تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     03-07-2016

کرہ ارض کا سب سے لاوارث ملک

تقریباً آدھی دنیا گھومنے اور دیکھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دنیا میں شاید کسی اور ملک میں اپنے ملک کے خلاف بولنے کی اتنی آزادی میسر نہیں جتنی پاکستان میں ہے۔ یہ بھی درست کہ جتنی آسانی سے غداری کا سہرایہاں لوگوں کے سر سجایا جاتا ہے اتنی آسانی سے کسی اور ملک میں بھی ممکن نہیں مگر اس ارزاں فروشی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب یہاں غداری کے فتوے کی اہمیت نہ صرف ختم ہو گئی ہے بلکہ بعض اوقات تو باقاعدہ باعث فخر چیز بن کر رہ گیا ہے۔
ملک‘ ملک کی اساس‘ ملک کی جغرافیائی سالمیت‘ ملک کی فوج اور ملک کے اکثریتی لوگوں کے مذہبی جذبات کے خلاف بولنا یہاں فیشن بن کر رہ گیا ہے۔ دیسی لبرلز کے لیے سب سے آسان ہدف فوج‘ مذہب اور بذات خود پاکستان کا قیام ہے۔ اس کے خلاف بولنا فیشن بھی ہے اور آزادی اظہار کا ثبوت بھی۔اس وقت تک کسی شخص کو حق گو‘ بہادر‘ جمہوریت پسند‘ روشن خیال اور سچا نہیں سمجھا جاتا جب تک وہ ان تین چار طبقات کو بے عزت نہ کرے‘ رگڑا نہ دے اور ان میں کیڑے نہ نکالے۔ چار چھ جرنیلوں کے اقدامات کا سارا نزلہ فوج کے پورے ادارے پر گرا کر اسے مطعون کہا جاتا ہے۔ دس بارہ مراعات یافتہ اور ہر دم اقتدار کے چوردروازے کے طفیل مزے لینے والے نام نہاد دینی رہنمائوں کے طفیل پورے مذہبی طبقے کو برائے فروخت اور اتنی ہی تعداد میں مذہبی انتہا پسند ملائوں کے کارن اسلام کو دہشت گردی کا دین قرار دے کر اپنی دکانداری چلائی جا رہی ہے اور ملک کی نظریاتی بنیادوں کو یکسر مسترد کر کے روشن خیالی کا تمغہ اپنے سینے سجایا جاتا ہے اور اس ساری مہم کے عوضانے میں اپنی اپنی این جی او یا اپنے اپنے مربی کو خوش کر کے مال پانی بنایا جا رہا ہے ۔جس آسانی اور سہولت سے اپنے ملک کی عزت و آبرو ‘ نظریے اور محافظوں کو پاکستان میں بدنام کرنا ممکن ہے دنیا بھر میں کہیںاور ممکن نہیں۔
دنیا بھر کے جمہوریت پسند‘سچائی کے دعویدار اور حق گوئی کے علمبردار صحافی‘اینکر‘تجزیہ نگار اور سیاستدان اپنے ملک کی سالمیت ‘ ملک کے محافظوں اور اپنے ملک کی نظریاتی اساس کے بارے میں ایک لفظ ایسا نہیں بولتے جس سے ان طبقات اور نظریات کو زک 
پہنچتی ہو۔ سیاستدان‘ حکمران‘ صحافی اور مصنفین کی ننانوے فیصد تعداد اپنے اپنے ملک کے دفاع میں باقی ساری دنیا کو برباد کرنے جیسے نظریے کے فروغ سے بھی دریغ نہیں کرتی اور وہ اپنی فوج‘ ملک اور نظریے کی حمایت پر کبھی شرمندہ یا معذرت خواہ بھی نہیں ہوتی۔ وہاں اپنے ملک میں بے پایاں محبت پر لوگ شرمندہ نہیں ہوتے ‘فخر کرتے ہیں۔اپنی فوج اور ملک کی حمایت کو حب الوطنی سمجھتے ہیں نہ کہ اس پر معذرت خواہ ۔ اور یہاں یہ عالم ہے کہ جب تک ان چار پانچ بنیادی چیزوں کو برا بھلا نہ کہہ لیں‘ مذاق نہ اڑا لیں اور بے عزت نہ کر لیں انہیں یہ یقین ہی نہیں آتا کہ وہ حق گوئی‘ بہادری اور جمہوریت پسندی کے مطلوبہ معیارپر پورے اترتے ہیں۔ جو چیز دیگر ترقی یافتہ اور جمہوری معاشروں میں باعث فخر ہے ہمارے ہاں باعث شرمندگی ہے۔ صحافی ‘ سیاستدان اور تجزیہ کار اپنے اپنے فیلڈ میں حکومت پر تنقید ضرور کرتے ہیں مگر ریاست کے بارے میں وہ ایسا سوچنا بھی گناہ سمجھتے ہیں ۔مگر ہمارے ہاں سب سے نرم ٹارگٹ ریاست ہے کہ اس کا یہاں والی وارث ہی کوئی نہیں ۔دنیا بھر میں ریاست کے تقدس اور نظریاتی حفاظت کو باعث فخر سمجھا جاتا ہے‘ ہمارے ہاں ایسی صورتحال پیدا کر دی گئی ہے کہ ریاست کے خلاف بولنے والے کو ملک دشمن کے بجائے مرد حق گو اور بہادر سمجھا جاتا ہے۔ ساری اقدار ہی تبدیل ہو کر رہ گئی ہیں۔
جس کا دل کرتا ہے ملک کی فوج کے خلاف دنیا بھر کے اخبارات میں اشتہار چھپوا دیتا ہے۔ کسی کا دل کرتا ہے تو وہ اپنی لسانی بنیادوں پر قائم سیاسی جماعت کے کارکنوں پر ہونے والے مظالم پر بھارت سے مدد طلب کر لیتا ہے اور کوئی سیاستدان بھارت کے ٹینکوں پر چڑھ کر پاکستان آنے کا نعرہ لگاتا ہے۔ کوئی ہوش وحواس سے عاری حالت میں ملکی جرنیلوں کو جان سے مارنے او رملک توڑنے کی دھکی دیتا ہے اور حکومتیں ہیں کہ اپنی اپنی بقا کے لیے ملک کے خلاف ہزیان بکنے والوں کے بارے میں خاموش رہتی ہیں کہ کہیں ان کے اتحادی ان کی حمایت سے اپنا ہاتھ نہ کھینچ لیں اور کہیں اسمبلی میں ان کی اکثریت اقلیت میں نہ بدل جائے۔ حکمران اقتدار کے اتنے لالچی ہیں کہ وہ ملکی سالمیت کے خلاف تو بات سن لیتے ہیں مگر اپنے اقتدار کو گرم ہوا بھی نہیں لگنے دیتے۔
عمران خان کی بہن کے مریم نواز شریف کے خلاف بیان پر تو مسلم لیگی طبلچیوں نے ایک کہرام مچایا ہوا ہے مگر اپنے اتحادی محمود اچکزئی کے ملک دشمن بیان پر سب کو سانپ سونگھ گیا ہے اور پرویز رشید جو عمران خان کی ہر بات پر جوابی کارروائی کرنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں اور اپنی توپوں کو پوری طاقت سے چوبیس گھنٹے داغنے پر تیار رہتے ہیں کل سے منہ میں ایک پنجابی کہاوت کے مطابق ''گھنگھنیاں‘‘ ڈال کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ وزارت کے شوق میں ایک عرصے سے مرے جانے والے دانیال عزیز کو بھی چپ لگی ہوئی ہے۔ دوسروں کو ہمہ وقت شرم اور حیا کی یاد دلانے والے خواجہ آصف بھی خاموش ہیں۔ حکومتی کیمپ کی طرف سے ہمہ وقت مخالفین کی دھجیاں اڑانے میں یدطولیٰ رکھنے والے طلال چوہدری کے منہ کو تالا لگ گیا ہے اور ہمہ وقت صرف بدگوئی میں مصروف عابد شیر علی کی منہ کی خارش کو بھی خاصا آرام لگتا ہے ‘ وہ بھی اپنے منہ کو ''میٹ‘‘ کر بیٹھا ہوا ہے۔ مریم نواز شریف پر جھوٹے الزام سے تو 
سب کے تن بدن میں آگ لگ گئی ہے اور جس ملک کے طفیل یہ سب مزے کر رہے ہیں اس کے بارے میں ان کا اتحادی ہزیان بک رہا ہے تو کسی کو جرأت نہیں پڑتی کہ وہ پھوٹے منہ سے ہی محمود اچکزئی کی مذمت کر دے یا اس کو شیٹ اپ کال ہی دے دے۔ حکمرانوں کو یہ ملک صرف اور صرف اقتدار کی حد تک عزیز ہے وگرنہ کوئی اس کے بارے میں کچھ بھی کہے‘ اگر حکمرانوں کو اس بیان سے ذاتی نقصان نہیں ہو رہا تو ان کی بلا سے۔ پاکستان کو جو کچھ مرضی کہہ لیں۔ میاں صاحبان اور ان کے بچوں کے بارے میں کچھ نہ کہا جائے کہ ان کی عزت و احترام ملکی عزت و احترام سے کہیں بالاتر ہے۔ چمچہ پارٹی کو پتا ہے کہ میاں صاحبان کی خوشنودی سے ملک کی حکمرانی مں حصہ مل سکتا ہے مگر ملک کی چمچہ گیری سے میاں صاحب کی خوشنودی حاصل نہیں ہو سکتی۔ وزارتیں اور مشاورتیں میاں صاحب کی نظر کرم کی محتاج ہیں۔لہٰذا سارے طبلچی عمران خان سے غلط بیانی پر معافی کا مطالبہ کر رہے ہیںاور ملکی سالمیت کے خلاف بیان دینے والے محمود خان اچکزئی کے بارے میں کسی کے منہ سے کچھ پھوٹ کر نہیں نکل رہا کہ وہ میاں صاحب کے اتحادی ہیں۔ میاں صاحب کا اتحادی ملک کے خلاف ہرزہ سرائی کرے تو قابل درگزر اور میاں صاحب کا مخالف اگر مریم نواز شریف کے پروٹوکول کے خلاف غلط فہمی پر بیان دے دے تو راندۂ درگاہ ٹھہرے۔ بہت سے لوگوں کی دکان صرف عمران مخالفت میں چل رہی ہے۔
ایک طرف ڈیوڈ کیمرون ہے جس نے یورپی یونین میں رہنے یا نہ رہنے کے معاملے پر ہونے والے ریفرنڈم میں ووٹروں کی طرف سے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ہونے والے فیصلے کے بعد استعفیٰ دے دیا؛حالانکہ دیکھا جائے تو اس ریفرنڈم کا ڈیوڈ کیمرون کی وزارت عظمیٰ سے کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا مگر اس کے باوجود اس نے اقتدار چھوڑنے کا اعلان کر دیا کہ اس کے ذاتی خیال میں برطانیہ کو یورپی یونین میں شامل رہنا چاہیے تھا اور اس کی سوچ کے خلاف فیصلہ آنے پر اس نے اقتدار سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا۔اس پر اس سلسلے میں کسی طرف سے کوئی دبائو نہیں تھا۔ حتیٰ کہ اسے یہ بھی امید نہیں کہ اس کی اقتدار سے علیحدگی پر اس کی بیٹی‘بھائی یا بھتیجا اقتدار میں آ جائے گا۔ ڈیو کیمرون کی اقتدار سے علیحدگی کا مطلب ہے پورے خاندان کی اقتدار سے علیحدگی۔ادھر یہ عالم ہے کہ ایک پوری نئی پود اقتدار میں آنے کے لیے تیار ہے۔ آدھا خاندان فی الوقت اقتدار میں ہے اور بقیہ آدھا امیدوارں کی قطار میں ہے مگر وزیر اعظم صاحب ہیں کہ اقتدار کو جان سے لگائے بیٹھے ہیں۔ مہینہ ہو گیا ہے ملک وزیر اعظم کے بغیر چل رہا ہے اور بقول چوہدری بھکن وزیر اعظم کی غیر موجودگی میں ملک عزیز تقریباً ایسی بری صورتحال میں چل رہا ہے جتنا ان کی موجودگی میں چل رہا تھا اور ان کی غیر حاضری سے ذرا بھی احساس نہیں ہوا کہ وزیر اعظم کا عہد ہ خالی پڑا ہوا ہے۔ خالی سے مراد غیر حاضری کے باعث پیدا ہونے والا آئینی خلا ہے۔ وزیر اعظم کو ''ہیرڈز‘‘ سٹور سے خریداری کرنے کی فرصت بھی ہے صحت بھی۔ مگر محمود اچکزئی کے بیان پر کچھ فرماتے ہوئے شاید ضعف بیماری کا حملہ ہو گیا ہے۔
یہ بیان کسی داڑھی والے نے دیا ہوتا تو دیسی لبرلز ‘ترقی پسند‘روشن خیال اور این جی او مافیا ایک کہرام مچا دیتی مگر یہ بیان کیونکہ ایک ترقی پسند ‘ لبرل اور روشن خیال شخص نے دیا ہے ‘لہٰذا سب کے لبوں کو تالے لگے ہوئے ہیں اور ان پر سکوت مرگ طاری ہے۔ ویسے بھی پاکستان کے خلاف بیان دینا موجودہ صورتحال میں روشن خیالی‘ جمہوری رویے‘ بہادری اور حق گوئی کی علامت ہے ‘اس لیے پورے کیمپ میں خاموشی ہے۔ طبلچی چپ ہیں۔ حکمران مصلحتاً خاموش ہیں۔
رہ گیا محمود اچکزئی عرف چادر والا بابا تو اس کا مسئلہ بڑا سیدھا ہے کہ ووٹ پشتونوں سے لو‘ اقتدار کے مزے پاکستان میں لو اور ایجنٹی افغانستان کی کرو۔فوائد کے مزے پوری طرح اور دونوں ہاتھوں سے لوٹنے چاہئیں۔
اس وقت پاکستان سے زیادہ لاوارث ملک کرہ ارض پر موجود نہیں۔ ویسے ہم ایٹمی طاقت ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved