تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     09-07-2016

نوجوانوں کے طفیل

میں اکثریتی مسلک کے گھرانے میں پیدا ہوا تھا اور 1979ء میں مستقل طور پر امریکہ منتقل ہونے تک لاہور کی ایک درگاہ کا متولی تھا۔ اگلے سال میں نے درگاہ میں شامل تین مکانوں کی چابیاں ایک خط کی طشتری میں رکھ کر پنجاب کے محکمہ اوقاف کو پیش کیں تو اطلاع ہونے پر مولانا کوثر نیازی مرحوم‘ جو پاکستان کے وزیر اوقاف رہے تھے‘ ناراض ہوئے۔ میری بیوی بتاتی ہے کہ وہ اپنی بڑی بہن کی انگلی پکڑ کر ہر سال محرم کی مجالس میں شرکت کے لئے مزنگ سے اندرون شہر جایا کرتی تھی۔ اب دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی کی کوئی خبر '' بریک‘‘ ہو تو اس کا پہلا رد عمل یہ ہوتا ہے: 'خدا کرے اس میں کوئی مسلمان ملوث نہ ہو‘۔ جب اسے پتہ چلتا ہے کہ واردات میں ملوث افراد کے ناموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمان ہی تھے تو وہ دل مسوس کر رہ جاتی ہے اور جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ حملہ آور نہ صرف مسلمان بلکہ پاکستانی تھے تو وہ سر پیٹ لیتی ہے۔ ہماری اولاد تین بیٹے ہیں‘ جو ایک اعتدال پسندانہ ماحول میں تعلیم پا کر جوان ہوئے اور نیو یارک شہر کے ڈاکٹر اعجاز قریشی‘ جو سکارز ڈیل اسلامک سنٹر کے صدر رہے ہیں‘ کہتے ہیں کہ مغرب میں اسلام انہی کے دم قدم سے قائم ہوا اور انہی کی بدولت پھیلے گا۔
مشرق وسطیٰ کی انتہا پسند تنظیمیں بھی زیادہ انحصار انہی نوجوانوں پر کرتی ہیں۔ ان کی بود و باش مغربی ہے۔ وہ مغربی لباس پہنتے ہیں۔ انگریزی‘ فرنچ یا کوئی اور یورپی زبان روانی سے بولتے ہیں اور ان کی چرب زبانی سے متاثر ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک مثال انورالعولاقی کی دی جا سکتی ہے جو امریکی ریاست نیو میکسیکو میں پیدا ہوا تھا۔ کولوریڈو سٹیٹ یونیورسٹی اور سین ڈیگو یونیورسٹی سے تعلیم پائی تھی۔ ایک شاندار کیریئر اس کے سامنے تھا۔ انٹرنیٹ پر کام کرتے ہوئے وہ ان تنظیموں کے بھرتی کاروں کے ہتھے چڑھا۔ مشرق وسطیٰ کے لوگوں جیسا پہناوا اختیار کیا‘ ایک گول عینک بالوں سے بھرے چہرے پر لگائی اور اپنے آبائی وطن یمن جا کر پرچار کرنے لگا۔ یہاں تک تو اس کا طرز عمل امریکی قوانین کے مطابق تھا‘ مگر جب اس نے ہم وطنوں کے قتل کا حکم دیا تو قوانین آڑے آئے۔ وہ ایک ڈرون حملے میں مارا گیا۔ اس کے ساتھ ایک پاکستانی مصنف سمیر خان اور سولہ سالہ بھائی عبدالرحمن العولاقی ہلاک ہوئے‘ جو بدیہی طور پر بے گناہ تھے۔ امریکن سول لبرٹیز یونین نے موجودہ وزیر دفاع کے پیشرو لی آن پنیٹا پر دعویٰ دائر کیا جو رد کر دیا گیا۔
پاکستان میں طالبان کے امیر ملا اختر منصور کے ایک ڈرون حملے میں مارے جانے کے بعد ٹیکسی ڈرائیور محمد اعظم کے بھائی نے امریکی عہدے داروں کے خلاف ایک پاکستانی عدالت میں استغاثہ دائر کیا‘ جس کا انجام امریکی عدالت کے فیصلے کے منافی ہونے کا امکان کم ہے۔ استغاثہ کے مطابق اعظم اپنے تین بچوں اور بیوی کا واحد کفیل تھا۔ اسے صرف اتنا ہی معلوم تھا کہ اس کی سواری ایک پاکستانی ولی محمد ہے‘ جسے وہ تفتان بارڈر سے اٹھا کر کوئٹہ لے جا رہا ہے‘ وہ ہرجانے کا حقدار ہے۔ یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ اعظم کا مقدمہ‘ پاکستان نے کیوں قائم نہ کیا؟ ہمارا دفتر خارجہ اسے بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے کر کیوں نہ گیا؟؟ جواب آیا کہ امریکہ تو بین الاقوامی عدالت کو تسلیم ہی نہیں کرتا‘ مبادا دنیا کے مختلف ملکوں میں اس کے فوجی اقدامات کے خلاف پنڈورا بکس کھل جائے۔ اس کے نزدیک یہ اس اجتماعی زیاں کا شاخسانہ تھا‘ جسے بادلِ نخواستہ قبول کرنے کا سمجھوتہ جنرل پر ویز مشرف (حکومت پاکستان) کے ساتھ ہو چکا تھا۔ امریکہ نے غالباً پاکستان کو بچانے کی خاطر یہاں تک کہا کہ حملہ افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر کیا گیا‘ اور اس کا ہدف طالبان کا لیڈر تھا۔ احمدوال (نوشکی)‘ جہاں میزائل داغے گئے‘ ستر کلومیٹر بلوچستان کے اندر ہے‘ اور یہ پہلا موقع ہے کہ حملہ فاٹا سے باہر پاکستان کے طے شدہ علاقے پر کیا گیا اور اس میں سی آئی اے کی بجائے فوج سے کا م لیا گیا۔
سمیر ابن ظفر خان جدہ میں پیدا ہوا تھا۔ اس کے والدین پا کستان سے آئے تھے۔ جب سعودی شہریت کے ملنے کی امیدیں ماند پڑ گئیں تو امریکہ منتقل ہوئے۔ سمیر نے کوئینز نیو یارک کا ایک ہا ئی سکول پاس کیا۔ ہم جما عت کہتے ہیں کہ اس نے ملک کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھانے سے انکار کیا اور نو گیارہ کا الزام امریکیوں کو دیا۔ خاندان بہتر مستقبل کی تلاش میں نارتھ کیرولائنا پہنچا تو سمیر نے شارلٹ کے ایک کمیونٹی کالج میں داخلہ لیا۔ درس گاہ میں اسے لکھنے کی اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کا موقع ملا مگر اس نے انٹرنیٹ پر ایسے مضامین لکھے: ''اپنی ماں کے باورچی خانے میں ایک بم بناؤ‘‘ ''مجھے امریکہ کا غدار ہونے پر فخر ہے‘‘ ''انشااللہ شہید‘‘۔ علاوہ ازیں اس نے خود کش حملے کی تربیت کی دشواریوں پر قابو پانے کا ایک ''ہدایت نامہ‘‘ تحریر کیا‘ جسے القاعدہ نے ہاتھوں ہاتھ لیا‘ اور وسیع پیمانے پر اپنی صفوں میں تقسیم کیا۔ اس نے Ticking Time Bomb کے نام سے ایک کتاب لکھی‘ جس میں مغرب کی ایک فوجی چھاؤنی میں ماہر نفسیات میجر ندال حسن کی جانب سے قتل عام روکنے میں امریکی حکومت کی ناکامی کے اسباق اخذ کئے گئے تھے۔ اسی گائیڈ میں سعودی عرب کو برائی کے جنات کے ساتھ رقص کرتے دکھایا گیا‘ اور امریکہ کے اندر حملوں کی تلقین کی گئی۔ چھتیس سال کی عمر میں موت کے وقت وہ انتہا پسند جماعت کے جریدے Inspire کا ایڈیٹر تھا۔ کنبے کے ایک دوست نے ایک خبری ادارے کو بتایا کہ سمیر کے والد بیٹے کے خیالات سے متفق نہیں تھے اور کئی مواقع پر ان خیالات کو بدلنے کی مدد چاہی تھی۔
یہ سوال اب تک حل طلب ہے کہ نوجوان اس ملک میں پلتے بڑھتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم پاتے ہیں۔ بڑی نوکری حاصل کرتے ہیں۔ شادی کرتے ہیں۔ امریکی رواج کے مطابق ایک دو بچے پیدا کرتے ہیں۔ گھر خریدتے ہیں۔ مارگیج حاصل کرتے ہیں اور پھر دھماکہ کرکے یا گولی چلا کر لمبی مدت کے لئے قید ہوتے ہیں یا الیکٹرک چیئر میں مر جاتے ہیں۔ وہ سب ہم وطنوں سے نفرت کرتے ہیں یہاں تک کہ ہم مذہب لوگوں سے بھی۔ شاید اس وجہ سے کہ وہ اپنے مذہب اور مسلک کو دوسروں کے عقیدے سے زیادہ اہم خیال کرتے ہیں۔ سعودی عرب میں ایک ہی دن تین مختلف مقامات پر خونریز حملے اس کا بیّن ثبوت ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ تمام مذاہب اساطیر سے بنتے ہیں۔ ایک مثال ٹمتھی میکوے کی دی جا سکتی جسے موجودہ صدی کے شروع میں موت کی سزا دی گئی۔ وہ ایک رومن کیتھولک مسیحی تھا اور خلیج کی جنگ کا ہیرو۔ اس نے ایک خانہ ساز بم چلا کر اوکلاہوما سٹی کی ایک وفاقی عمارت تباہ کر دی تھی اور 168 افراد کو ہلاک کیا تھا‘ جو نائن الیون کے بعد امریکہ میں دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ تھا۔ شمالی امریکہ اور یورپ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ امریکہ میں دائیں بازو کے ہزاروں انتہا پسند دو صدیوں سے کھل کھیلتے رہے ہیں مگر بتدریج انہوں نے اپنے عقائد کی اصلاح کی۔ پہلی بار ایک سیاہ فام کو‘ جس کا وسطی نام مسلمانوں سے ملتا جلتا تھا‘ اس ملک کا صدر چنا اور اب امریکی عوام پہلی بار ایک عورت کو ملک کا سربراہ اور کمانڈر انچیف منتخب کرنے کے موڈ میں ہے۔ حال ہی میں ایک مسلمان‘ لندن کا میئر منتخب ہوا۔ مشرق وسطیٰ کے لاکھوں مہاجرین اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر ان دو براعظموں کا رخ کر رہے ہیں۔
ملا اختر منصور کی میت‘ افغانستان میں اس کے لواحقین کے حوالے کر دی گئی ہے‘ اور اعظم کے بھائی نے امریکی حکام کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرا دیا ہے۔ دریں اثنا کانگرس نے بھی پندرہ سال بعد نائن الیون سے متاثرہ امریکیوں کو سعودی حکام کے خلاف نالش کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ ان بین الاقوامی مقدمات کا انجام مشکوک ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved