تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     06-07-2016

کارنامے

خوش بختی ہے کہ خادمِ اعلیٰ نے اب ہسپتالوں کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اس سے پہلے وہ پٹوار، پولیس اور عدالتوں کو ہموار فرما چکے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ پٹواری اب کسی کو پریشان نہیں کرتے۔پٹوار اس طرح سنواری گئی کہ اراضی کا ریکارڈ کمپیوٹرائز کر دیا گیا۔ پٹواری کا اب کوئی تعلق ہی نہیں۔ کمپیوٹر سنٹر جائیے اور سیٹی بجاتے ہوئے واپس آئیے۔ اس پر اللہ کا شکر ادا کیجیے کہ صدیوں سے چلے آتے، خون آشام مردم بیزار آدمی سے آپ کو نجات مل گئی۔ اس کی جگہ اب ایک ایسے شخص نے لے لی ہے، جس کی میز پر کمپیوٹر دھرا ہے۔ رشوت کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، نخرے اور تاخیر کااندیشہ بھی نہیں ۔ اگر اس کا موڈ خوشگوار ہو تو چند منٹ میں آپ کا کام نمٹا دیتا ہے۔ موڈ کا انحصار اس پر ہے کہ اس کی مشکلات اور مجبوریوں کو آپ ملحوظ رکھیں۔ اشیاء صرف، علاج اور کرایے کے مکانوں کی جس گرانی نے آپ کو پریشان کر رکھا ہے، اس کی کمر بھی توڑ دی ہے۔ ایک آدھ، دو چار کنال ہی سہی، آپ تو خیر سے صاحبِ جائیداد ہیں۔اسی لیے تو ملکیت کی وہ دستاویز حاصل کرنے آئے ہیں، محکمہ مال کی زبان میں جسے ''نقل‘‘ کہا جاتا ہے۔ پانچ دس ہزار روپے کی کیا اہمیت۔ ہاتھ کا میل ہے۔ آپ کے ہاتھ صاف اور اس کا دل شاد ہو گا!
آپ کیا کہیں گے، یہی پٹواری تو پانچ سو روپے سے زیادہ طلب نہ کیا کرتا تھا۔یہ پانچ ہزار مانگتاہے ۔ وصول کرنے کے بعد اس کے چہرے پر گاہے تشکر کا احساس بھی جاگتا۔ کبھی چائے کی پیالی بھی پلا دیا کرتا۔ بھک منگوں کی طرح یہاں قطار میں کھڑے ہونا پڑتا ہے اور چائے کی پیالی کا تو سوال ہی کیا۔ آپ نے غور نہیں کیا۔گھبراہٹ کے عالم میںجس بڑے دروازے سے اس کمپیوٹر سنٹر میں آپ داخل ہو رہے تھے، اس کے بائیں ہاتھ ''شریف چائے سٹال ‘‘واقع ہے۔ نقل حاصل کرنے کے بعد، ایک پیالی خود پیجیے اور ایک اس کے لیے بھجوا دیجیے۔ ایک کیوں، پانچ سات، اس کے رفیق اور ہم نفس بھی تو ہیں۔ 
جو اعتراض آپ داغنے والے ہیں، پہلے سے اس کا اندازہ تھا: ہمارے ہاں تو کمپیوٹر سنٹر ابھی کھلا ہی نہیں۔ فقط اس کا وعدہ ہے۔ ارے بھائی جلدی کیا ہے۔ جہاں اور کئی اضلاع میں کام تمام ہو چکا، آپ کا بھی ہو جائے گا۔ چار سو برس سے اکبرِ اعظم کے عہد سے، اگر آپ پٹواری کو برداشت کر رہے ہیں تو چندماہ ، چند سال اور کر لیجیے۔ کیا آپ جانتے نہیں کہ میٹرو بس کا کارنامہ انجام دینے کے بعد، خادم اعلیٰ ان دنوں اورنج ٹرین کی تعمیر میں مصروف ہیں۔ 200ارب روپے کا منصوبہ ہے، پورے دو سو ارب کا۔
اسی لیے توہسپتالوں، سکولوں، حتیٰ کہ قبرستانوں کے لیے مختص رقوم واپس منگوائی اور اس میں جھونک دی گئیں۔ ریل چل پڑے گی تو ہسپتال اور سکول بھی بن جائیں گے۔ قبرستانوں کی چاردیواریاں بھی۔ مردے کیا بھاگے جا رہے ہیں؟ کیا انہوں نے کبھی چار دیواری کا مطالبہ کیا ہے؟ کبھی کوئی جلوس نکالا ہے؟ لاہور پریس کلب کے سامنے کبھی کوئی مظاہرہ کیا؟
رہے سکول تو اس کا علاج خادم اعلیٰ نے ڈھونڈ نکالا ہے۔ پانچ ہزار این جی اوز کے سپرد کیے جا چکے۔ رفتہ رفتہ باقی ماندہ بھی نمٹا دیئے جائیں گے۔ آپ پوچھیں گے، دنیا میں یہ کہاں ہوتا ہے کہ سرکاری ادارے، غیر ملکیوں کی خیرات پر چلنے والوں کو سونپ دیئے جائیں۔ نہ ہوتا ہو گا؟ دنیا میں اور کہیں نندی پور ہوتا ہے؟ طلال چوہدری ہوتے ہیں ، کوئی عابد شیر علی دنیا کے کسی ملک میں پایا جاتاہے ؟ہری ٹائی والے رحمٰن ملک ؟دنیا میں اور کہیں حمزہ شہباز اور بلاول بھٹو پائے جاتے ہیں۔ یہ تماشا دنیا میں اور کہیں ہوتا ہے کہ کوئی اپوزیشن لیڈر، وزیر اعظم کو جیل بھیجنے کا اعلان کر دے۔ اقتدار حاصل کرنے سے پہلے ہی؟ اگر یہ سب آپ کو گوارا ہے تو سکولوں کی نجکاری کیوں نہیں؟ فخر ایشیا، قائد عوام، ذوالفقار علی بھٹو نے جب آٹے کی ملیں اور چاول چھڑنے کے چھوٹے چھوٹے کارخانے تک قومیا لیے تھے تو آپ نے گوارا کیا تھا۔ اب سکولوں کی نجکاری پر آپ ناک بھوں کیوں چڑھا رہے ہیں؟ صبر کیجیے، صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔
پولیس اور عدالت کی اصلاح کا جو کارنامہ خادم اعلیٰ نے انجام دیا، افسوس کہ آپ نے اس کی داد نہ دی۔ داد کیا دیتے، بھول ہی گئے۔ چھ برس کی بات ہے اور آدمی یہ ہے کہ کل کی بات بھول جاتا ہے۔ میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ ایک روز اچانک خادم پنجاب نے ججوں کی تنخواہیں دوگنا کر دی تھیں۔ اسی طرح کچھ دن بعدپولیس والوں کی بھی۔ آپ کہیں گے، فائدہ اس سے کیا ہوا۔ بالکل ہوا، لاکھ ڈیڑھ لاکھ پولیس والے ہیں۔ ان کے بیوی بچے ہیں، ماں باپ ہیں، بہن بھائی ہیں۔ پانچ سات لاکھ لوگوں کو فائدہ پہنچا۔ اسی طرح سینکڑوں جج ہیں، ہزاروں پر مشتمل ان کا عملہ ہے۔ انہی عدالتوں کے طفیل لاکھوں کے رزق کا سامان ہوتا ہے۔ پولیس ٹائوٹ اور وکیل کا، وکیل کے منشی کا۔ عدالت کے احاطے میں چائے، سگریٹ اور نان چھولے فروخت کرنے والے کا۔ مسافروں کو ڈھونے والے ٹرانسپورٹر حضرات کا۔ 
