تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     03-07-2016

زنگ آلود پیتل!

بہت سی روایتیں اور پیشے وقت کے ساتھ معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ اب خال خال ہی ان کا ذکر ہوتا ہے۔ ''بھانڈے قلعی کرا لو‘‘ ایک آواز تھی جو گلی محلوں میں قلعی گر لگایا کرتے تھے۔ برتنوںکو قلعی کروانے کی صرف ایک یاد ہے جو اب بھی اوائل بچپن کی بہت ساری یادوں کے ساتھ جگمگا رہی ہے۔ مجھے یاد ہے، جب ہم خان پور میں رہا کرتے تھے، ایک دفعہ امی جان نے کانسی اور پیتل کے برتن قلعی کرائے تو یہ اندر سے ایسے جگمگا اٹھے گویا سفید چاندی میں ڈھلے ہوں۔ میرا ننھا ذہن یہ سوچتا تھا کہ آخر قلعی گر نے کون سا جادوکیا ہے کہ سارے برتن اندر سے چاندی کے ہو گئے ہیں۔
جیسے ہی رمضان المبارک کا مہینہ آتا ہے تو مجھے نہ جانے کیوں قلعی گر کا ہنر یاد آ جاتا ہے۔ اجلے برتنوں کی یاد سے تازہ ہو جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے رمضان المبارک بھی ایک قلعی گر کی طرح ہمارے نفس کو اندر سے اجلا بنانے کے لیے آتا ہے۔ یہ مہینہ ہماری سوچ اور ہمارے نظریات پر جمی کائی اتار کر انہیں صاف ستھرا کرنے اور جگمگانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ خیال آج اس لیے آیا کہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ بھی اب اختتام پذیر ہونے کو ہے۔ آج 27واں روزہ ہے۔کل 27 ویں شب تھی جس کے شب قدر ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ سوچتی ہوں ہم گناہگاروں کی جھولی میں روزوںکی کمائی میںکیا آیا ہوگا۔ صرف بھوک پیاس یا ہمارے نفس 
کی بھی کچھ صفائی ستھرائی ہوئی ہو گی!
رمضان المبارک میں معمولات بدل جاتے ہیں۔ نمازکی طرف کم کم مائل ہونے والے بھی پوری نمازیں ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو پہلے سے ہی نمازی ہیں، ان کی عبادات میں خضوع خشوع بڑھ جاتا ہے۔ مسجدیں آباد ہو جاتی ہیں۔ لوگ اس مہینے میں غریبوں کے بارے میں بھی سوچتے ہیں اور کچھ صدقہ خیرات کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زکوٰۃ کے لیے بھی عموماً لوگ رمضان کا انتظار کرتے ہیں۔ اس مہینے میں ایک نیکی کا ثواب سترگنا ہو جاتا ہے۔ سحری افطاری، طاق راتوں کی عبادت، خصوصی نوافل و اذکار۔۔۔۔ غرض پورا ماحول خوب صورت پاکیزگی میں دھلا نظر آتا ہے۔ مگر اس مہینے کے اختتام کے بعد ہم میں سے بیشتر اس روحانیت اور پاکیزگی کا چولا اتار پھینکتے ہیں۔ پھر سے پہلے والی ڈگر پر رواںدواں ہو جاتے ہیں۔ رمضان المبارک کے پاس تو برکتوں اور رحمتوں کے خزینے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم اس سے کیا حاصل کرتے ہیں؟ یہ سوال بھی کہ آیا اسلام میں معاملات عبادات سے الگ ہیں؟ ایک جانب مسجدیں اتنی آباد ہوتی ہیں کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی اور دوسری جانب اسی ماہ مبارک میں مہنگائی اور ناجائز منافع خوری عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ پاکستان میں عبادت گزار مسلمان بھی اس ماہ مبارک کو کمائی کا سیزن کہہ کر ہر طرح کی منافع خوری کو اپنے لیے جائز سمجھتے ہیں۔ جوں جوں عید قریب آتی ہے، عیدیاں وصول کرنے کا سلسلہ بھی شدت پکڑنے لگتا ہے۔ رمضان شروع ہوتے ہی ٹی وی چینلز پر کھیل تماشے کا ایک بے ہنگم سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ آج بھی (بروز ہفتہ) نذیر ناجی صاحب نے اپنے کالم سویرے سویرے میں ایسے ہی گیم شوزکا تذکرہ کیا ہے جو خصوصی طور پر اسی مبارک مہینہ میں سجائے جاتے ہیں۔ پوری دنیا دیکھتی ہے کہ پاکستانی ایک معمولی سا انعام پانے کی خاطر کیا کیا حرکتیں کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اس میں بچوں‘ نوجوانوں‘ عورتوں اور بزرگوں کی کوئی تمیز نہیں۔ ڈاکٹر مبارک علی کے الفاظ یہاں دہرائے جانے کے قابل ہیں کہ ''زوال پذیر معاشرے میں اخلاقیات ختم ہونے سے انسانی فطرت بدل جاتی ہے۔ ہمارا معاشرہ اخلاقی طور پر انحطاط پذیر ہے‘‘۔
سوال یہ ہے کہ بظاہر تو سارا معاشرہ رمضان المبارک میں عبادات میں مشغول دکھائی دیتا ہے، پھر اس کا اثر کیوں نہیں ہوتا؟ ہم اندر سے ویسے کے ویسے مٹیالے اور زنگ آلود کیوں رہ جاتے ہیں، قلعی گر کے ہاتھ ہمیں اندر سے اجلا کیوں نہیں بناتے؟ اس کا جواب کھوجتے ہوئے یہی سوچ ذہن میں آئی کہ شاید ہم عبادت کی روح کو سمجھے بغیر اسے ایک رواج اور رسم کے طور پر ادا کرتے ہیں۔ دنیا ٹی وی کا پروگرام روح رمضان جو انیق احمد کرتے ہیں وہ بہت اچھا ہے، ایسے ہی پروگرام دوسرے چینلز پر بھی ہونے چاہئیں تاکہ ہمیں غور و فکر کا موقع ملے۔ ہمیں یہ سمجھنے کا موقع ملے کہ آخر اس مہینے کا مقصد کیا ہے۔ روزہ جسم کی زکوٰۃ ہے تو اس ریاضت سے ہمیں کیا حاصل کرنا ہے اور وہ کیا ہے جسے ہم حاصل کرنے سے محروم رہ گئے تو پھر ہمارے روزے صرف بھوک پیاس سے زیادہ کچھ نہیں ہوںگے۔
ہم بچپن سے سنتے آئے ہیںکہ روزہ انسان کو صبر سکھاتا ہے مگر یہاں تو روزوں میں صبر اور ٹھہرائو کہیں رخصت ہو جاتا ہے اور ایک بے ہنگم سی افراتفری اور بے صبری کا سا ماحول بن جاتا ہے۔ یہ بے ترتیبی اور بے ہنگم پن حکومتی معاملات سے لے کر عام آدمی کی زندگی تک نظر آتا ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال ہے، مسلمان ملک انڈونیشیا میں شعبان کے مہینے میں قیمتیں آدھی کر دی جاتی ہیں۔ غریب بھی ماہ رمضان اور عیدالفطر کے لئے جی بھر کے شاپنگ کرتے ہیں اور رمضان المبارک سکون کے ساتھ عبادت میں گزارتے ہیں۔ ہمارے ہاں حکومتیں دعووں اور وعدوں پر گزارا کرتی ہیں۔ آج ہی روز نامہ دنیا میں خبر ہے کہ بیشتر یوٹیلٹی سٹورز پر انتہائی ناقص سامان رمضان پیکیج کے نام پر بیچا جا رہا ہے۔ بہترکوالٹی کا سامان ملی بھگت سے مہنگے داموں عام دکاندار کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔ باقی جو کچھ بچا ہے گاہک اسے خریدنے سے انکاری ہیں۔ چند یوٹیلٹی سٹورز کے باہر تو گاہکوں نے اس صورت حال پر احتجاج بھی کیا ہے۔
دو دن اور ہیں، رمضان المبارک رخصت ہو جائے گا مگر سوچیے ضرورکہ رمضان جو صبر اور ایثار کا مہینہ ہے، ہمارے ہاں اس ماہ میں اس قدر مفاد پرستی اور افراتفری کیوں بڑھ جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری بے روح عبادتیں ہمارے معاملات کو درست نہیںکرتیں۔ ہمارے نفس پر جھوٹ، بددیانتی اور ریاکاری کی کائی ویسے کی ویسے جمی رہ جاتی ہے۔ قلعی گر آکر رخصت ہو جاتا ہے مگر ہمارا پیتل زنگ آلود ہی رہتا ہے۔ سوچیے، یہ اجلا کیوں نہیں ہوپاتا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved