صحیح زبان لکھنا ایک فن تو ہے ہی‘ فرض بھی ہے‘ نیز کسی تحریر یا تخلیق کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ حسن تخلیق کر رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ ناقص زبان کے ذریعے تخلیق کیا جانے والا حسن بھی اتنا ہی ناقص ہو گا اور یہ بات ایک المیے سے کم نہیں کہ ہم روز بروز زبان اور اس کے استعمال کے حوالے سے لاپروا ہوتے جا رہے ہیں‘ حتیٰ کہ بعض الفاظ‘ اُن کے ہجے یا تلفظ غلط ہوتے ہوتے اتنا طول کھینچ جاتے ہیں کہ انہیں غلط العام کہہ کر قبول کرنا پڑتا ہے۔ میڈیا اور خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا میں استعمال کی جانے والی زبان کا بگاڑ تو آخری حدوں کو چھونے لگا ہے‘ حالانکہ ہمارا یہ مشترکہ اثاثہ ہے اور اس کی حفاظت مشترکہ ذمہ داری‘ میں اپنی محدود سمجھ کے مطابق اکثر اوقات ایسی کوتاہیوں کی نشاندہی کرتا رہتا ہوں تاکہ اصلاح احوال کی کوئی صورت نکلتی رہے ‘عادت سے بھی مجبور ہوں اور یہ بھی کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ میڈیا والوں کو اپنے ہاں کسی زبان اور عروض کی ماہر شخصیت کی بھی خدمات حاصل کرنی چاہئیں کیونکہ اکثر اوقات تحریروں میں جو اشعار یا مصرعے استعمال کئے جاتے ہیں‘ بے وزن ہوتے ہیں‘ حالانکہ یہ کام جتنے ذوق و شوق سے کیا جاتا ہے‘ اس کا تقاضا ہے کہ اس میں اتنی ہی احتیاط بھی روا رکھی جائے۔ ایسے خواتین و حضرات کے علم و فضل سے ہرگز انکار نہیں ہے لیکن یہ ایک فنی ضرورت ہے کہ نک سک درست رکھنے کا بھی اہتمام کیا جائے۔
کچھ عرصہ پہلے ہمارے ایک ثقہ اور نستعلیق قسم کے بھائی نے ایک ایسی غلطی کر ڈالی تھی جو ایک بھاری اکثریت روا رکھتی ہے کہ ایک ضرب المثل شعر کو اس طرح لکھا کہ ؎
جس کا کام اُسی کو ساجھے
اور کرے تو ٹھینگا باجے
میں نے عرض کیا تھا پہلے مصرعے میں ''ساجھے‘‘ کا لفظ درست نہیں ہے۔ میرا استدلال یہ تھا کہ ساجھے کا مطلب چونکہ مشترکہ ہے‘ اس لیے مصرع میں اس کا کوئی مطلب یا جواز ہی نہیں نکلتا‘ کیونکہ اس طرح مصرع ویسے بھی بے معنی ہے جبکہ صحیح لفظ ''ساجھے‘‘ نہیں ''ساجے‘‘ ہے جو مکمل طور پر ''باجے‘‘ کا ہم قافیہ بھی ہے۔ آج اس کے لیے فرہنگ آصفیہ سے بھی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جس سے سارا معاملہ صاف ہو گیا ہے۔ اس کے جلد دوم کے صفحہ 6 کے مطابق لفظ ''ساجا‘‘ کی جو تعریف اور وضاحت کی گئی ہے وہ کچھ اس طرح سے ہے : شرکت ‘ مشارکت ‘ شراکت ‘ تجارت کا یا کسی کا باہم شریک ہوناجیسے ساجا جورو خصم ہی کا بھلا‘ بانٹ‘ حصہ‘ بھاگ بٹائی جیسے سخی کی کمائی میں سب کا ساجھا‘ پتی بہری جیسے ساجھے کی ہنڈیا چوراہے میں پھوٹتی ہے۔
اب لفظ ساجنا کی طرف آتے ہیں جس کا مطلب دیا گیا ہے سجنا‘ زیب دینا‘ بن پڑنا جیسے جا کا کام وا کو ساجے‘ اور کرے تو ٹھینگا باجے
چنانچہ اب تو اس میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہنا چاہیے کہ لفظ ''ساجے‘‘ ہی صحیح ہے‘ ساجھے نہیں۔ تاہم مجھے یقین ہے کہ یہ غلطی آئندہ بھی اسی شد و مد سے کی جاتی رہے گی کیونکہ درست زبان لکھنا ہماری ترجیحات ہی میں شامل نہیں ہے۔
اب ایک اور شعر کی طرف آئیے یعنی ؎
وہ آئے بزم میں اتنا تو ہم نے دیکھا میر
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
اس لازوال شعر کو ہم نہ صرف اسی طرح پڑھتے رہے بلکہ اسے قرار بھی میر صاحب ہی کا دیتے رہے۔ لیکن آج فرہاد احمد فگار صاحب نے میسج کے ذریعے بتایا ہے کہ یہ شعر کسی منشی مہاراج بہادر ورمابرق کا ہے جن کا دورانیہ 1884ء سے 1936ء تک ہے اور جن کا تعلق پانی پت سے تھا اور اصل شعر بھی اسی طرح سے ہے ؎
وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا
پھر اُس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
فرہاد احمد فگار آزاد کشمیر یونیورسٹی میں اردو کے لیکچرر ہیں اور آج کل نمل یونیورسٹی سے ایم فل کر رہے ہیں۔ اس شعر کے حوالے سے انہوں نے جہاں جہاں سے سند لی ہے ان میں ایک کتاب تو ''اردو کے ضرب المثل اشعار‘‘ ہے جو محمد شمس الحق نے لکھی اور ادارہ یادگار غالب کراچی نے شائع کی ہے۔
دوسری کتاب ہے ''اردو کے آوارہ گرد اشعار‘‘ یہ قاضی عبدالودود کی تالیف ہے جو پٹنہ سے شائع ہوئی ہے۔
تیسری کتاب ہے ''زبان زد اشعار‘‘ یہ ڈاکٹر حسن الدین احمد نے لکھی اور ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی سے چھپی ہے۔
ان تینوں کتابوں میں اس شعر کے خالق منشی مہاراج بہادر ورما برق ہیں جن کے بارے میں زیادہ تفصیلات نہیں مل سکیں ماسوائے ان کے جو اوپر درج کر دی گئی ہیں اور اگر یہ وضاحت نہ آئی ہوتی تو میرے جیسے کئی اور ایسے تھے جو اس لازوال شعر کو میر کا سمجھ کر پڑھتے رہے ہیں کیونکہ اس سے بڑی زیادتی اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ ایک شخص نے ضرب المثل بن جانے والا بیشک ایک ہی شعر کہا ہو لیکن وہ بھی کسی اور کے نام لگا دیا جائے۔ اس غلط فہمی کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو گی کہ میر شاعر ہی اتنا بڑا ہے کہ کسی بھی غیر معروف شاعر کے عمدہ شعر کے حوالے سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ میر کا شعر ہی ہو گا۔ حتیٰ کہ یار لوگوں نے اس غریب کا تخلص ہی غائب کر کے میر صاحب کا ٹانک دیا یعنی حامد کی پگڑی محمود کے سر‘ حالانکہ انگریزی محاورے کے مطابق شیطان کو (بھی) اس کا جو حصہ بنتا ہو‘ دینا چاہیے!
مُحبی ڈاکٹر تحسین فراقی نے بھی تصدیق کی ہے کہ یہ واقعی برق کا شعر ہے جو خواہ مخواہ میر کے نام سے مشہور ہو گیا۔
آج کا مطلع
مجھے تیری نہ تجھے میری خبر جائے گی
عید اب کے بھی دبے پائوں گزر جائے گی