تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     05-07-2016

فیصلہ

انسانی ذہن غیر معمولی طور پر عقل مند نہ ہوتا، اگر ہم دوسرے جانوروں جیسے ایک جانور ہوتے تو ؟ یہ سوچ کر ہی آدمی کپکپا اٹھتاہے ۔ انسان کمزور ہے ، اپنا دفاع کرنے کے قابل نہیں ۔ہمارے دانت نوکیلے نہیں ،ہموارہیں ۔ ان کی ساخت ایسی نہیں کہ یہ چیر پھاڑ میں استعمال ہو سکیں ۔ ناخن ہمارے کمزور ہیں ، ذرا سا بڑھنے پر ٹوٹنے لگتے ہیں ۔ زیادہ تیز ہم بھاگ نہیں سکتے۔ شیر چیتوں جیسی چھلانگ نہیں لگا سکتے ۔ سینگ ہمارے پاس ہیں نہیں ۔ جسمانی قوت میں ریچھ اور بن مانس جیسے جانوروں کے ہم قریب بھی نہیں ۔ شکاری جانور زیادہ تر سونگھنے کی حس پہ منحصر ہوتے ہیں ۔آنکھیں صرف شکار کی موجودگی سے آگاہ کرتی ہیں ۔شیرکی آنکھیں پرانے ٹی وی کی طرح ہر چیز کو صرف سیاہ اور سفید رنگوں میں دیکھتی ہیں ۔ اگر زیادہ زیبرے ایک ساتھ بھاگ رہے ہوں تو اسے سمجھ ہی نہیں کہ آتی کہ کون سا زیبرا کہاں سے شروع اور کہاں ختم ہو رہا ہے ۔ ہم انسانوں میں آنکھیں ایسی ہیں کہ دنیا کو یہ اس کی تمام رنگینیوںکے ساتھ دکھاتی ہیں ۔ہمارے دماغ کا وہ حصہ جو دیکھنے سے متعلق ہے ، بہتر اور وسیع ہے لیکن اس کے بدلے ہمارے سونگنے کی حس نہایت کمزور ہے ۔ شکاری جانوروں کے برعکس انسان رات کو دیکھ نہیں سکتا۔ ان تمام چیزوں کے ہوتے ہوئے ، جنگلوں میں عقل سے محروم انسان اپنا دفاع کرنے کے قابل نہ ہوتا۔
زن ، زر اور زمین ہمیشہ سے فساد کا باعث ہیں ، یہ آپ نے سنا ہوگا۔ جانوروں میں سال کے ایک مختصر سے حصے میں نر اور مادہ کی یہ محبت بیدار ہوتی ہے ۔ اکثر نروں میں تب مادہ کے حصول کی خاطر لڑائی ہوتی ہے ۔ خوبصورت خواتین کی خاطر انسانی تاریخ میں کیسی ہولناک جنگیں ہو چکی ہیں ، یہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں ۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ انسانوں میں نر او رمادہ کا یہ ملاپ کسی ایک موسم تک محدود نہیں ہوتا ۔ یہ جنگیں سارا سال جاری رہتیں اگرقانون نافذ کرنے والے اداروں کا وجود نہ ہوتا۔ ریاستوں کی واضح حدود متعین نہ ہوتیں ، اگر حکومتوں کے ادارے وجود نہ پاتے ، اگر خدا قصاص کا قانون نہ دیتا تو انسان ختم ہو جاتے ۔ اسی طرح ، جس طرح نی اینڈرتھل انسان ختم ہو گیا ۔ 
پچھلی چند صدیوں میں کرّہ ء ارض کے جنگلات تیزی سے ختم ہوئے ہیں ۔کرّۂ ارض پہ انسان گزشتہ دو لاکھ سال سے آباد ہے ۔ ان میں پچھلے پچاس ہزار سال بے حد سنسنی خیز ہیں ۔ اس دوران بے شمار جانورہمارے ہاتھوں صفحہ ء ہستی سے مٹ چکے ہیں ۔تاریخ میں اب تک پانچ بڑے عالمگیر ہلاکت خیز ادوار گزر چکے ہیں ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آج سے کروڑوں برس بعد ماہرین انسانی ہاتھوں ختم ہوئے جانوروں کے فاسلز کا مشاہدہ کریں گے تو انہیں ایسا ہی لگے گا ، جیسا کہ کوئی عالمگیر ہلاکت خیزدور گزرا ہو ۔ کوئی بڑی آسمانی یا ارضی آفت ۔ انسانوں نے جنگلات ختم کیے ، کاربن کو بے حد جلایا۔ فضا کاربن ڈائی آکسائیڈ ، میتھین اور دیگرخطرناک گیسز سے بھر چکی ہے ۔ یہاں جس جگہ میں مقیم
ہوں ، اس کے قریب شام کو کارخانوں کا کوڑا کرکٹ جلایا جاتاہے ۔ یہ عمل روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے ۔انسان کے ہاتھوں آلودگی کی مقدار اس قدر بڑھ چکی کہ برف کے عالمی ذخائر پگھلتے چلے جارہے ہیں ۔ دو برس قبل بیس ہزار سائنسدان امریکہ میں اکھٹے ہوئے۔ انہوں نے جو اعلامیہ جاری کیا ، وہ یہ تھا کہ انٹارکٹکا میں برف کے ذخائر کو زمین بوس ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ خواہ تمام انسانی سرگرمیاں ، جن سے گرین ہائوس گیسز جنم لیتی ہیں ، فوراً روک بھی دی جائیں تو بھی یہ تباہی وقوع پذیر ہو کر رہنی ہے ۔ یوں سمندروں کی سطح پندرہ سے بیس فٹ بلند ہو کر رہنی ہے ۔ کراچی جیسے بڑے شہر اور جزائر پہ آباد ممالک کو ڈوب جانا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فلپائن جیسے ممالک جو جزیروں پہ آباد ہیں ، وہاں چیخ و پکار مچی ہوئی ہے ۔ سائنسدانوں کا کہنا یہ تھا کہ سوال یہ نہیں ہے کہ برف کو پگھلنا اور سمندروں کو اوپر جانا ہے یا نہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کب ہوگا۔ جواب یہ ہے کہ اگلے دو سو برس سے ایک ہزار سال کے درمیان کبھی بھی ۔ 
بیس ہزار سے زائد جوہری ہتھیار وں کی عظیم اکثریت امریکہ اور روس کے پاس موجود ہے ۔ پاکستان اور بھارت جیسے پسماندہ ممالک بھی ، جہاں شدید غربت پائی جاتی ہے ، ایٹم بم موجود ہیں ۔ یہ انسانی انا ، غلبے کی خواہش اور خوف کا مظہر ہیں ۔ ان حالات میں کوئی بھی لمحہ کرّئہ ارض کی تباہی کا لمحہ ثابت ہوسکتاہے ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا خدا اس بات سے لا علم ہے ؟ کیا پیدا کرنے والے کو معلوم نہیں تھا کہ اس کی تخلیق کیا گل کھلائے گی ؟
آج انسان روبوٹ کو ، کمپیوٹر کو مصنوعی ذہانت دیتے ہوئے ڈرتاہے ۔ یہ بات بار ہا کی جاچکی اور سٹیون ہاکنگ کا کہنا بھی یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کرّہ ء ارض پہ انسانی عروج کا خاتمہ کر سکتی ہے ۔ہم انسان کو مصنوعی ذہانت دیتے ہوئے اتنے خوفزدہ ہیں کہ کل کلاں کو یہ ہمارا خاتمہ نہ کر دے ۔ خدا کو ایسا کوئی خوف درپیش نہیں تھا۔ کیوں ؟ اس نے پانچ ارب مخلوقات کو پیدا کیا تھا۔ ان کے زندگی گزارنے کا سامان رکھا اور انہیں ایک دوسرے سے منسلک اور منحصر رکھے ۔ وہ جانتا تھا ۔ اسے اچھی طرح علم تھا کہ جو ذہانت وہ انسان کو دے رہا ہے ، اس سے وہ فضائوں میں اڑے گا۔ زمین کے نیچے سے کاربن نکال کر جلائے گا۔
ایٹم بم بنائے گا۔ اجرام ِ فلکی میں مداخلت کرے گا۔ وہ مگر اس قدر عظیم ہے کہ اسے اس کی چنداں پرواہ نہیں تھی ۔ بانوے عناصر سے تمام معلوم کائنات اور اس میں موجود تمام اشیا تخلیق کرنے والے رب نے زمین میں ایسا کوئی عنصر تخلیق نہیں کیا تھا، جس پہ بیٹھ کر انسان ہمسایہ ستاروں تک کا سفر کر سکے ۔ وہ چاند پہ اترے ، مریخ یا ٹائٹن پر ، بالآخر نظامِ شمسی کی تباہی کے ساتھ ہی اسے ختم ہو جانا تھا۔ 
وہ وقت قریب ہے ۔ آخری پیغمبرؐ کو گزرے پندرہ سو برس بیت چکے ۔ آج کرّئہ ارض پہ انسانوں کی اکثریت تین بڑے الہامی مذاہب یہودیت، عیسائیت یا اسلام سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس کے علاوہ بھارت کے بت پرست ہیں یا چین و روس کے لوگ جن کے نزدیک یہ کائنات اور یہ زندگی خود بخود وجود میں آئی ہے ۔ وہ وقت قریب ہے ۔ ہم میں سے کون حق پر ہے ، اس بات کا فیصلہ جلد ہو جائے گا۔ برف کا پگھلنا، آبادی کی کثرت، وسائل کی قلت، جوہری ہتھیار، یہ سب چیزیں دھری کی دھری رہ جائیں گی ۔ جس حد تک میں نے غور کیا ہے ، اس کے مطابق سورج کی ہائیڈروجن رفتہ رفتہ کی بجائے ایک دم ہیلیم میں بدلے گی ۔ اسی سے وہ دھماکہ ہوگا، جسے القارعہ کہا گیا ہے ، جس کے نتیجے میں زمین کے پہاڑ ہوا میں اڑ جائیں گے ۔ سورج پھیل جائے گا۔ سمندر بخارات میں بدلیں گے ۔ ان کی ہائیڈروجن دھماکے سے جل اٹھے گی ۔ زمین پگھل جائے گی ۔ وہ اپنے اندر کے بوجھ نکال پھینکے گی ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved