ایک قیدی کی حیثیت میں ڈاکٹر عاصم حسین نے جو اعترافی بیان دیا ہے، وہ ذرا ٹی وی پہ ملاحظہ کیجئے۔ زرداری صاحب کے دستِ راست کے طور پر ان کی جو شخصیت ہوا کرتی تھی، اب وہ اس کا محض ایک پرتَو معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے آقا جناب آصف علی زرداری کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔ جب بھی وہ طاقت و اقتدار سے محروم ہوتے تو بالکل ایک عام سے آدمی لگنے لگتے تھے۔ اٹھارہ سال قبل کی ایک مثال ہم یہاں دینا چاہیں گے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو ان دنوں قائدِ حزبِ اختلاف ہوا کرتی تھیں اور زرداری صاحب ایک اسیر سینیٹر تھے۔ ان کے خلاف مقدموں کی عدالت میں سماعت جاری تھی۔ پارلیمنٹ ہائوس میں اپوزیشن لیڈر کے چیمبر میں زرداری صاحب اپنی اہلیہ کی کرسی پہ براجمان تھے۔ ان کے پیچھے ان کے سسر ذوالفقار علی بھٹو کا بڑا سا پورٹریٹ لگا ہوا تھا جبکہ سامنے بی بی کی کلوز اپ تصویر ٹنگی ہوئی تھی۔ پاس ہی ان کی لاٹھی بھی پڑی تھی۔ اس وقت ان کی میز کے اردگرد خوش آمدی جیالوں کا کوئی جمگھٹا نہیں تھا‘ بلکہ سندھ سے ہی تعلق رکھنے والے ان کے دو ساتھی اراکینِ پارلیمان نوید قمر اور خورشید شاہ وہاں موجود تھے۔ اس تصویر کو مکمل کرنے کے لئے ہم سمیت چند دیگر بے باک صحافی بھی وہیں پہ تھے۔ زرداری صاحب بیمار، کمزور اور موسمی سختیوں کے شکار معلوم ہو رہے تھے۔ ان کی رنگت معمول سے تین گنا زیادہ گہری لگ رہی تھی اور ان کے سر کے بال بھی بے ترتیب اور معدوم ہوتے محسوس ہو رہے تھے۔ ان کا جُثّہ بھی گویا سکڑ گیا تھا۔ وہ اس کمرے میں یونہی بیٹھے ہوئے تھے کیونکہ سینیٹ کا سیشن ختم ہو گیا تھا‘ اور اڈیالہ جیل کو ان کی واپسی میں اب مزید تین گھنٹے باقی تھے۔ اس سے کوئی بیس ماہ قبل ہم نے زرداری صاحب اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو صدر فاروق لغاری کے بیٹے کی شادی کی تقریب میں دیکھا تھا جہاں یہ دونوں مرکزِ نگاہ بنے ہوئے تھے۔ بے شمار درباریوں کے جھرمٹ میں ان کی وہاں آمد قرونِ وسطیٰ کے کسی بادشاہ اور ملکہ کی یاد دلا رہی تھی۔ اس تقریب میں شامل دیگر لوگوں نے ان کی آمد کا نظارہ عوام الناس کی طرح کیا تھا۔ اپوزیشن لیڈر کے چیمبر میں بیٹھے زرداری صاحب مسلسل اپنی جیب سے شاہی سپاری نکال کر کھائے جا رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے: ''جیل سے باہر یوں نارمل لوگوں کی طرح وقت گزارنا اور آپ لوگوں سے باتیں کرنا مجھے ایک بہت بڑی بات لگتی ہے۔ اسلام آباد کتنا غیر حقیقی اور احساس سے عاری شہر ہے۔ یہاں لوگ شیش محلات میں بند رہتے ہیں اور باہر کی فضا کی شدت انہیں محسوس نہیں ہوتی‘‘۔ یہ باتیں ایک ایسا شخص کہہ رہا تھا‘ جو ابھی کچھ عرصے پہلے تک اس ملک کا مردِ اول تھا، وزیر اعظم ہائوس میں اس کی رہائش تھی، اسے رسوخ حاصل تھا، اس کی شخصیت رومانوی تھی، اسے سراہا جاتا تھا، اس پہ نکتہ چینی بھی ہوتی تھی اور لوگ اس سے خوف بھی کھاتے تھے۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ دبئی میں بچوں کا کیا حال ہے۔ انہوں نے بتایا: ''بلاول سے میری ابھی فون پہ بات ہوئی۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ سب مجھے بے حد یاد کرتے ہیں۔‘‘ ہم نے پھر پوچھا کہ ''بیگم بھٹو کیسی ہیں؟‘‘ انہوںنے جواب دیا: ''وہ بھی بچوں کے ساتھ ہی ہوتی ہیں لیکن ان کی صحت ٹھیک نہیں۔‘‘ پھر ہم نے زرداری صاحب سے ان کی اپنی صحت کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا: '' آپ کے خیال میں کیسی ہونی چاہئے؟ میری کمر میں تکلیف ہے اور اس کے
علاوہ بھی کئی بیماریاں مجھے لاحق ہیں۔‘‘ نجانے کیوں یہ وی وی آئی پی شخصیات جب اقتدار میں ہوتی ہیں تو ٹھیک ٹھاک رہتی ہیں لیکن اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی ان کی صحت بھی جواب دے جاتی ہے۔ زرداری صاحب اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ ''ظاہر ہے کہ جب آپ کئی مہینوں تک ایک کوٹھڑی میں بند ہوں اور آپ سے بدسلوکی (تشدد؟) کی جا رہی ہو تو آپ کا کیا خیال ہے کہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ ہم کوئی گوریلے نہیں! عام طور پر ہم بڑی ہی سہل اور پُرتعیش زندگی کے عادی ہوتے ہیں۔‘‘ پھر انہوں نے موضوعِ گفتگو بدلنے کی غرض سے پوچھا کہ شہر میں تقریبات کا موسم کیسا چل رہا ہے۔ ہم نے جواباً بتایا کہ ان کے بغیر بالکل بے رنگ! اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام آباد میں بے رنگ سے بے رنگ ڈنر پارٹیوں کو بھی زرداری صاحب اپنی شخصیت کا طلسم چمکا کر بارونق بنا دیا کرتے تھے۔ ہم نے انہیں ایک ایسے ہی الوداعی ڈنر کی یاد دلائی جو صدرالدین ہاشوانی کی رہائش گاہ پر رخصت ہونے والے
امریکی سفیر جان مونجو کے اعزاز میں دیا گیا تھا۔ آرمی چیف بننے کے متمنی کئی ایک جرنیل بھی وہاں موجود تھے۔ زرداری صاحب نے فوراً فون نکالا اور سکول کے کسی لڑکے کی مانند بڑے پُرجوش طریقے سے اعلان کیا کہ ''یار، مجھے اس سے بات کرنی ہے۔‘‘ تاہم لائن کی دوسری سمت سے انہیں بتایا گیا کہ ان کا مطلوبہ شخص اپنی نشست پہ موجود نہیں۔ دس منٹ تک انہوں نے فون پکڑے رکھا اور آخر انہیں بتایا گیا کہ ''صاحب ملک سے باہر ہیں۔‘‘ زرداری صاحب نے ہنستے ہوئے ہمیں بتایا کہ ''آپ کو علم ہے کہ سیف الرحمان (احتساب بیورو کے سربراہ) نے ہاشوانی کو میرے فرنٹ مین کے طور پر نامزد کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہاشوانی نے کیلی فورنیا میں میرے لئے ایک ہوٹل خریدا ہے۔‘‘ مگر پھر یکدم ان کی ہنسی رُک گئی۔ وہ کہنے لگے ، ''یہ آدمی (سیف الرحمن) یہ سارا ڈرامہ اور کہانیاں گھڑنے میں اس ملک کے وسائل کو ضائع کر رہا ہے۔ یہ کہتا ہے کہ لوٹی ہوئی رقم کا نصف یعنی بائیس ملین روپے میرے پاس ہے کیونکہ جاوید طلعت، اسلم حیات قریشی اور سلمان فاروقی جیسے افسران نے میرے لئے جائیدادیں خریدیں۔ یہ بڑی ہی عجیب بات ہے کیونکہ میں تو ان لوگوں کو جانتا ہی نہیں۔‘‘ یہ تو بالکل جھوٹ ہے! پھر انہوں نے مزید یہ کہا: ''بی بی کے پاس بچوں کے سکولوں کی فیس دینے کے پیسے بھی نہیں۔ ہمارے سارے ذرائع آمدن منجمد کئے جا چکے ہیں۔‘‘ یہ بھی جھوٹ ہے! ہم نے جب زرداری صاحب کو بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ اور سویس حکام نے ملک اور
بیرون ملک میں ان کے اکائونٹس اور جائیدادیں سیل کر دی ہیں تو ان کا جواب تھا: ''میں نے کوئی دولت نہیں کمائی، مجھے خدا کو جواب دینا ہے۔ ایک آدمی کیسے اربوں ڈالر کما سکتا ہے؟ سیف الرحمن کے ثبوتوں کی بنیاد کمپیوٹر کے چند اعداد و شمار ہیں جو بالکل غلط ہیں۔ اسی آدمی نے پہلے مجھ پہ ڈکیتی، اغوا اور قتل کے الزامات بھی لگائے تھے اور اب میرے جرائم کی فہرست میں اس نے ڈرگ منی کا اضافہ کر دیا ہے۔‘‘ ہم نے زرداری صاحب کو بتایا کہ ان کی اور محترمہ کرپشن کے بارے میں سیف الرحمن صاحب ایک کتاب چھاپنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو انہوں نے کہا: ''وہ چاہے تو پوری ایک انسائیکلوپیڈیا چھاپ سکتا ہے لیکن بکواسیات کے پلندے کے سوا اس میں اور کچھ نہیں ہو گا۔‘‘ وزیر اعظم نواز شریف کی اربوں کی دولت کے بارے میں زرداری صاحب نے کہا تھا: ''وہ خود کو بڑا اچھا ظاہر کرتے ہیں حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ وہ قرض نادہندہ ہیں اور اس ضمن میں جس جائیداد کی واپسی کا انہوں نے اعلان کیا ہے اس کی قیمت بھی کچھ زیادہ نہیں۔ مقصد اس سے صرف یہ ہے کہ وہ اور ان کے خاندان والے بینکوں سے مزید قرضے لے سکیں۔ اس ملک کے لئے ان کی ذات کسی بد خبری سے کم نہیں!‘‘
ایک فرانسیسی ادیب کا قول ہے کہ Plus Ça Change, Plus C'Est La Même Chose یعنی چیزیں جس قدر بدلتی ہیں، اس قدر ہی ان میں یکسانیت برقرار رہتی ہے! پاکستانی سیاست کے لئے یہی قول صادق ٹھہرتا ہے کیونکہ ہمارے یہاں سیاستدان جیلوں سے بغیر کسی درمیانی پڑائو کے سیدھا ایوانِ صدر یا ایوانِ وزیر اعظم پہنچ جاتے ہیں!