تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     06-07-2016

زندگی ایک خواب ہے ؟

خواب زندگی کا حصہ ہیں ۔ یہ اچھے ہو سکتے ہیں اور برے بھی ۔ خواب درحقیقت ہے کیا؟سائنس کہتی ہے کہ نیند کے دوران بھی دماغ کام کرتا رہتاہے ۔ اس دوران ہمارا لا شعور کچھ مناظر تخلیق کرتاہے ، جنہیں خواب کہتے ہیں ۔ 1920ء کی دہائی میں پہلی بار یہ انکشاف ہو ا تھا کہ سوئے ہوئے افراد کے دماغ میں رات کے مختلف حصوں میں مختلف شدّت کی سرگرمیاں (Brain Activities)جنم لیتی رہتی ہیں ۔ 
تیس برس بعد نیند پر تحقیق کرنے والے نیتھا نیل کلیٹ مین کی دریافت نے سائنسی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس وقت انسان ا س قابل ہو چکا تھا کہ ان سوئے ہوئے افراد کی آنکھوں میں بھی حرکات کا جائزہ لیا جا سکے ، جن کی پلکیں پوری طرح بند ہوں ۔ اس کے لیے ای او جی (EOG)نامی ایک ٹیسٹ کیا جاتاہے ۔ کلیٹ مین کی دریافت یہ تھی (اور اب یہ پوری طرح ثابت شدہ ہے ) کہ نیند کے دوران ایک خاص وقت میں آنکھیں اس طرح حرکت کرنا شروع کر دیتی ہیں ، جیسے وہ سرکس کے کرتب دیکھ رہی ہوں ۔ کلیٹ مین نے دیکھا کہ آنکھوں کی ان حرکات کے دوران دماغی سرگرمیاں بھی اپنی انتہا پر ہوتی ہیں؛البتہ جسم حرکت کرنا چھوڑ دیتاہے ۔ اس خاص وقت کو Rapid Eye Movement Stageکا نام دیا گیا۔ یعنی وہ وقت ، جب آنکھیں تیزی سے حرکت کر رہی ہوں ۔ خواب دیکھنے والے شخص کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے ، حقیقت نہیں۔ آنکھوں کے حرکت کرنے سے ظاہر ہوتاہے کہ ہمارے مختلف اعضا بھی خواب کو حقیقت ہی سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔ اس وقت شاید دماغ کو بھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہا ہے ۔ 
روحانی پہلو یہ ہے کہ خواب میں ایسے اشارے ملتے ہیں ، جن کی ایک تعبیر ہوتی ہے لیکن یہ علم خدا کی طرف سے کچھ ہی لوگوں کو ملتاہے ۔ زیادہ تر خواب جو ہم دیکھتے ہیں ، وہ نفسیات پہ منحصر ہوتے ہیں اور ان کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی ۔ یہ لمبے لمبے خواب ہوتے ہیں ۔ جس خواب کی تعبیر ہوتی ہے ، وہ مختصر سی علامت ہوتی ہے ۔ جیسے کہ آپ دیکھیں کہ آپ ہوا میں اڑ رہے ہیں۔ جیسے یہ کہ آپ کے بال لمبے اور گھنے ہیں ۔ یا آپ کا سر بالوں سے خالی ہے ۔ یاآپ خود کو زوردار سیٹی بجاتا دیکھیں ۔ یہ چند لمحوں پر مشتمل ایک علامت ہوتی ہے ۔ اگرآپ یہ دیکھیں کہ آپ کی والدہ آپ کے لیے کپڑے سی رہی ہیں تو اشارہ یہ ہے کہ آپ کی شادی ہونے والی ہے ۔ قرآن میں لکھا ہے : تمہاری عورتیں (بیویاں ) تمہارا لباس اور تم ان کا لباس۔ قرآن اور حدیث میں اگر کسی علامت کی کوئی تعبیر بتائی گئی ہو تو وہ حتمی ہوتی ہے ۔ قرآن میں مختلف علامتیں آئی ہیں ۔ جیسے کہ گندم کے خوشے ، پتلی اور موٹی گائیں ، پرندوں کا کسی کے سر پہ رکھی روٹیوں کو نوچ کر کھانایا چاند ستاروں کا سجدہ کرنا ۔ 
خوابوں کی دنیا دو الگ الگ سائنسز پر مشتمل ہے ۔ اگر کوئی مکمل تصویر دیکھنا چاہے تو دونوں کو ملا کر پڑھنا ہوگا۔ خواب لمبک سسٹم نامی دماغ کے اس حصے سے پھوٹتے ہیں ، جہاں ساری انسانی نفسیات ملوث ہوتی ہے ۔ لمبک سسٹم دماغ کے درمیان میں واقع ہے ۔ خوف اور محبت سمیت ، جذبات کی آماجگاہ یہی ہے ۔ دوسری طرف انہی خوابوں کے درمیان ہمیں ایک ایسی علامت نظر آتی ہے ، جس کی کوئی باقاعدہ تعبیر ہوتی ہے ۔ یہ علامت بیدار ہونے کے بعد بھولتی نہیں ۔ یہ بہت واضح ہوتی ہے ۔ اگر نفسیات سے جنم لینے والے طویل خواب نہ ہوتے تو ہر کوئی خوابوں کا علم جان جاتا۔ طویل نفسیاتی خوابوں نے علامتوں پر پردہ ڈال دیا ہے ۔ 
بار بار آپ یہ دیکھتے ہیں کہ دوبارہ گھر بار چھوڑ کر اس ہاسٹل میں منتقل ہو رہے ہیں ، جہاں پندرہ بیس برس قبل میٹرک کے لیے نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو جانا پڑا تھا۔ گھر سے دور پھر آپ کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بار بار یہ آپ کو اس لیے دکھائی دیتاہے کہ نوجوانی کے اس دور میں اس نے آپ کی نفسیات کو متاثر کیا تھا۔ اس طرح کے خوابوں کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی۔ اگر آپ کو بے روزگاری کے کئی برس گزارنے کے بعد بمشکل تمام نوکری ملی ہے لیکن بار بار آپ کو خواب میں ملازمت سے نکال دیا جاتاہے تو اس کا تعلق بھی نفسیات سے ہے ۔ 
اگر آپ خواب میں خود کو اڑتا ہوا دیکھیں تو یہ ایک علامت ہے اور اس کی ایک تعبیر ہے ۔ممکنہ طور پر ذہنی اور روحانی طورپر بہتری۔ حضرت موسیٰ علیہ ا لسلام کی دعا : اے اللہ میرے لیے میرا سینہ کھول دے او رمیرا کام مجھ پر آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ وہ (فرعون ) میری بات سمجھ سکے ۔ قرآن میں درج یہ دعا خاموش طبع لوگوں کو پڑھنی چاہئیے ، جو اپنے اندر تبدیلی کے آرزومند ہوں ۔اگر خواب میں آپ خود کو زوردار سیٹی بجاتا دیکھیں تو یہ اعتماد اور Communication skillsمیں بہتری کا خواب ہے ۔ ابنِ سیرینؒ کی کتاب تعبیر الرویا اس سلسلے میں ایک بہت شاندار تصنیف سمجھی جاتی ہے ۔ 
جب ایک برا خواب دیکھتے ہوئے آپ بیدا ر ہوتے ہیں توچند لمحے یقین ہی نہیں آتا کہ وہ سب خواب تھا ۔ پھر انسان خوشی او رسکون کا سانس لیتاہے ۔ فرض کریں کہ آج آپ ایک دم بیدار ہوں اور آپ کو معلوم ہوکہ آج تک جتنا وقت آپ نے اس دنیا میں گزارا ، وہ حقیقت نہیں ، ایک خواب تھا تو آپ کا ردّعمل کیا ہوگا۔ شاید آخر میں یہی ہوگا ۔ جب پلٹ کر ہم اپنی اس زندگی کو دیکھیں گے تو ہمیں یہ خواب کی طرح لگے گی ۔ یہ تو بہرحال ہم کہیں گے ہی کہ ہم نے اس دنیا میں ایک دن گزارا یا اس سے کم۔ اس وقت بہر حال ایسا نہیں ہے ۔ اس وقت تو یہ زندگی بہت طویل لگتی ہے ۔ بالخصوص جب ہم کسی مشکل، کسی صدمے اور کسی اذیت کا شکار ہوتے ہیں تو وہ ختم ہوتی نظر نہیں آتی ۔ 
ساری نشانیاں اختتام کی طرف جاتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔آخر میں ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ جن پانچ حسیات میں ہمیں قید کیا گیا تھا اور جن میں ہماری ہر لذت اور ہماری ہر تکلیف رکھی گئی تھی ، وہ سب مصنوعی تھا۔ سونا، چاندی، تیل ، کوئلہ اور ہیرا، جن عناصر کو ہم قیمتی سمجھ کر لڑتے رہے ، وہ بیکار تھے ۔ دنیا میں سب سے بڑی اگر کوئی محبت پیدا کی گئی ہے تو وہ نفس کی اپنے آپ سے محبت ہے ۔ اس پر صرف اور صر ف اولاد کی محبت غالب آ سکتی ہے ۔ اولاد کی خاطر والدین جان بھی دے دیتے ہیں ۔ آخر میں ہمیں معلوم ہوگا کہ اولاد کی محبت مصنوعی طور پر دلوں میں پیدا کی گئی تھی ۔ اصل میں ا س کا کوئی وجود ہی نہیں ۔ میر ااندازہ ہے کہ آخر میں ہم یہ آرزو کریں گے کہ دنیا میں ہمیں زیادہ تکلیفوں سے گزارا جاتا۔ اس وقت ہمارے پاس زیادہ علم ہوگا ۔ ہم دونوں دنیائوں کا تقابل کرنے کے قابل ہوں گے ۔ جو زیادہ عقلمند ہیں ، جنہوں نے اس پہلی زندگی ہی میں یہ دوسروں سے زیادہ جان لیا ہے ۔ وہ اب بھی ہر آزمائش سے مسکراتے ہوئے گزر جاتے ہیں ۔ یہ اطمینان علم و عقل کی وجہ سے ہے ۔ ایسی عقل جو خدا کی طرف سے ہدایت یافتہ ہو۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved