اگلے روز رات کی بارش کے بعد علی الصبح ہوا اس قدر تیز تھی کہ باید و شاید۔ یہ آندھی بھی نہیں تھی کیونکہ آندھی تو ایک طرف سے گرد و غبار سمیت اکھاڑ پچھاڑ کرتی آتی ہے لیکن یہ تو جیسے ہر طرف سے آ رہی تھی اور ہر طرف کو جا رہی تھی۔ اسے ہوا کا طوفان البتہ کہہ سکتے ہیں۔ پیڑ تھے کہ دہرے ہوئے جاتے تھے‘ حتیٰ کہ پرندے بھی غائب۔ ایک کوّا تھا جو ایک پیڑ کی پتلی سی شاخ پر بیٹھا گویا جُھولا جُھول رہا تھا۔ صبح کے دھندلکے اور ہوا کی اس یورش نے گویا ایک ہنگامہ کھڑا کر رکھا تھا۔ صاف بھی ہو اور خنک بھی تو یہ آپ کے اندر ویسے ہی ایک انقاب برپا کر دیتی ہے۔ ہوا کی جو تعریف غالب نے کر رکھی ہے‘ کسی اور سے کیا ہو گی۔ کہتے ہیں ؎
ہے ہوا میں شراب کی تاثیر
بادہ نوشی ہے باد پیمائی
اب اس سے بڑھ کر اس کی کوئی کیا تعریف کرے گا۔
سو‘ ہوا چل رہی تھی‘ بلکہ چل کیا رہی تھی‘ بگٹٹ بھاگ رہی تھی جیسے کوئی اس کے پیچھے لگا ہو‘ اور میں مکمل طور پر اس کی گرفت میں۔ اور‘ آج کے کالم کی خالی جگہ یہ ہوا ہی پُر کرے گی۔ وہ کوّا اڑ کر کہیں اِدھر اُدھر ہو چکا ہے۔ اسے ہم لاکھ برا کہیں لیکن اس کی ایک صفت یہ دیکھی ہے کہ کسی نے اسے اپنی مادہ سے سرعام اختلاط کرتے کبھی نہیں دیکھا جبکہ مُرغا‘ چڑا اور گلہری اس سلسلے میں حد سے بڑھ کر بدنام بھی ہیں ع
فکرِ ہر کس بقدرِ ہمتِ اُوست
اور‘ ہوا کیا تھی‘ ایک جشن برپا تھا۔ ذرا تھمی تو دیکھا کہ جو پورے بانس کے سہارے کھڑے کئے گئے تھے‘ وہ بانس سمیت حالتِ رکوع میں ہیں۔ انہیں درست کروایا۔ چھوٹے گیٹ کا ایک گلوب ٹوٹ چکا تھا اور ایک پیڑ زمین بوس۔ اسے دوبارہ کھڑا کیا گیا۔ پرندوں کی آمد بھی شروع ہو گئی۔ بعض پرندے اڑتے اڑتے پر مارنا بند کر دیتے ہیں اور اسی روز میں گویا تیرنے چلے جاتے ہیں۔ یہ ایک سٹائل بھی ہو سکتا ہے اور یہ بھی کہ وہ اس طرح پروں کو ایک ریسٹ دلوا رہے ہوتے ہوں۔ اب ان کے ناشتے کا وقت بھی ہو چکا تھا اس لیے پودوں میں گھس کر اور گھاس پر اتر کر ادھر ادھر ٹھونگیں مارنے لگ گئے۔ کم و بیش سبھی پرندے زمین سے اپنا رزق تلاش کرتے ہیں ماسوائے کوِّے اور چیل کے۔ یہ زمین کو زیادہ لفٹ نہیں کراتے۔ کوّا تو چھینا جھپٹی سے گزارہ کر لیتا ہے جبکہ چیل مردار کی جستجو میں رہتی ہے۔ جویندہ یابندہ۔
چرندوں اور درندوں کی دنیا الگ ہے البتہ کُتا اپنی درویشی میں رہتا ہے‘ اسے کچھ ڈال دو تو فبہا‘ ورنہ فاقہ مستی شعار کرتا ہے یعنی صابر اور شاکر۔
اوّل تو پھولوں کا موسم ہی نہیں ہے‘ تاہم ہوا سے کچھ پھول بھی جھڑے ہیں۔ اکثر پودے تو موسم کی مجبوری سے پھولوں سے محروم ہو جاتے ہیں لیکن کچھ پودے ایسے ہیں جو یہ کمی پوری کر رہے ہوتے ہیں۔ ہوا کی تندی اور تیزی کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ دیہاتی علاقہ ہے اور اس کے لیے کوئی روک ٹوک بھی نہیں ہے‘ ورنہ شہروں میں ہوا کو ایسی خرمستیوں کا موقع نہیں ملتا کہ بڑے بڑے مکان اور پلازے اسے اوقات میں رکھنے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔
کالم کی چُھٹی اس لیے بھی ہے کہ عید کی تیّاری بھی کرنی ہے۔ تیاری کیا کرنی ہے کہ اس عمر میں نئے کپڑے پہنتے ویسے ہی شرم آتی ہے یعنی بوڑھی گھوڑی لال لگام۔ سو‘ ہماری تیاری یہی ہے کہ بچوں کو عید کی تیاری کرتے دیکھنا بھی ایک مسرت آمیز مصروفیت سے کم نہیں ہے۔ نیز جس دن کالم نہ چھپے‘ فون آنا شروع ہو جاتے ہیں‘ مجھے بھی اور دفتر میں بھی‘ تھوڑی فکرمندی بھی ہوتی ہو گی کہ بوڑھا اور بیمار شمار آدمی ہے‘ کہیں پار ہی نہ بول گیا ہو‘ حالانکہ اگر یہ نیکی بدی ہو بھی جائے تو زیادہ امکان یہی ہے کہ جگہ جگہ سے صدا اٹھے کہ خس کم‘ جہاں پاک۔ البتہ اگر کالم کا ناغہ ایک دن سے زیادہ کا ہو جائے تو پھر سمجھ لیا جائے کہ خاکسار واقعی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا ہے‘ یعنی ع
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد ہوں
اور، اب واقعی خانہ پری کے لیے یہ تازہ غزل:
ہمارے حق میں محبّت نہ کیوں روا ہوتی
یہ جُرم اور بھی کرتے اگر سزا ہوتی
ہے دلفریب یہ دُنیا کسی کے ہونے سے
میں چاہتا ہوں یہ کچھ اور خوشنما ہوتی
پھر اس کے بعد بھی رہتی وہ آس پاس مرے
اک آرزو جو میری قید سے رہا ہوتی
رہی ہے اتنی وسائل کی ہی کمی‘ ورنہ
پتنگ ہم بھی اُڑاتے اگر ہوا ہوتی
کوئی گلی ہے جہاں خاص تھا مرا ہونا
وہاں جو میں نہیں ہوتا‘ مری صدا ہوتی
کہ وار ہم کبھی چُھپ کر نہیں کیا کرتے
چڑھائی خود پہ بھی کرتے تو برملا ہوتی
اسی طرح سے ترستے اڑان بھرنے کو
اگر نصیب کوئی اور بھی فضا ہوتی
اگر یہ دربدری ہے تو ایک شہر ہی کیوں
اگر یہ نقش گری ہے تو جابجا ہوتی
لرز رہا تھا ستارہ بھی میرے ساتھ ‘ ظفر
شبِ جدائی کی تصویر اور کیا ہوتی
آج کا مطلع
تنہائی آئے گی‘ شبِ رُسوائی آئے گی
گھر ہے تواِس میں زینت و زیبائی آئے گی