تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     09-07-2016

ہیرو، ہیرا پھیری اور جیل

بین الاقوامی فٹ بالر لیونل میسی نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تو ارجنٹائن اور سپین میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ دو چار سو نہیں لاکھوں کی تعداد میں...سربراہ حکومت نے اپیل کی کہ میسی ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لے‘ فٹبال کو ابھی میسی کی ضرورت ہے۔ بارسلونا کے سپر سٹار فٹبالر نے ارجنٹائن ٹیم کے فٹبال میچ ہارنے پر ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا جس پر ریاستی عہدیداروں اور عوام کو دھچکا لگا مگر ریٹائرمنٹ کے دس دن بعد سپین کی ایک عدالت نے اس سپرسٹار کو ٹیکس چوری کے الزام میں اکیس ماہ کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا‘ جبکہ میسی کا موقف تھا کہ وہ ٹیکس اخفا اور چوری میں ملوث نہیں۔
لیونل میسی کی بدقسمتی کہ وہ ایک یورپی ملک کا باشندہ ہے۔ عالمی شہرت یافتہ فٹبالر اور سپرسٹار ہونے کے باوجود قانون کی نظر میں عام شہری ہے۔ سپین کی اعلیٰ عدالت نے میسی کا یہ موقف قبول نہیں کیا کہ اُسے یوراگوئے اور بلیزے میں ٹیکس گزاروں کی جنت کے بارے میں علم نہیں تھا اور اُس نے اپنے طور پر دولت چھپا کر کوئی غیر قانونی قدم نہیں اٹھایا۔ سپین کی عدالت نے میسی کو سزا دے کر سپین اور ارجنٹائن کے شہریوں کو یہ باور کرایا کہ کسی شخص کی شہرت‘ مقبولیت اور کسی شعبے میں غیر معمولی اہلیت و صلاحیت کے علاوہ ملک و قوم کے لیے خدمات کا یہ مطلب نہیں کہ اُسے قانون توڑنے‘ اپنے فرائض سے پہلوتہی کرنے اور خیانت مجرمانہ کا مرتکب ہونے کا حق حاصل ہے اور وہ عوام کی محبت و وابستگی کا فائدہ اٹھا کر سزا سے بچ سکتا ہے۔
پاناما پیپرز میں حکمران خاندان کی آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہوا تو شریف برادران کے نمک خواروں اور حاشیہ برداروں نے کبھی ان کی خدا ترسی‘ سخاوت اور عوام دوستی کا ڈھنڈورا پیٹا‘ کبھی عوامی مینڈیٹ کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا اور کبھی بھٹو اور پرویز مشرف دور میں اس خاندان پر ڈھائے جانے والے مبینہ مظالم پر سینہ کوبی کی ‘ تحقیقات کا مطالبہ کرنے والوں کو بھی اسی طرح کے جرائم کا مرتکب قرار دیا۔ آئس لینڈ کے وزیراعظم نے استعفیٰ دیا اور ڈیوڈ کیمرون نے پارلیمنٹ میں اپنے والد کی آف شور کمپنی سے اظہار برأت کیا تو ان میں سے کسی نے مان کر نہیں دیا کہ ہمارے وزیراعظم کو بھی اپنے ہم منصبوں کی پیروی کرنی چاہیے۔ انہی دنوں حکومت کے ناقدین نے آئس لینڈ کے وزیراعظم کو مظلوم قرار دیا کہ بے چارہ پاکستان میں ہوتا تو اس انجام سے بچ جاتا یا کم از کم اپنے مشیروں اور میڈیا منیجروں میں کسی طلال چوہدری‘ دانیال عزیز اور عابد شیر علی کو شامل ضرور کرتا ۔ میسی کو سزا ہوئی تو سوشل میڈیا پر پھر بحث چھڑ گئی کہ یہ سپرسٹار اگر پاکستان میں ہوتا تو ٹیکس چوری کا الزام لگنے پر صورتحال کیا ہوتی؟ کسی کا خیال ہے کہ وہ پارلیمنٹ کا رکن بن جاتا اور پھر تفیتش کاروں کا وہی حشر ہوتا جو ایان علی کے تفتیش کار اعجاز کا ہوا۔ کوئی یہ دور کی کوڑی لایا کہ میسی کے پرستار اور دیوانے سزا دینے والی کورٹ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے جس طرح 1997ء میں چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کے کوٹ روم کی بجی‘ جبکہ بعض دل جلوں کو وہ مسلمان حکمران یاد آئے جو قانون کی حکمرانی کے قائل اور عدل و انصاف پر مبنی پاکیزہ معاشرہ کی تشکیل کے علمبردار تھے۔ حضرت علیؓ کرم اللہ وجہہ الکریم کے طور پر عدالتوں میں عام سائل کی طرح حاضر ہونے کے خوگر‘ حضرت عمرؓ کی طرح عُمّال حکومت‘ اہل خانہ اور طاقتور خاندانوں کو قانون کے سامنے سرنگوں رکھنے کے عادی۔ حضرت عمرؓ نے اپنے ایک گورنر کو محض اس بنا پر تبدیل کر دیا کہ اُس کے بیٹے نے ایک مصری شہری کی پٹائی کی اور کہا کہ میں بڑوں کی اولاد ہوں۔ امیر المومنین نے مصری شہری کو کوڑا پکڑایا اور گورنر کے صاحبزادے کو مارنے کا حکم دیا۔ کوڑا پڑتا تو آپ فرماتے ''بڑوں کی اولاد کو مار‘‘ جب مصری نے بدلہ لے لیا تو آپ نے اس سے کہا کہ گورنر عمرو بن العاصؓ کے سر پر بھی کوڑا برسا ''اللہ کی قسم! گورنر کا بیٹا ہرگز تجھے نہ مارتا اگر اُسے اپنے باپ کے اقتدار کا گھمنڈ نہ ہوتا‘‘۔
ماں باپ کے اقتدار کا گھمنڈ اور عزیز و اقارب‘ دوست احباب کا پاس لحاظ ایسی بیماریاں ہیں جس نے صرف پاکستان ہی نہیں اکثر و بیشتر مسلم ممالک کو تباہی کے کنارے پر لاکھڑا کیا ہے۔ وسائل کی لوٹ مار اپنی جگہ مگر عہدہ و مناصب کی بے جا بندر بانٹ اور امانت میں خیانت کے کلچر نے سیاسی‘ سماجی‘ معاشی اور اقتصادی نظام کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ عدل و انصاف اور قانون و مساوات کے الفاظ اجنبی ہو گئے ہیں اور سماجی اونچ نیچ نے خوفناک شکل اختیار کر لی ہے۔ سپین اور ارجنٹائن کے سپرسٹار کو اس وقت سزا ملی جب لاکھوں عوام سڑکوں پر اس کے حق میں نعرے لگا رہے تھے مگر کسی نے عدالت سے احتجاج کیا نہ سزا منسوخ یا معاف کرنے کا مطالبہ ۔جانتے ہیں کہ عدل و انصاف کے بغیر ان کا معاشرہ برقرار نہیں رہ سکتا ہے۔ حضرت علیؓ کرم اللہ وجہ الکریم کے بقول عدل پر مبنی کفر کی ریاست تو نشودنما پا سکتی ہے ناانصافی کی خوگر مسلم حکومت نہیں۔ ہمارے ہاں حکمران ہوں‘ دانشور یا تجزیہ کار و مصنف ‘تمیز بندہ و آقا کے غلامانہ اور موذی مرض میں مبتلا ہیں اور لینے کے اور دینے کے اور باٹ ان سب نے اٹھا رکھے ہیں۔ غریب اور کمزور کے لیے یہ قانون پر سختی سے عملدرآمد کے عادی ہیں مگر امیر اور طاقتور کے لیے قانون کو موم کی ناک سمجھتے ہیں۔ جب چاہا مرضی سے موڑ توڑ لیا۔ عہدوں کی تقسیم ہو یا عہدیداروں کا تقرر یہ دیکھ کرکیا جاتا ہے کہ کون کس کا تابعدار‘ وفادار اور اطاعت گزار ہے۔ یہی منصب دار بعدازاں حق نمک خوش اسلوبی سے ادا کرتے ہیں‘ جبکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ''جس شخص کو عام مسلمانوں کے معاملات کی ذمہ داری سونپی گئی پھر اُس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی اور تعلق کی بنا پر صلاحیت و اہلیت معلوم کئے بغیر دے دیا تو اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے، نہ اس کا فرض قبول نہ نفل۔ یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہو‘‘۔ رہا قومی خزانہ تووہ حکمرانوں کے لیے حلوائی کی دکان ہے جہاں نانا جی کی فاتحہ پڑھنے میں مزا آتا ہے اور ثواب دُگنا۔ لوٹ مار روا ہے تو ٹیکس چوری‘ منی لانڈرنگ اور اقربا پروری کیسے جُرم ہو سکتی ہے۔ 
ایسا نہیں کہ پورا عالم اسلام ہی اس مرض میں مبتلا ہے اور ہر جگہ ناانصافی‘ اقربا پروری اور ظلم و زیادتی کا دور دورہ ہے۔ چند ماہ قبل ترکی کے اخبارات میں صدر طیب اردوان کے بھائی کی تصویر شائع ہوئی جو پھلوں کی دکان پر گاہکوں کا منتظر ہے۔ بااختیار صدر نے اسے کسی صوبے کا وزیراعلیٰ اور گورنر لگایا نہ کسی خودمختار ادارے کا سربراہ اور نہ اپنا جانشین مقرر کیا۔ حتیٰ کہ پھلوں کو ایکسپورٹ اور امپورٹ کرنے کا لائسنس بھی نہیں دیا۔ پاکستان البتہ اس لحاظ سے بدنصیب ہے کہ یہاں یہ امراض خوب پھل پھول رہے ہیں اور ان کی نشاندہی بھی جرم سمجھی جانے لگی ہے۔ جونہی کوئی میسی کی مثال دے کر عدل و انصاف کی عملداری کا مطالبہ کرتا ہے جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے اور عدل و انصاف‘ قانون و مساوات پر مبنی حقیقی جمہوریت کے نفاذ اور موجودہ آدم خور نظام سے نجات کا مطالبہ کرنے والوں کو آمریت کا حامی قرار دے کر دوڑو‘ پکڑو جانے نہ پائے کا شور مچ جاتا ہے۔ رہے اس ظالمانہ نظام کا نشانہ بننے والے عوام تو وہ بھی خاموشی کو بہترین پالیسی سمجھتے ہیں۔
حضرت امام زین العابدینؓ نے ایک بار فرمایا تھا : ''مجھے اتنی تکلیف کربلا میں نہیں ہوئی جتنی کوفہ والوں کے خاموش رہنے پر ہوئی‘ کوفہ ایک شہر نہیں بلکہ خاموش اُمت کا نام ہے جہاں پر ظلم ہو اور لوگ خاموش رہیں وہ جگہ کوفہ اور وہ لوگ کوفی ہیں‘‘۔
لیونل میسی ٹیکس چوری اور اثاثے چھپانے پر اکیس ماہ جیل میں رہیں گے‘ جبکہ پاکستان میں اثاثے چھپانے اور ٹیکس چوری کرنے والوں کے لیے پارلیمنٹ و اقتدار کے دروازے چوپٹ کھلے ہیں۔ انہیں اپنے کیے کی پاداش میں کبھی کسی چھوٹی موٹی آزمائش سے گزرنا پڑے تواسے عوامی مقبولیت سے خائف مقتدر قوتوں کی سازش اور سلطانی جمہور کے خلاف ریشہ دوانی قرار دیا جاتا ہے، اپنی غلطی کا شاخسانہ کبھی نہیں۔لوگ خواہ مخواہ یوراگوئے‘ پاناما‘ ورجن آئی لینڈ اور سوئزرلینڈ کو دولت مندوں‘ ٹیکس چوروں‘ لٹیروں اور مجرموں کی جنت سمجھتے ہیں پاکستان کی قدر نہیں کرتے جہاں کبھی کوئی پکڑا نہیں جاتا بلکہ مجرم ہیرو قرار پاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved