بہت کچھ ہوچکا ہے اور بہت کچھ ایسا ہے جو ہونے کی تیاری کر رہا ہے مگر راستے میں عید کھڑی ہے۔ سبھی منتظر ہیں کہ عید گزر جائے تو معاملات کو آگے بڑھایا جائے۔ وزیر اعظم ایک ماہ سے بھی زائد مدت سے لندن میں ہیں۔ کھلے دل کی جراحت کے بعد وہ آرام فرما رہے ہیں۔ اور ڈاکٹرز بھی ایسے فرماں بردار ہیں کہ انہیں کہیں جانے کی اجازت نہیں دے رہے۔ پہلے کہا جارہا تھا کہ میاں صاحب رمضان المبارک کے آخری ایام میں وطن آئیں گے۔ پھر کہا گیا کہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ وہ سعودی عرب میں گزاریں گے۔ اور اب یہ ''مژدۂ جاں فزا‘‘ اہل وطن کی سماعتوں کی نذر کیا گیا ہے کہ میاں صاحب عید کے بعد وطن آئیں گے۔ اور یہ آمد بھی مشروط ہے یعنی ڈاکٹرز نے اجازت دی تو۔ اب بھلا ڈاکٹرز میں اتنا دم خم کہاں کہ ایک وزیر اعظم نہ جانا چاہیں اور وہ انہیں جانے دیں!
اِدھر عمران خان اور شیخ رشید بھی تیار بیٹھے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی انٹری دے دی ہے۔ ان کی انٹری اس بات زیادہ جاندار اس لیے ثابت نہیں ہوسکی کہ میاں صاحب لندن میں ہسپتال کا بستر پکڑے ہوئے تھے۔ ان کی غیر موجودگی میں زیادہ دھما چوکڑی مچانے سے لوگ ان کے بارے میں (مزید) غلط رائے قائم کرتے۔ ہاں، میاں صاحب وطن میں ہوتے اور ان کی صحت بھی (حسبِِ معمول) قابل رشک ہوتی تو اور بات تھی۔ تب احتجاجی میلہ سجانے کا مزا آجاتا۔ اب طاہرالقادری بھی عمران خان اور شیخ رشید کے ساتھ مل کر اس بات کے منتظر ہیں کہ میاں صاحب آئیں تو سیاسی سرکس کا باضابطہ آغاز کیا جائے۔
اب کے ماہِ صیام کے دوران چند دوسرے المناک واقعات کے ساتھ ساتھ امجد صابری کے قتل جیسا واقعہ بھی رونما ہوا ہے جس نے بہتوں کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کردیا۔ امجد صابری فنکار تو خیر تھے سو تھے، انسان بہت بڑے تھے۔ بہت چھوٹی عمر میں انہوں نے نام بھی کمایا اور سُر بکھیر کر مال بھی کمایا۔ اور ساتھ ہی ساتھ اپنی کمائی کو اللہ کی راہ میں بھی یُوں لگایا کہ بہت سے تو صرف دیکھتے رہ گئے۔ اللہ نے اُنہیں عظیم جُثّہ ہی نہیں، عظیم دل بھی عطا فرمایا تھا۔ قوم کو ایسے افراد کی ضرورت ہے جن کے دل بڑے اور ذہن وسیع ہوں۔ یہ انسان دوستی کا وصفِ عظیم ہی تھا جس نے امجد صابری کی شہادت پر لوگوں کے دلوں کو پگھلاکر آنکھوں کے راستے بہادیا۔
امجد صابری کے قتل کی تحقیقات جاری ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ معاملہ بھی عید پر اٹھادیا گیا ہے۔ اس ٹارگٹ کلنگ پر تجزیوں کا ایسا بازار گرم کیا گیا ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ لوگ کہاں کی بات کو کہاں فِٹ کرکے دم لیتے ہیں۔ کراچی میں ڈیڑھ دو ماہ کے دوران ٹارگٹ کلنگ کے متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے صاحبزادے بیرسٹر اویس شاہ کو بھی اغوا کیا گیا ہے۔ امجد صابری کے قتل کے بعد زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنے جذبات کا اظہار کیا اور اس قتل کی بھرپور مذمت کی۔ حکومت کا ریسپانس بھی خاصا ہائی پروفائل رہا۔ مگر ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس ایک قتل کو بنیاد بناکر بعض فنکار یہ تاثر کیوں دے رہے ہیں کہ کراچی ایک بار پھر ٹارگٹ کِلرز کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔ فخرِ عالم اور دوسرے بہت سے فنکاروں نے کلفٹن کے درخشاں پولیس اسٹیشن میں جمع ہوکر سکیورٹی دیئے جانے کا مطالبہ کیا۔ کراچی کم و بیش ڈھائی کروڑ نفوس کا حامل، جیتا جاگتا شہر ہے۔ چند ٹارگٹ کلنگز کی بنیاد پر شہر کو نو گو ایریا کے سے ماحول کا حامل قرار دینا سفّاکی اور تنگ نظری ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سکیورٹی کا مطالبہ وہ فنکار کر رہے ہیں جو اپنے ذاتی خرچ پر بہترین سکیورٹی رکھتے ہیں۔ ویسے بھی یہ فنکار ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں عوام اور جرائم پیشہ افراد دونوں کا گزر نہیں ہوتا! ایسے میں اُن کی طرف سے سکیورٹی کا مطالبہ بظاہر کسی جواز کے بغیر ریاستی عملداری پر سوالیہ نشان لگانے کے مترادف ہے۔
تین چار دن قبل کراچی کے ایک علاقے میں اداکار و گلوکار ندیم جعفری سے مسلح افراد نے لُوٹ مار کی۔ میڈیا نے اس واقعے کو قاتلانہ حملے کا رنگ دے کر شور مچانے اور سکیورٹی سیٹ اپ کو لتاڑنے کی کوشش کی۔ ذرا سی بات ایسی بڑھی کہ وزیر اعلیٰ نے اِس معمولی سی واردات کے بارے میں آئی جی پولیس سے رپورٹ طلب کرلی! جو لوگ نہیں جانتے وہ جان لیں کہ اِس فن کو محاورے کی زبان میں رائی سے پربت بنانا بھی کہتے ہیں!
بات ہو رہی تھی ملک کی سب سے معروف سیاسی ''تِکون‘‘ یعنی عمران خان، شیخ رشید اور طاہرالقادری کی۔ ان تینوں کے لیے تِکون کا لفظ بالکل موزوں ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک نے اپنا کونا پکڑ رکھا ہے اور وہاں سے ہٹنے کو تیار ہیں۔ کہنے کو یہ تینوں ایک ہیں مگر ان میں سے ہر ایک کو یہ فکر لاحق ہے کہ کونا چھوڑنے سے کہیں زاویہ تبدیل نہ ہوجائے اور کسی اور کا کونا شاندار نہ ہوجائے۔ اب تک اِس تِکون نے جو کچھ کیا ہے اُسے ''آرڈر پر مال کی تیاری‘‘ کے سِوا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ شیخ رشید کا کچھ زیادہ داؤ پر نہیں لگا ہوا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا کیا ہے، بات نہ بنے تو وہ کینیڈا جاکر سال ڈیڑھ سال کے لیے پُرسکون ہو جاتے ہیں اور اِس دوران اگلے ''سیاسی دنگل‘‘ کی تیاری کرتے رہتے ہیں۔
داؤ پر اگر کچھ لگتا ہے تو عمران خان کا۔ سوچے سمجھے بغیر احتجاج کا میلہ سجاتے رہنے کی عادت نے تحریک انصاف کو ''صاف‘‘ کردیا ہے! عمران خان کی سیاسی مہم جُوئی نے پارٹی کو عجیب دو راہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اہلِ وطن بھی پریشان ہیں کہ آخر یہ پارٹی چاہتی کیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں گڈ گورننس کا فن دکھانے کا شاندار موقع عمران خان نے ایسی ''عمدگی‘‘ سے ضائع کیا ہے کہ لوگوں کو بے ساختہ داد دینا پڑی ہے!
حالات ہر بار خسارے کا پوٹلا عمران خان کے سَر پر دھر دیتے ہیں۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ یہ پوٹلا اٹھائے اٹھائے پھرنے کے سِوا خان صاحب کے پاس کوئی آپشن ہوتا بھی نہیں۔ اب وہ ایک بار پھر خسارے کا پوٹلا اٹھانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے احتساب کے نام پر وہ تحریک چلانا چاہتے ہیں۔ وہ عید کے بعد تحریک چلانے کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔ اس تحریک کی انہوں نے کتنی تیاری کی ہے، کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ انہوں نے تحریک کے روڈ میپ کے بارے میں کوئی اشارا بھی نہیں دیا۔ اگر وہ شیخ رشید اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو ساتھ ملائیں گے (جیسا کہ ہوتا ہی ہے) تو پھر یہ ہوگا کہ تِکون کے دو، بظاہر، non-existent زاویے مزے لُوٹ کر ایک طرف ہٹ جائیں گے اور واحد existent اور active زاویہ ساری گند بلا سمیٹا نظر آئے گا! کسی انتہائی خسیس آدمی کو اپنے کینسر ہسپتال کے لیے عطیہ دینے پر آمادہ کرنے میں عمران خان کو جس دردِ سَر کا سامنا ہوسکتا ہے اُس سے کہیں بڑا دردِ سَر ہے عمران خان سے یہ تسلیم کرانا کہ سیاسی جماعت کو چلانا کرکٹ ٹیم اور ہسپتال چلانے سے کہیں مختلف اور مشکل کام ہے اور یہ کہ یہ کام اُنہیں باضابطہ سیکھنے پر توجہ دینی چاہیے!
عید بھی گزرنے ہی کو ہے۔ دیکھتے ہیں اِس بات عمران خان کے تھیلے سے کون سی بِلّی باہر آتی ہے! اب تک تو یہ ہوا ہے کہ اُنہوں نے جس بِلّی کو بھی تھیلے سے نکالا ہے اُس نے اُنہی پر جھپٹّا مارا ہے!