دھیان سے گنتی کیجیے تو ممکن ہے کہ براہِ راست اور بالواسطہ، یہ تعداد ایک کروڑ کو چھو لے۔ اتنے لوگوں کا بھلا ہوا تو آپ کا بھی ایک دن ہو جائے گا۔ انشاء اللہ وہ دن بھی جلد طلوع ہو گا، تھانیدار جب گالیاں نہیں بکے گا اور عدالت سے انصاف کا حصول بھی ممکن ہو جائے گا۔ چالیس پچاس برس کی بجائے، پچیس تیس سال میں فیصلہ صادر ہو جایا کرے گا۔ جمہوریت کو ذرا جڑ تو پکڑنے دیجیے۔ سات برس ہی ہوئے ہیں، بالغ تو ہو جائے۔ اٹھارہ برس سے پہلے تو شادی بھی جائز نہیں؛ چہ جائیکہ اولاد۔ عدل و انصاف، جمہوریت کی اولاد ہی تو ہوتی ہے۔ بالغ ہو گی تو بچے جنے گی۔ امید ہے کہ اس وقت تک حمزہ شہباز، بلاول بھٹو ، حتیٰ کہ اپنا کپتان بھی سیاسی طور پر بالغ ہو چکے ہوں گے۔ بس، یہ پندرہ بیس برس کی بات ہے۔ 1947ء سے اب تک 69 برس آپ نے انتظار کی زحمت گوارا کی۔ ایک ڈیڑھ عشرہ کیا ہوتا ہے؟ پلک جھپکتے میں بیت جائے گا۔ قوموں کی زندگی میں، چند برس کی کیا اہمیت۔
ہم اور آپ عجلت پسند بہت ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ کیسے کیسے بوجھ خادم اعلیٰ نے اٹھا رکھے ہیں۔ کیا کیا روگ ان کی جان کو لگے ہیں۔ رمضان بازاروں ہی کو لیجیے۔ ان سینکڑوں بازاروں کا بندوبست کیا آسان کام تھا؟ آسان ہوتا تو دنیا کا کوئی اور ملک بھی کر دکھاتا۔ ایران میں ہوتے ہیں کیا رمضان بازار؟ دبئی اور ترکی تو چھوڑیے، سعودی عرب میں؟ اللہ اللہ کیجیے یہ کچھ ہمارے خادمِ پنجاب کا جگر ہے۔ پنجاب کے چیف سیکرٹری اور چار عدد سیکرٹری دو گھنٹے روزانہ کے اجلاس فرماتے تو نگرانی ممکن ہوتی۔ پولیس اس کے سوا، محکمہ مال اور بلدیات کے ملازمین الگ۔ حمزہ شہباز الگ، حالانکہ اس بیچارے کی اور کتنی شدید مصروفیات ہیں۔ طرح طرح کی، دن رات کی۔ ضمنی الیکشن ہی کیا کم عذاب ہیں۔
خوش بختی ہے کہ خادمِ پنجاب نے اب ہسپتالوں کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اس سے پہلے وہ پٹوار، پولیس اور عدالتوں کو ہموار فرما چکے۔کچھ اور نہیں تو ممکن ہے کہ ڈاکٹروں کی تنخواہ ہی دوگنی ہو جائے !
پس تحریر:راولپنڈی سے لاہور کے لیے ریل کار کا ایک ٹکٹ درکار تھا۔ عید سے اگلے دن کا۔ تہوار پہ ہجوم غیر معمولی ہوتا ہے؛ چنانچہ ایک بہت سینئر افسر سے مدد کی درخواست کی گئی۔ انہوں نے ایک سینئر افسر سے کہا۔ سینئر نے ایک کم سینئر افسر سے۔ اس کا جواب یہ تھا: ٹکٹ خریدنے میں کیا دشواری ہے۔ بہت سہولت سے مل جائے گا۔ ریزرویشن آفس تشریف لے جائیے۔ تشریف لے جائی گئی۔ دو گھنٹے ضائع ہوئے۔ مطلوبہ ٹکٹ نہ مل سکا۔ شاید مل جاتا، اگر دو گھنٹے مزید صرف کیے جا سکتے۔ریل کار کی کشادہ نشست کی بجائے، اب اسی سڑی ہوئی پی آئی اے پہ سفر کرنا ہو گا۔ جہاز کی طرح ریل کا ٹکٹ بھی ٹیلی فون پر کیوں خریدا نہیں جا سکتا؟ سعد رفیق صاحب، کیوں نہیں خریدا نہیں جا سکتا؟جمہوریت کو بالغ ہونے اور بچّہ جننے کے لیے کتنا عرصہ درکار ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved