گزشتہ جمعہ کو ڈھاکہ میں ایک اعلیٰ معیار کے ہوٹل میں دہشت گردوں نے حملہ کرکے کم از کم 20 افرادکو قتل اور 37 کو زخمی کردیا۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تعداد اٹلی کے باشندوںکی تھی جو کاروبار کے سلسلے میں بنگلہ دیش آئے ہوئے تھے۔ جاپان سے تعلق رکھنے والے سات باشندے بھی ہلاک ہوئے، وہ بھی تجارت اور سیاحت کی غرض سے بنگلہ دیش میں مختصر عرصے کے لئے قیام پذیر تھے۔ دیگر ہلاک ہونے والوں میں بھارتی اور ایک بنگلہ دیشی نوجوان بھی تھا جو کیلی فورنیا کی ایک یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا۔ داعش (آئی ایس آئی ایس) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی۔ پاکستان کی حکومت نے بنگلہ دیش میںہونے والی اس دہشت گردانہ کارروائی کی شدید مذمت کی اور وزیراعظم حسینہ واجد سے اس واقعہ کے بارے میں ہمدردی کا اظہار کیا۔ بنگلہ دیش کی حکومت ہر زوایے سے اس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے اور اس المناک واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''اسلام امن وشانتی کا مذہب ہے، اس میں اس قسم کی کارروائی کی کوئی گنجاش نہیں ہے‘‘۔
بنگلہ دیش میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائی کی امریکہ سمیت تمام ممالک نے بھی مذمت کی اور خیال ظاہرکیاکہ داعش کی پرامن لوگوں کے خلاف بڑھتی ہوئی کارروائیاں عالمی امن کے لئے زبردست چیلنج بنتی جا رہی ہیں جن کا سدباب کرنا تمام ممالک کا فرض ہے۔ بھارت کے میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا نے بنگلہ دیش میںدہشت گردانہ کارروائی کے پیچھے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو ملوث کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارتی میڈیا کے اس بے بنیاد اور بے تکے الزام کا صرف یہی جواب دیا جاسکتا ہے کہ بھارت کی حکومت کسی نہ کسی بہانے سے پاکستان کو بد نام کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتی۔ بھارت کے جن صحافیوں نے بنگلہ دیش میں ہونے والے واقعے میں پاکستان کو ملوث کرنے کی کوشش کی ہے، ان کا تعلق مودی کی حکومت سے ہے؛ بلکہ بعض تو آر ایس ایس کے رکن بھی ہیں۔ یہ عناصر پاکستان اور بھارت کے درمیان تلخی پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے؛ حلانکہ بنگلہ دیش میں ہونے والی اس کارروائی میں پاکستان کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ خو د بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد کی حکومت کے ایک مشیر نے اپنے بیان میں بڑی وضاحت سے یہ بات کہی ہے کہ پاکستان کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ خالصتاً بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے اور اس میں داعش کے ساتھ ساتھ انتہا پسند عناصر ملوث ہیں۔
بنگلہ دیش میںگزشتہ چھ سات ماہ سے بعض انتہا پسند عناصر بنگلہ دیش کے سیکولر خیالات کے حامل افراد کو قتل کر رہے ہیں جن میں بعض ہندو بھی شامل تھے۔ حسینہ واجد کی حکومت ان انتہا پسند عناصر کا قلع قمع کرنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ دوسرے لفظووں میں حکومت کی اس نااہلی کی وجہ سے بنگلہ دیش کے معاشرے میں انتہا پسند ی بتدریج پھیل رہی ہے۔ اس کے علاوہ حسینہ واجد بہت حد تک خود بھی بنگلہ دیش میںانتہا پسندی کے فروغ کی ذمہ دار ہیں۔انہوںنے حال ہی میں جماعت اسلامی کے بعض ارکان کے خلاف کانگرو کورٹس کے ذریعہ مقدمہ چلا کر انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا جس کے خلاف بنگلہ دیش میں سخت احتجاج بھی ہوا۔ اس وقت بھی بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے علاوہ دیگر مذہبی تنظیمیں حسینہ واجد کی حکومت کے سخت خلاف ہیں اور آئے دن حکومت کے خلاف مظاہرے کرکے اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ حزب اختلاف کی رہنما محترمہ خالدہ ضیا بھی حسینہ واجد کی پالیسیوں کے سخت خلاف ہیں، ان کا یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کی ایما پر جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو پھانسی پر چڑھا کر وہ بنگلہ دیش کے معاشرے کو انتہا پسندی کی طرف لے جا رہی ہیں؛ حالانکہ جماعت اسلامی کے جن رہنمائوں کو تختہ دار پر لٹکایا گیا ہے وہ بنگلہ دیش میں 1971ء کے بعد وزرا بھی رہے ہیں۔ سماج میں غربت اور بے روزگاری ختم کرنے کے سلسلے میںانہوںنے اہم کام بھی انجام دیے تھے۔
دراصل حسینہ واجد بنگلہ دیش کی حکومت کے معاملات بھارت کے حوالے سے چلا رہی ہیں۔ انہیں یہ بات ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ کسی طرح بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار نہ کئے جائیں۔ چالیس سال کے بعد جماعت اسلامی کے جن رہنمائوں کو پھانسی دی گئی ہے اس کا حکم نامہ بھی بھارت سے آیا تھا تاکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی تھوڑی بہت بھی گنجائش ہو تو وہ بھی باقی نہ رہ سکے۔ جہاں تک گزشتہ جمعہ کو ہونے والی دہشت گردی کے واقعہ کا تعلق ہے، یہ عین ممکن ہے کہ اس میں بھارت شامل ہو کیونکہ جس طرح بھارتی میڈیا پاکستان پر الزام لگا رہا ہے، اس سے یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کسی نہ کسی طرح اس المناک واقعے میں شامل ہے۔ بھارت کی سرحدیں بھی بنگلہ دیش سے ملی ہوئی ہیں جبکہ مغربی بنگال میں بھی انتہا پسند ہندوئوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے؛ چنانچہ وزیراعظم حسینہ واجد کو چاہیے کہ وہ بنگلہ دیش میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کی کوشش کریں اور ان وجوہ کا سدباب کرنے کی کوشش کریں جن کی وجہ سے بنگلہ دیش میں انتہا پسندی فروغ پا رہی ہے۔ پاکستان 1974ء میں بنگلہ دیش کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر کاربند رہتے ہوئے بنگلہ دیش کی سا لمیت اور خود مختاری کا احترام کرتا ہے، انتہا پسندی اور دہشت گردی خود پاکستان کے لئے درد سر بنی ہوئی ہے اور اسکا قلع قمع کرنے کے لئے اپنے تمام وسائل بھی بروئے کار لارہا ہے۔ پاکستان کا یہ موقف سو فیصد درست ہے کہ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک علاقائی مسئلہ بھی ہے جس کو اس خطے کے تمام ممالک مل کر ہی ختم کرسکتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ سفارتی سطح پر بھارتی پروپیگنڈے کو غیر موثر بنانے کے لئے عالمی سطح پر مہم چلائے۔