تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     04-07-2016

وہ کالم جو لکھّا نہ جا سکا

ایک گرامی قدر استاد یاد آئے ۔ ایک سوال ان سے پوچھاگیا۔ کچھ دیر سوچتے رہے ۔ پھر فرمایاI dont know but keep on asking. Some questions are nobler then the answers. اپنا سوال پوچھتے رہنا۔ کچھ سوال جوابوں سے بھی زیادہ اہم ، زیادہ مقدس ہوتے ہیں ۔ 
چوہدری قدرت اللہ سے میں نے یہ عرض کیا : لکھنے والااگر چاہے تو ایک کالم پچیس تیس منٹ میں لکھ سکتاہے ۔ حیرت سے انہوں نے مجھے دیکھا اور کہا : اسی وقت اگر آپ لکھ دیں تو میں آج کے اخبار میں چھاپ دوں گا۔ رات کے بارہ بجے تھے اوریہ دونوں کام تقریباً ناممکن تھے۔ 
یہ 1993ء تھا ۔ منتخب وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کو صدر غلام اسحٰق خان برطرف کر چکے تھے ۔ سردار بلخ شیر خان مزاری نگران وزیرِ اعظم اور مولانا کوثر نیازی وزیرِ اطلاعات تھے ۔ خلیل ملک مرحوم سے بات کرتے ہوئے مولاناکوثر نیازی روپڑے :اپنی آخرت سنوارنے کے سوا اب میں کچھ نہیں چاہتا ۔ میجر عامر اس خیال کو قبول کرنے پر آمادہ تھے ۔ ناچیز کی رائے مختلف تھی ۔وزیرِ اعظم کے ساتھ ایک طویل ملاقات میں کھل کر بیان کر دی تھی ۔ وزیرِ اطلاعات کے فرائض انجام دینے کی بجائے ، میانوالی میں وہ اپنا حلقہ ء انتخاب تراشنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ درپردہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر ۔ میرے خیال میں یہ برادرانِ یوسف کے آنسو تھے ، جب اپنے بھائی کو کنویں میں ڈال کر وہ اپنے جلیل القدر باپ کے پاس ماتم گسار آئے تھے ۔ 
میں ہکّا بکا رہ گیا ۔نگران وزیرِ اعظم نے پیشکش کی کہ حسین حقانی نام کے ایک دانشور کے ساتھ مل کر ، میں وزارتِ اطلاعات کا کاروبار سنبھال لوں ۔ ''اگر کوئی دشواری پیش آئے تووہ فوراً اسے نمٹا دیں گے ۔ حسین حقانی کمرے کے باہر تشریف فرما تھے اور ان کا مسئلہ یہ تھا کہ کچھ مالی اختیارات مل جائیں ۔ وزیرِ اعظم سے میں نے التجا کی اور اس پر اصرار بھی ۔کوئی جواب مجھ سے نہ بن پڑا۔ وزیرِ اعظم کے سگے بھائی سردار شیر باز خان مزاری کا میں بے حد مداح تھا مگر خود وہ مجھے پسند نہ آئے ۔ شاید اس لیے کہ انہوں نے مجھے سگریٹ پینے سے روک دیا (اگرچہ اصرار کے ساتھ بعد ازاں ظہرانے میں شریک کیا۔ ) 
میں یہ کہانی آپ کو کیوں سنا رہا ہوں ؟ اس لیے کہ پانچ ہفتے قبل ، ایک کالم لکھنے کا ارادہ کیا تھا اور اب تک لکھ نہیں سکا۔ 
رمضان المبارک سے ایک ہفتہ قبل جنگلوں میں سے گزرتے، ندیوں کو دیکھتے اور دریائے جہلم کے کنارے پر گزرے زمانوں کی بازگشت سنتے ، ہم مظفر آباد پہنچے ۔ ایک منفرد ادارے ریڈ فائونڈیشن کے سیاق و سباق کا ادراک کرنے کے لیے ۔ 
آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان اور اسلام آباد میں اس ادارے کے 344سکول اور کالج ہیں ۔ آزاد جموں و کشمیر تعلیمی بورڈ کی بیس اعلیٰ پوزیشنیں حاصل کرنے والوں میں دس طلبہ کا تعلق فائونڈیشن سے ہوتاہے ۔ اس کے باوجود کہ فیس برائے نام ہے ، بالکل ہی برائے نام۔ ہر کہیں مقامی آبادی کے حالات ملحوظ رکھتے ہوئے..... یتیم بچوں کے لیے توبالکل مفت۔
آزاد کشمیر کے طول و عرض سے درخواستیں موصول ہوتی رہتی ہیں کہ ایک سکول وہاں بھی کھول دیا جائے۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا خود ان کے افسر رابطہ انعام صاحب سے میں التجا کرتا رہا کہ ازراہِ کرم میڈیا ٹائون اسلام آباد کے جوار پر وہ عنایت فرمائیں ۔ اپنے پوتے پوتیوں کی پڑھائی کے سلسلے میں گاہے میں آزردہ ہو جاتا ہوں ۔ 13000روپے فی کس فیس ادا کی جاتی ہے ۔ اس کے عوض اب تک وہ فقط یہ سیکھ پائے ہیں کہ ''کتے ‘‘ کو کتا نہیں ،Dogiکہنا چاہئیے ۔ گائے دراصل گائے نہیں ، Cowہوتی ہے ۔ گائے کہنا گنوار پن کا مظاہرہ ہے ۔ ملک بھر میں خیرہ کن حد تک بارعب اس ادارے کے ہزاروں سکول ہیں ۔ اس کے منتظمین اور مالکان سے بات کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ ذاتی تعلق عشروں سے چلا آتاہے ۔ اس کے باوجود یہ جسارت یہ ناچیز کبھی نہ کر سکا ۔ اس لیے کہ کسی کے کاروبار میں دخل نہ دینا چاہئیے ۔ جب کوئی کسی چیز سے محبت اور اس پر فخر کرتا ہو تو ہرگز اسے نہ ٹوکنا چاہئیے ۔خواہ پرلے درجے کی حماقت ہی میں مبتلا کیوں نہ ہو۔ 
1994ء میں ، آزاد کشمیر کے ضلع باغ میں محمد احمد نامی ایک صاحب نے سکول کی ملازمت سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر ریڈ فائونڈیشن کی بنیاد رکھی تھی ۔ اب اس قابلِ فخر ادارے کے سربراہ وہ صاحب ہیں ، جو کبھی ایک کلاس روم میں بچوں کو پڑھایا کرتے تھے ۔ حیران کن باتیں اور بھی ہیں ۔ مثلاً اس کی 150خواتین اساتذہ نے وہ تربیتی کورس مکمل کیا، برطانیہ میں پرائمری سکول کے اساتذہ کو جو پاس کرنا ہوتاہے ۔ وہاں کم از کم بیس ہزار ڈالر اس پر اٹھتے ہیں ۔ صرف یہی نہیں ، بہت عزم، بڑی ہی ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ میں یہ بات اس لیے جانتا ہوں کہ 10ہزار ڈالر دو سال قبل اپنی نورِ نظر کو میں نے بھجوائے تھے لیکن وہ ابھی تک آغاز نہیں کر سکی ، فرصت ملے ، یکسوئی نصیب ہو تو ابتدا کی جائے۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات وہ ہے ، پندرہ بیس برس سے جو میں جانتا ہوں ، معمولی تنخواہوں کے باوجودریڈ فائونڈیشن کے اکثر اساتذہ اس سے جڑے رہتے ہیں ۔ ملازمت کی بہترین پیشکشیں بعض اوقات وہ مسترد کر دیتے ہیں ۔ 
شب مظفر آباد کے پنج ستارہ ہوٹل میں قیام کیا۔سحر، رفعت سے دریا اور جنگل کا منظرایسا کہ جوش ؔملیح آبادی یاد آئے ؎
ہم ایسے اہلِ نظر کو قبولِ حق کے لیے 
رسول اگر نہ ہوتے تو صبح کافی تھی 
مظفر آباد میں ریڈ فائونڈیشن کے ایک سکول میں بہت سا وقت صرف کیا۔ تعلیم ہی نہیں ، جو حسنِ تعمیر کاایک نمونہ بھی ہے ۔ Leonardo da Vinciکے اس قول کی یاد دلاتا ہوا Simplicity is the ultimate sophistication۔ عظمت و کمالِ فن کا حتمی اظہار سادگی میں ہوا کرتا ہے ۔ 
دوپہر کا کھانا ، شہر سے بیس کلومیٹر ادھر دریائے نیلم کے جھاگ اڑاتے پانیوں کے کنارے ایک ریستوران میں کھایا گیا ،جس کی یاد مدتوں باقی رہے گی۔ راجہ صاحب سے اتفاقاً وہیں ملاقات ہوئی ۔ عہدِ قدیم کے شرفا کی ایک مثال ، جنہیں میں قائل نہ کر سکا کہ پہاڑ کی ترائیوں پر اپنی زمین کو خودرو جھاڑیوں کی نذر کرنے کی بجائے ، اس پر وہ انگور کی بیلیں گاڑ دیں ۔ چار لاکھ روپے فی ایکڑ سالانہ آمدن جس سے ممکن ہے ۔ 
اس خیال سے کہ کالم شایانِ شان ہو، انعام صاحب سے میں نے نوٹس لکھنے کو کہا۔ انہوں نے لکھ دئیے ۔ خود تفصیل سے میں نے بھی بنائے ۔ چند روز بعد ایک طویل ملاقات میں ان سے تبادلہ ء خیال کیا اور ادارے کی ایک ممتاز شخصیت سے بھی ۔ اس کے باوجود تیرہ چودہ سو الفاظ کی ایک مختصر سی عبارت کیوں نہ لکھی جا سکی؟
پنج ستارہ ہوٹل میں قیام اور سفر کے اخراجات ازراہِ احتیاط میں نے خود ادا کر دئیے ۔ کسی فلاحی ادارے کے بل پر ایسا تعیش تویتیم کا نوالہ چھین کھانے کے مترادف ہوتا۔ 
1992ء کی اس شب چوہدری قدرت اللہ کے دوستانہ چیلنج پر بارہ منٹ میں کالم لکھ دیا تھا ، جی ہاں بارہ منٹ میں ۔ ازراہِ کرم انہوں نے چھاپ بھی دیا تھا۔ پانچ ہفتے گزر جانے کے باوجود ریڈفائونڈیشن پر کالم کیوں نہ لکھا جا سکا اور اب اس کی تلافی کیسے ہوگی ؟ شاید ایک طویل فیچر مگر لکھا کیوں نہ جا سکا؟ بھاری فیسیں وصول کرنے والے جو تعلیمی ادارے معاشرے کا سماجی پیرہن اور ہماری آئندہ نسلوں کا مستقبل برباد کر رہے ہیں ۔ وہ پھلتے پھولتے رہیں ۔ ریڈ فائونڈیشن ، غزالی فائونڈیشن اور تعمیرِ ملت فائونڈیشن ایسے ادارے طاقِ نسیاں پہ دھرے رہیں ؟ آخر کیوں ؟آخر کیوں؟
ادھیڑ بن میں سارا دن گزار دیا ہے ۔ آخر شام روا روی میں یہ سطور گھسیٹ دی ہیں ۔ ریڈ فائونڈیشن کا قرض میرے سرپہ ہے اور اس سوال کا بھی ۔ 
ایک گرامی قدر استاد یاد آئے ۔ ایک سوال ان سے پوچھاگیا۔ کچھ دیر سوچتے رہے ۔ پھر فرمایاI dont know but keep on asking. Some questions are nobler then the answers. اپنا سوال پوچھتے رہنا۔ کچھ سوال جوابوں سے بھی زیادہ اہم ، زیادہ مقدس ہوتے ہیں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved