجد تک‘‘ کے مصداق ذرا امی کے ہاں بھی ہوتی ہوئی آتی تھی! فی زمانہ خواتین ذہنی طور پر ایسی سادہ یا پس ماندہ نہیں رہیں۔ اب وہ اچھی طرح جانتی ہیں کہ ایک تیر میں ایک ایک درجن نشانے کس طرح لینے ہیں! شاپنگ ایک ایسا ہی تیر ہے جو خواتین کو ایک ساتھ آٹھ دس نشانے لینے کی تحریک دیتا ہے اور یہ اپنی مرضی کے مطابق شکار کرنے کے بعد ہی گھر واپس آتا ہے! 
ٹی وی چینلز پر سحری سے قبل اور افطار کے بعد پیش کیے جانے والے نیلام گھر ٹائپ پروگرامز میں میزبان کوشش کرتے ہیں کہ کوئی خالی ہاتھ نہ جائے۔ بالکل اِسی طور خواتین بھی کوشش کرتی ہیں کہ شاپنگ کے لیے گھر سے نکلنا ہو تو پھر کوئی خواہش تشنہ نہ رہ جائے، لطف آئے تو بھرپور آئے اور ''پیسہ وصول‘‘ والی کیفیت پیدا ہو! یہی سبب ہے کہ شاپنگ کے لیے گھر سے نکلتے وقت کئی اہداف متعین کرلیے جاتے ہیں اور ہر ہدف کے حاصل ہونے تک گھر میں قدم نہ رکھنے کی قسم سی کھالی جاتی ہے! 
رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی شاپنگ سینٹرز کی رونقیں 
دوبالا ہونے لگتی ہیں۔ جیسے جیسے ماہِ صیام کے ایام گزرتے جاتے ہیں، شاپنگ سینٹرز اور خریداری کے دیگر مراکز کی رونقوں کا گراف بلند ہوتا جاتا ہے۔ پہلے عشرے میں معاملات ذرا ٹھنڈے رہتے ہیں۔ دوسرے عشرے میں گاڑی فرّاٹے بھرنے لگتی ہیے۔ اور تیسرے عشرے میں تو حالت یہ ہوتی ہے کہ کسی میں حالت بیان کرنے کا یارا بھی نہیں رہتا! 
اس وقت پورے ملک میں عید شاپنگ کی چکری گھوم رہی ہے۔ خواتین کا ایک پاؤں گھر میں ہے اور دوسرا شاپنگ سینٹر(ز) میں۔ کچھ اِس انداز کی آنیاں جانیاں لگی ہوئی ہیں کہ جو یہ آنیاں جانیاں فرما رہی ہیں وہ بھی اپنے آپ کو، اپنے جوش و خروش کو دیکھ کر حیران تو ہوتی ہوں گی! شاپنگ کے ایسے انوکھے انداز اپنائے جارہے ہیں کہ اب بہت سی خواتین دوسری بہت سی خواتین کو شاپنگ میں مگن دیکھنے کے شوق میں بھی بازار کا رخ کرتی ہیں! وہ زمانہ بھی لد گیا جب بازار صرف خریداری کا مرکز ہوا کرتے تھے۔ اُس دور کی ''دقیانوسی‘‘ سوچ کو خیرباد کہتے ہوئے اب بازار کو بھی ''ملٹیپل‘‘ مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ بازار میں صرف کپڑے، جوتے، کنگھی، چوٹی ہی تو نہیں ملتی۔ ساتھ ساتھ دہی بڑوں اور چھولوں کی چاٹ، بار بی کیو اور کولڈ ڈرنکس کی دکانیں بھی تو ہوتی ہیں۔ بیشتر خواتین اب خریداری کے لیے بازار کا رخ کرتی ہیں تو کئی مقاصد ذہن نشین رکھتی ہیں۔ کچھ وقت خریداری کو دیا جاتا ہے، کچھ وقت خریداری کرنے والی دیگر خواتین کے اطوار دیکھنے پر صرف کیا جاتا ہے، تھوڑا وقت آلو چھولے کی چاٹ کے لیے نکالا جاتا ہے، اس کے بعد کھائی ہوئی چاٹ کو معدے میں سیٹ کرنے کے لیے کولڈ ڈرنکس کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اور اگر قریب ہی جھولے لگے ہوں تو اُس شغل میلے کو بھی کچھ وقت دیا جاتا ہے۔ شاپنگ کے معاملے میں خواتین ناصر کاظمی مرحومؔ کے مقطع کی عملی تصویر بن جاتی ہیں ؎ 
کچھ یادگارِ شہرِ ستم گر ہی لے چلیں 
آئے ہیں اِس گلی میں تو پتّھر ہی لے چلیں! 
اس پورے شغل میلے میں جو گت شوہروں کی بنتی ہے وہ قابلِ دید بھی ہوتی ہے اور قابلِ داد بھی! عید کی تیاریوں کے حوالے سے اُنہیں قدم قدم پر ''فنڈز‘‘ کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ جنہیں عید منانی ہے اور اِس حوالے سے بھرپور تیاری کرنی ہے اُنہیں اِس بات سے کچھ غرض نہیں ہوتی کہ ''فنڈنگ‘‘ کے لیے کیسے کیسے پاپڑ بیلے جارہے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اُنہیں اِس بات سے بھی کچھ غرض نہیں ہوتی کہ جو یہ پاپڑ بیل رہے ہیں وہ بے چارے خود ''پاپڑی‘‘ جیسے ہوکر رہ گئے ہیں! اُن غریبوں کی تو وہی حالت ہوجاتی ہے جو میرؔ کی ہوئی تھی یعنی ع 
پھرتے ہیں میرؔ خوار، کوئی پوچھتا نہیں 
رمضان کے آخری عشرے کے دوران بیشتر شوہر بھی کچھ ایسی ہی کیفیت سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ اُنہیں ہر وقت جیب بھری ہوئی حالت میں رکھنی پڑتی ہے۔ پتا نہیں بیگم صاحبہ کب، کیا خریدنے کی فرمائش کر بیٹھیں۔ اور کر کیا بیٹھیں، کر ہی بیٹھتی ہیں! 
عید کی تیاریوں نے خواتین اور دیگر اہل خانہ کو تازہ دم رکھنے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔ ہاں، بے چارے صاحبانِ خانہ ضرور ادھ موئے ہوئے جارہے ہیں۔ وہ یہ سوچ سوچ کر لرزہ بر اندام رہتے ہیں کہ پتا نہیں کب، کون سی فرمائش قیامت بن کر ٹوٹ پڑے۔ اور صورتِ حال کی ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ اُن کا ہر خدشہ درست ثابت ہوتا ہے یعنی فرمائش کے براڈ کاسٹنگ اسٹیشن سے نشریات جاری رہتی ہیں! 
جس وقت آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تب عید کی تیاریاں نقطۂ عروج پر ہوں گی۔ شاپنگ سینٹرز کی طرف خواتین کی آنیاں جانیاں درجۂ کمال کو چُھو رہی ہوں گی۔ ایسے میں اُنہیں ذرا بھی بد دل نہیں ہونا چاہیے جنہیں اس رونق میلے کے اخراجات برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ مرحلہ اب زیادہ دن نہیں چلے گا۔ عید بس آیا ہی چاہتی ہے۔ ہم عید کی دہلیز پر پاؤں دھرنے ہی والے ہیں۔ ایسے میں صاحبانِ خانہ زیادہ ملول نہ ہوں۔ ہم اُنہیں فیض کی زبانی تسلّی دینا چاہتے ہیں ع 
اِک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved