تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     05-07-2016

کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑہ

پاکستان کے کم و بیش تمام اردو اور انگریزی اخبارات میں برطانوی صحافی جیمزبی کرکٹن (James B Creckton)کی ایک تحقیقی سٹوری نظر سے گزری تو میں نے سوچا پیر کا کالم بن گیا۔ سویلین لٹیروں کی طرح اب خاکی بدعنوانوں پر مشق سخن کا مزا آئے گا۔ برطانوی صحافی نے انکشاف کیا تھا کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف اور سابق آرمی چیف جنرل(ر) اشفاق پرویز کیانی کے سوئس بنکوں میں اکائونٹس ہیں جن میں کروڑوں ڈالر جمع ہیں۔ صحافی کے بقول انہیں یہ معلومات شریف فیملی کی آف شور کمپنیوں کے بارے میں تحقیقات کے دوران ملیں۔ میں نے بھارتی اخبار فنانشل ایکسپریس کی ویب سائٹ کھول کر اصل خبر پڑھی جس میں جیمز نے شریف خاندان کے بارے میں لکھا تھا:
"Sharif critics have not proved thus far that these assets have been acquired with ill gotten wealth."
یہ جملہ پڑھ کر دل باغ باغ ہو گیا کہ برطانوی صحافی نے جو ماشاء اللہ تحقیقی کام کا ماہر ہے شریف خاندان کو کلین چٹ دے دی ہے۔ ٹی او آرز کی ضرورت باقی نہ عدالت عظمیٰ سے تحقیقات کی حاجت۔ قوم ‘ اپوزیشن اور عدالت عظمیٰ کا وقت بچا۔ اب سب مل کر دو سابق پاکستانی آرمی چیفس پرویز مشرف اور اشفاق پرویز کیانی کی وارداتوں کا سراغ لگائیں کہ کس طرح لوٹ مار کر کے اپنے سوئس اکائونٹس بھرے۔ ضرورت پڑے تو میاں صاحب کے قریبی ساتھی سیف الرحمن کی خدمات ایک بار پھر حاصل کی جائیں کیونکہ سوئس اکائوٹس کھنگالنے میں وہ ماہر ہیں۔
مگر جس طرح کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا: ''میں نے اپنے رب کو ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا‘‘ ، میں پیر کے کالم کی تیاری کر رہا تھا کہ عماد بزدار کی وال پر مجاہد حسین کی ایک پوسٹ نظر سے گزری جس نے میری ساری محنت اکارت کر دی۔ مجاہد حسین نے لکھا: ''میرے شہر میں کئی سال پہلے آئس کریم کی دکان کھلی اور کافی مشہور ہو گئی۔ جب میں پہلی دفعہ دوستوں کے ساتھ وہاں گیا تو اس دکان کے اوپر جگمگاتے حروف میں لکھا تھا:''کراچی کی مشہور پشاوری آئس کریم اب ڈیرہ غازی خان میں بھی دستیاب‘‘۔ آج کل جنرل پرویز مشرف اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کے سوئس اکائونٹس کا شہر ہ ہے‘ سوشل میڈیا پر عجیب و غریب تبصرے ہو رہے ہیں۔ کہیں پاکستانی فوج کو گالیاں پڑ رہی ہیں تو کہیں عمران خان زد میں آیا ہوا ہے۔ میں نواز شریف کی سیاست کو دو دہائیوں سے دیکھتا آیا ہوں اور جانتا ہوں کہ ان کے پروپیگنڈے کی صلاحیت کس قدر غیر معمولی ہے‘ اس لیے میں نے اس خبر کی تھوڑی تحقیق کی تو انڈیا کے ایک اخبار نے ایک غیر معروف بلاگر Jemes B Crickton کے حوالے سے یہ خبر دی جس میں مشرف اور کیانی کے سوئس اکائونٹس دریافت کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ انڈیا کے اخبار میں ایک غیر معروف برطانوی شہری پاکستان کے بارے میں خبر دے رہا ہے‘ یہ تو کراچی کی مشہور پشاوری آئس کریم کی ڈیرہ غازی خان میں دستیابی والا مضحکہ خیز معاملہ ہو گیا‘‘۔
''یقین کریں ہمارا چھوٹا سا شہر ہے جس کے مضافاتی بستیوں کے صحافیوں کو بھی گوگل میں ڈھونڈھنے بیٹھیں تو ان کا ذکر کئی جگہوں پر مل جائے گا لیکن برطانیہ کے صحافی کے نام سے گوگل بے چارہ بے خبر ہے سوائے موجودہ خبر کے اس کا نام کوئی نہیں جانتا ‘پھر بھی ہمارا دانشور طبقہ چھاتی پیٹ پیٹ کر ماتم کر رہا ہے۔ مجھے تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ پاناما لیکس کو چھپانے کے لیے مصنوعی گرد اڑائی جا رہی ہے ‘تمام اخبارات میں بالالترام یہ خبر شائع ہوئی ہے‘‘۔
یہ پوسٹ پڑھ کر تجسس بڑھ گیا۔ میں نے پہلے Jemes B Cricktonکا اور چھور معلوم کرنے کی سعی کی حتیٰ کہ برطانوی صحافیوں کی ایک طویل فہرست پڑھ ڈالی‘ پھر اس خبر میں دیئے گئے ''World Press Platform‘‘کو سرچ کیا‘ ایک بار نہیں درجنوں بار اور پھر برطانوی اخبارات کو چھان مارا‘شائد کسی نے اپنے ملک کے ایک اہم صحافی کی سٹوری کو لیڈ سٹوری کے طور پر نہ سہی سنگل کالم میں شائع کیا ہو ‘مگر جب بھی میں یہ نام اور خبر کا عنوان کلک کرتا کبھی پاکستان کے کسی اردو اخبار میں شائع ہونے والی خبر سامنے آ جاتی کبھی انگریزی اخبار کی۔ حتیٰ کہ مجھے پہلی بار پاکستان ٹیلی گراف اور بلوچستان ایکسپریس کے نام کے انگریزی اخبارات کا پتا چل گیا مگر گارڈین‘ڈیلی میل‘ ڈیلی ٹیلیگراف اور دیگر اخبارات میں کچھ نہ ملا؛حالانکہ پامانا پیپرز کے حوالے سے جتنی خبریں مرچ مصالحہ لگا کر ان اخبارات نے شائع کیں اتنی پاکستان میں بھی شائع نہ ہوئیں۔
میں اسے اپنی کم علمی اور کم مائیگی ہی کہوں گا کہ ابھی تک مجھے جیمز بی کرکٹن کا کچھ پتا چل سکا نہ ورلڈ پریس پلیٹ فارم کا اور نہ تحقیقی صحافی کے سورس کا کہ آخر کس نے اسے ہمارے فوجی جرنیلوں کے اکائونٹ نمبر اور ان میں پڑی کل رقم سے آگاہ کیا۔ عام تاثر یہ ہے کہ سوئس بنک سخت راز داری سے کام لیتے ہیں اور کسی کو اپنے کھاتہ داروں کے اکائونٹس اور سرمائے کی ہوا نہیں لگنے دیتے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی کریڈٹ کارڈ سے قیمتی ہار خریدنے کی غلطی نہ کرتی تو چھ سو ملین ڈالر کی موجودگی کا سراغ کبھی نہ ملتا۔ سابق آرمی چیفس کے بیرون ملک اکائونٹس کا معاملہ کیا واقعی پاناما پیپرز اور شریف خاندان کی آف شور کمپنیوں سے توجہ ہٹانے کا حربہ ہے ؟یا فوج کو بدنام کرنے کی سازش؟اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ تاہم جیمز بی کرٹن نام کا کوئی صحافی اگر واقعی برطانیہ میں موجود نہیں اور یہ خبر خانہ ساز ہے تو اس شخص کو داد دینی چاہیے جس نے کراچی کی مشہور پشاوری آئس کریم ڈیرہ غازی میں بیچنے کی تدبیر کی اور انڈین ایکسپریس گروپ کے اخبار فنانشل ایکسپریس کو مہارت سے استعمال کیا۔ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑہ بھان متی نے کنبہ جوڑا۔رہا پاکستانی پریس تو اسے شریف خاندان 1980ء کے عشرے سے استعمال کر رہا ہے جب پاکستانی اخبارات بے نظیر بھٹو کو ''اذان بج رہاہے‘‘ کے الفاظ کا مرتکب قرار دے سکتے ہیں‘ جب حسین حقانی سی این این کی پاکستان میں رونمائی پر یہ شوشہ چھوڑ کر پاکستانی اخبارات میں من پسند تبصرے شائع کرا سکتے ہیں کہ یہ بنیادی طور پر کیبل نیٹ ورک ہے جو امریکہ میں فحش پروگرام نشر کرتا ہے اور پاکستان میں بھی سی این این کی نشریات اسی مقصد کے لیے شروع کی جا رہی ہیں اورپرویز مشرف کے دور میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ٹمبکٹو میں محلات‘ گھوڑوں کے اصطبل اور کروڑوں ڈالر کے بنک اکائونٹس کی ''ایکسکلوسو خبریں‘‘ فخر کے ساتھ شائع ہو سکتی ہیں تو آرمی جرنیلوں کے سوئس اکائونٹس کا انکشاف کیوں نہیں؟حسین حقانی نواز شریف کے کیمپ سے نکلے‘ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے حلقہ بگوش ہوئے اور اب امریکہ کو پیار ے ہو چکے مگر حقانی ٹیکنالوجی جہاں تھی وہیں رہی۔
ذاتی طور پر میں اس بات کے حق میں ہوں کہ جنرل (ر) پرویز مشرف اور جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کو اس خبر کی اشاعت کے بعد وضاحت کرنی چاہیے کیونکہ یہ صرف ان کی ذات کانہیں بلکہ پاک فوج کی ساکھ کا سوال ہے۔ اگر وہ خاموش رہتے ہیں تو ان دونوں کے مخالفین اور پاک فوج کے ناقدین کو پروپیگنڈا کرنے کا موقع ملے گا کہ دال میں کچھ کالا ہے یہ بولتے کیوں نہیں‘ اور مقدس گائیں احتساب سے بالاتر کیوں ہیں؟ یہ دونوں نہیں بولتے تو پھر بلا امتیاز احتساب کا نعرہ لگا کر فوج کے چھ افسروں کے خلاف کارروائی کرنے والے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو اس معاملے کی تحقیقات کرنی چاہیے وزارت خارجہ سوئس حکام کو خط لکھ کر ان اکائونٹس کی تفصیل پوچھ سکتی ہے اور اس خبر کا اور چھور بھی معلوم کرنا چاہیے کہ واقعی یہ درست ہے یا کرگل آپریشن کے موقع پر امریکی اخبارات میں شائع ہونے والے روگ آرمی کے اشتہارات کی طرح ایجاد بندہ؟ ضرب عضب کی کامیابی سے پاک آرمی کو اندرون و بیرون ملک مزید پذیرائی ملی اور اس کی پیشہ ورانہ اہلیت و صلاحیت کے علاوہ اخلاقی ساکھ میں اضافہ ہوا، یہ بات پاکستان میں کئی حلقوں کے لیے سوہان روح ہے اور پاناما پیپرز نے جن لوگوں کے چہروں اور کردار کو داغدار کیا ہے ان کے سینوں پر سانپ لوٹ رہے ہیں لہٰذا پاک آرمی کی سابقہ اور موجودہ قیادت کو اپنے افعال و کردار کے حوالے سے اخلاقی برتری کے اساسی اصول پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے تاکہ جنرل راحیل شریف نے بلا امتیاز احتساب کا جو نعرہ بلند کیا اور قوم جس پر صدق دل سے عملدرآمد کی خواہاں ہے وہ عملی صورت اختیار کر سکے۔ پاناما پیپرز کے مجرم سوئس اکائونٹس کی آڑ میں فرار نہ ہونے پائیں۔جیمز بی کرکٹن کو اب برطانیہ سے باہر تلاش کرنا پڑے گا۔ ممکن ہے یہ کسی شاہ کے مصاحبوں میں ملے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved