وزیراعظم کی وطن واپسی پر ان کے ولولہ انگیز استقبال کی تیاریاں اپنی انتہا پر ہیں۔ کیوں نہ ہوں؟ وزیراعظم کی پرعزم صاحبزادی‘ لاہور میں خاص طور پر‘ اپنے والد محترم کے استقبالی انتظامات کی تیاریوں کے لئے‘ وطن عزیز میں ہی رک گئی تھیں۔ مریم کاامتیازی وصف یہ ہے کہ وزیراعظم نے انہیں شعبہ نشریات و اطلاعات کا نگراں مقرر کیا۔ یاد رہے‘ جب بھٹو صاحب نے تعلیم مکمل کرنے پر‘اپنی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کی خواہش پر عملی زندگی میں حصہ لینے کی اجازت دی‘ تو انہیں وزارت خارجہ میں تجربہ حاصل کرنے کا موقع دیا۔ یہیں سے دونوں وزرائے اعظم کے رجحان طبع کا اندازہ ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب نے اپنی بیٹی کو عملی تجربے کی دنیا میں داخل ہونے کے لئے‘ وزارت خارجہ میں تجربہ حاصل کرنے کی راہ دکھائی اور نوازشریف نے اپنی بیٹی کو وزارت اطلاعات و نشریات کی۔ یہ دونوں محکمے ہمارے ملک میں امتیازی مقام رکھتے ہیں۔ بھٹو صاحب نے اپنی اولاد کے مستقبل کے لئے جو شعبہ منتخب کیا‘ اس میں اقوام عالم کی پالیسیوں کامطالعہ اہمیت کا حامل تھا۔ اسی شعبے میں رہ کر پاکستان کی حیثیت اور ضروریات کا مطالعہ ممکن تھا اور اسی شعبے میں رہ کر پاکستان کی حیثیت اور قوموں کی برادری میں اس کے مقام اور رتبے کا تعین کرنے کا شعور حاصل ہو سکتا ہے۔ بے نظیر شہید نے انتہائی نامساعد حالات میں‘ امور خارجہ کے علم اور تجربے کافائدہ اٹھایا اور پاکستان کے روایتی حکمران طبقے جس وحشیانہ انداز میں بی بی پر حملہ آور ہوئے تھے اگر وہ بیرونی سیاست کے علم سے بے خبر ہوتیں‘ توطالع آزما جنرلوں کا مقابلہ کرنے کے لئے‘ بیرونی قوتوں کی ضرورتوں اور مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر پاکستان میں آخری بار اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوتیں۔ اگر بی بی کو شہید نہ کر دیا جاتا‘ تو ان کی پارٹی پھر سے اقتدار حاصل کر سکتی تھی۔ طالع آزما فوجی ٹولہ بالکل اسی طرح بے نظیر کی جان لینے کے درپے ہو گیا تھا‘ جس طرح بھٹو صاحب کے دشمن‘ ان کے خلاف ہوئے تھے۔ دونوں باپ بیٹی کا المیہ یہ تھا کہ وہ اپنے دشمنوں
سے زیادہ ذہین ‘ سیاسی مہارت کے مالک اور دشمن کی ہر چال کو ناکام بنانے کے ماہر تھے۔ دشمن کے پاس دونوں باپ بیٹی کو شکست دینے کا واحد طریقہ‘ انہیں موت کے منہ میں دھکیلنا تھا۔ بھٹو صاحب اور بے نظیر نے اپنے خوفزدہ دشمنوں کو یہی راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا۔
میاں صاحب نے اپنی سیاسی آزمائش کے پہلے مرحلے میں بیٹی مریم نواز کوسیاست میں اتارنے کا فیصلہ کیا۔جہاں تک ان کی علمی حیثیت کا سوال ہے‘ وہ اپنے مزاج اور علم کے اعتبار سے وہی مقام و مرتبہ رکھتی ہیں‘ جو ان کے والد محترم کا ہے۔ سیاسی حربوں کے انتخاب اور چنائومیں بھی دونوں وزرائے اعظم‘ ایک دوسرے سے زیادہ مختلف نہیں تھے۔ یہاں بھٹو صاحب کے پرستاروں کو دکھ ضرور ہو گا۔ کیونکہ بھٹو صاحب کے لئے جو آئیڈیلزم پائی جاتی ہے‘ و ہ حقائق سے بالاتر ہے۔ بھٹو صاحب بے شک عالمی مفکروں اور سیاستدانوں کے معیار میں اپنے حریفوں سے برتر تھے۔ لیکن حریفوں کی کمتری کی وجہ سے ہی انہیں ‘عملی سیاست میں انہی جیسے پست معیار سے کام لینا پڑا‘ جن سے وہ برسرپیکار تھے۔ بھٹو صاحب بھی آئیڈیلزم سے نکل جائیں تو دنیا کے بہترین فلاسفر اور مفکر سامنے آتے ہیں۔ لیکن عملی سیاست میں ان کی ترجیحات کو دیکھا جائے‘ تو سامنے افتخار تاری‘ مرزا طاہر بیگ‘ مصطفی کھر‘ راولپنڈی کے خورشید میر اور اسی معیار کے دوسرے سیاسی ورکر دکھائی دیتے ہیں۔ نوازشریف کے منتخب اور قابل اعتماد ساتھی بھی اسی قسم کے تھے اور نوازشریف کے قابل اعتماد کارکنوں کا معیار بھی ان سے مختلف نہیں۔ بھٹو صاحب نے بھی امتحان کے دنوں میںجن کارکنوں پر اعتماد کیا‘ نوازشریف ان سے بھی کم تر معیار کے کارکنوں پر بھروسہ کر رہے ہیں۔
خاندانی معاملات میںدونوں کے مسائل انتہائوں کو چھو رہے تھے۔ بھٹو صاحب کے دونوں بیٹے جواں سال اور انتہاپسند تھے۔انہوں نے اپنے والد محترم کی سیاست میں‘ ان کی مدد کرنے کے لئے انتہاپسندی کا راستہ اختیار کیا۔ اس دنوں دہشت گردی کا راستہ نوجوانوں میں مقبول تھا۔ اس راستے پر چل کر نہ وہ اپنے والد محترم کی کوئی مدد کر سکے اور نہ ہی ان کی سیاست کو آگے بڑھا سکے اور نہ ہی خاندان کے اندر کسی بہتر رکن کا انتخاب کر پائے۔ سیاسی اعتبار سے بے نظیر‘ سارے بہن بھائیوں میں زیادہ ذہین اور سیاسی شعور کی مالک تھیں۔ بدنصیبی سے انہیں خاندان اور پارٹی کے اندرونی اختلافات سے ٹکر لینا پڑی۔ میں ان المیوں کو نہیں دہرائوں گا‘ جن کا شکار شاہنواز بھٹو بنے اور آخر میں مرتضیٰ بھٹو اس کا ہدف بن گئے۔ بے نظیر کو داد دینا پڑے گی کہ اپنے دونوں بازوکٹ جانے کے بعد بھی‘ وہ سیاسی شعور کے بل بوتے پر کشمکش اقتدار میں کامیاب ہوتی رہیں۔ لیکن ایک قبیلے کی دیرینہ آرزوئیں پوری کرنے کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔ انہیں ان کے اپنے خون میں ہی نہلا دیا گیا۔ آج بے نظیر بھٹو کا نام‘ ان کی اولاد کے ذریعے استعمال کیا جا رہا ہے۔ بے نظیر کے بچے ایک جنگجو قبیلے کی نشانیاں ہیں۔ انہیں ہماری قوم کے عظیم تر مدبر‘ ذہین اور تاریخ ساز سیاستدان کا نام و نشان مٹانے پر مامور کر دیا گیا ہے۔ بھٹو صاحب کا اپنا تعلق بھی سندھ کے ایک جنگجو قبیلے سے تھا۔ لیکن انہوں نے مدبرانہ سیاست کا راستہ منتخب کیا ۔ سندھ اور خصوصاً پاکستان میں قبیلہ داری سیاست غالب رہی اور انجام کار‘ متوسط اور تاجر طبقے سے تعلق رکھنے والے سیاستدان کو بھی قبیلہ داری طرز ِسیاست کی بھول بھلیوں میں پھنسنا پڑا۔ آج میاں صاحب کے حواریوں میں بھی ڈیرے دار اور گروہ بند پائے جاتے ہیں اور دھڑے بازیاں اور خونریزیاں کرنے والے بھی۔
ہم نے آزادی کے بعد اپنے سماج کو نہیں بدلا۔ بھارت کو انگریزی دور کے طرزسیاست کی باقیات اچھی حالت میں نصیب ہوئیں۔ مہاتماگاندھی‘ پنڈت جواہرلال نہرو‘ جے پرکاش نارائن‘ مولانا ابوالکلام آزاد‘ غرض سینکڑوں نام گنوا سکتا ہوں‘ جنہوں نے بھارت کے تنگ نظر اور انتہاپسند لیڈروں پر برتری حاصل کر کے‘ آئینی سیاست کو فروغ دیا۔ آج بھی بھارت کی پارلیمانی سیاست میں اصول اور آئین پسندی کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ یہاں تک کہ انتہاپسند بی جے پی کا وزیراعظم بھی‘ آئین اور اصولوں کی بات کرتا ہے۔ جبکہ ہم قبیلہ داری‘ جاگیرداری اور سرداری نظام میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ ہمارے دو بڑے سیاسی گروپوں میں سے ایک کا سربراہ آصف زرداری ہے‘ جس کی وفاداریاں اپنے قبیلے سے مستحکم ہیں اور دوسرے بڑے گروپ کے سربراہ نوازشریف ہیں‘ جو تاجروں‘ سرمایہ داروں اور زمینداروں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ بھٹو صاحب کے خاندان میں بھی ان کی جگہ لینے کا کوئی اہل نہیں تھا اور آج نوازشریف کی حالت بھی مختلف نہیں۔ بھائی اور اس کے بیٹوں پر نوازشریف اعتماد نہیں کر سکتے۔انہیںسارے خاندان میں چنائو کر کے‘ اپنی بیٹی نظر آئی۔
اقتدار کی جنگ دو خاندانوں کی تقسیم میں محدود ہو چکی ہے۔ دونوں طرف دولت کے خزانے ہیں۔ اسمبلیاں‘ عدالتیں‘ تھانے‘ سب ختم۔ اب کیا؟ واحد ابھرتی ہوئی عوامی طاقت کا نشان عمران خان ہیں۔ لیکن دولت ‘یکجا ہو کر خون کا خراج مانگنے پر اتر آتی ہے۔ طاقت کے تمام مراکز دونوں کے کنٹرول میں ہیں۔اسمبلیاں‘ عدالتیں‘ تھانے‘ سب ان کے ہیں۔ جتنے بھی سیاسی گروہ تقسیم شدہ حالت میں دکھائی دے رہے ہیں‘ سب کے سب ایک دوسرے میں مدغم ہو جائیں گے اور صرف عمران خان کاپتھر ان سب کے گلے میں اٹک کے رہ جائے گا۔ یہ اس پتھر کے ساتھ کیا کرتے ہیں؟ اور یہ پتھر ان کے ساتھ کیا کرتا ہے؟ عوام کو اس سوال کا جواب جاننے کے لئے دلخراش انتظار کرنا ہو گا۔