تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     09-07-2016

بے قصوروں کو معاوضہ کیوں نہیں؟

گجرات کے اکشر دھام مندر پر 2002ء میں ایک دہشتگردانہ حملہ ہوا تھا۔ اس سلسلے میں گجرات سرکار نے کئی لوگوں کوگرفتار کر لیا تھا۔ دس گیارہ سال وہ لوگ گرفتار رہے، ان پر مقدمہ چلتا رہا۔ مقدمے میں چھ لوگوں کو عدالت نے بے قصور پایا اور انہیں رہا کر دیا۔ ان چھ لوگوں کی طرف سے سپریم کورٹ میں درخواست لگائی گئی، انہوں نے مانگ کی کہ ہماری زندگی کے دس برس برباد ہوئے، ہمیں معاوضہ دیا جائے۔ عدالت نے ان کی درخواست رد کر دی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اگر اس طرح مقدمہ جیتنے والوں کو معاوضہ ملنے لگا تو سرکار کی بدھیا ہی بیٹھ جائے گی۔ انہیں انصاف مل گیا ‘کیا یہ کافی نہیں ہے؟
عدالت کی بات ایک طرح سے صحیح ہے کیونکہ جتنے لوگ پکڑے جاتے ہیں ان میں سے زیادہ تر بے قصور ہی ثابت ہوتے ہیں۔ پہلے تو ان بے قصوروں کو جیل میں رکھو، انہیں کھانا‘ کپڑا ‘مکان اور دوا دواور پھر چھوٹنے پر معاوضہ دو‘ بھلاسرکار کا تو دیوالیہ ہی پِٹ جائے گا۔ ملکی کرائم ریکارڈ بیوروکے مطابق 2014 ء میں گرفتار لوگوں میں سے صرف 45 فیصد لوگوں پر جرم ثابت ہوا۔ 55 فیصد چھوٹ گئے۔ 2013 ء میں 40.2 فیصداور 2012 ء میں صرف38.5 فیصد لوگوں کو ہی سزا ہوئی یعنی 60اور 61 فیصدی لوگ بے قصور تھے۔ عدالت کی مجبوری ہم ان آنکڑوں سے سمجھ سکتے ہیں۔
لیکن ہماری رائے یہ ہے کہ عدالت کی سوچ غلط ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بھارت کے شعبہ پولیس کی تگڑی مرمت ہونی چاہیے تاکہ وہ بے قصور لوگوں کو کم سے کم پکڑے۔ جنہیں پکڑے ‘ان کے خلاف ٹھوس ثبوت جٹائے۔ بعض مرتبہ پیسہ لے کر ثبوت مٹا دیے جاتے ہیں۔ اس لیے جو لوگ بے قصور ثابت
ہوں‘ انہیں معاوضہ دیتے وقت متعلقہ پولیس والوں سے بھی پیسے وصولے جائیں۔ مقدمہ چلانے والی سرکار معاوضہ چکائے۔ بھارت کے عدالتی سسٹم کو بھی بدلا جائے۔کوئی بھی مقدمہ سال بھر سے زیادہ نہیں لٹکایا جائے۔ دیر سے دیا گیا انصاف ناانصافی ہی ہے۔ عدالت کا سارا کام کاج ملکی زبان میں ہی ہو ۔کسی بھی بے قصور آدمی کو جیل میں میں پٹکے رکھنے سے بڑی ناانصافی کیا ہوگی؟ یہ تو انصاف کا مذاق ہے۔ اس بے قصور آدمی کو آپ جائز معاوضہ دینا چاہیں تو بھی نہیں دے سکتے۔ اس کا گیا وقت لوٹانے کی ہمت سرکار میں کیا ‘ خدا کا قانون بھی ایسا نہیں ہے۔ اسی لیے عدالتوں اور سرکاروں کو بے قصوروں کے معاوضے کا کوئی نہ کوئی انتظام ضرورکرنا چاہیے۔
ساسو چھوٹی اور بہو بڑی
مودی کی وزراء کابینہ میں اضافہ ہوگیا۔ 64 کے 83 ہوگئے۔ اب اس سے بھی زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے کیا؟ یعنی ' زیادہ سے زیادہ گورنمنٹ‘ تو ہوگئی۔ اب یہ بتائیں کہ 'گورننس‘ کا کیا حال ہے؟ کیا گورننس بھی 'میکسیمم ‘ ہوئی ہے؟ مودی نے نعرہ دیا تھا کہ ہم 'منیمم گورنمنٹ اور میکسیمم گورننس‘ کی روایت چلائیں گے یعنی ہم تھوڑی سرکار اور زیادہ حکومت چلائیں گے ۔ مطلب' ساسو چھوٹی اور بہو بڑی‘ ہوگی، لیکن اس کابینہ میں اضافے کے بعد ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ ساسو اب پھر بڑی ہو گئی ہے اور بہو چھوٹی رہ گئی ہے۔ مودی کی کابینہ من موہن کی کابینہ سے بھی بڑی ہو گئی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ پرکاش جاوڑیکر کی پرفارمنس ٹھیک رہی اور جو نئے 19 ارکان چنے گئے ہیں ‘ان میں سے تین چار تو پورے وزیر ہونے کے لائق ہیں۔ زیادہ تر وزیر ایسے ہیں جن سے اچھے کام کی توقع کی جاسکتی ہے۔ یہ نوجوان اور لائق وزیر چاہیں تو اپنے بزرگ ساتھیوں کی کافی مدد کر سکتے ہیں لیکن خاص سوال یہ ہے کہ بھاجپا کے 64 منجھے ہوئے اور بزرگ وزیر گزشتہ دو برس میں خاص کچھ مظاہرہ نہیں کر سکے تو یہ نئے وزراء کون سا فلک جھکا دیں گے؟ ان کے ہاتھ میں کون سی جادوکی چھڑی ہے کہ وہ مودی سرکار کے کام کاج میں کوئی کرشمہ کر دیں گے؟ مودی سرکار میں مودی سے بھی زیادہ تجربہ کار اور قابل لوگ ‘جو وزیر لوگ ہیں ‘ان کی حالت کیا ہے؟ کیا وہ اپنی پالیسی بنانے میں خودمختار ہیں؟ کیا ان کی صلاحیتوں کا پورا استعمال ہو رہاہے؟ کیا انہیں وہ عزت مل رہی ہے جن کے وہ حقدار ہیں؟ ان کے چہرے بجھے بجھے رہتے ہیں‘ ان کا وزن کم ہوگیا ہے اور وہ خاموش رہنے میں ہی اپنا بھلا سمجھتے ہیں۔ سرکار پر نوکرشاہوں کا قبضہ ہوگیا ہے۔ پارٹی اور سرکار پر گجرات کا شکنجہ کسا ہوا ہے۔ بھاجپا پر ایسی نوبت کبھی پہلے نہیں آئی تھی۔ ہم کانگریس کو پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کہتے کہتے تھک گئے۔ اسے ماں بیٹا پارٹی کہہ ڈالا۔ اب بھاجپا کا کیا حال ہے؟ یہ بھائی بھائی پارٹی بن گئی ہے۔ دلی میں سوں چھے؟ نریندر بھائی چھے اور امیت بھائی چھے ! دونوں بھائیوں کی نظر صوبائی چنائو پر ہے۔ اب اتر پردیش اور پنجاب وغیرہ بھی کہیں بہار اور دلی کے راستے پر نہ چل پڑیں۔ اس لیے اس اضافے میں اس کا دھیان رکھا گیا ہے لیکن کروڑوں ووٹرز اب ذات اور مذہب سے متاثر ہونے والے نہیں ہیں۔ انہیں وفاقی سرکار کے ٹھوس کام کاج کے نتائج کا انتظار ہے۔ تاش کے کچھ پتے اِدھر اُدھرکرنے یا ان کی تعداد بڑھانے سے عام عوام کو کیا مطلب ہے؟
صدر اور زبانی غلامی
ہریانہ کے پانچ گائوں کو صدر مملکت پرناب مکھرجی نے گود لیا ہے تاکہ انہیں 'آدرش گرام‘ بنایا جا سکے۔ ان گائوں سے ایک ایک سرپنچ اور دودو ذمہ دار لوگوں کوصدارتی ہائوس بلایا گیا۔ یعنی یہ پندرہ دیہاتی جب صدارتی ہائوس پہنچے تو ان کے ٹھاٹھ باٹ دیکھ کرحیران رہ گئے۔ شاید ان میں سے پہلے کوئی بھی وہاں نہیں گیا۔ وہاں جتنے بھی پروگرام ہوئے‘ وہ انہیں کی زبانوں میں ہوئے جنہوں نے یہ صدارتی ہائوس بنایا تھا یعنی انگریزی زبان میں۔ بیچارے دیہاتیوں کے کچھ پلے نہیں پڑا۔ صدر صاحب کیا بولے ‘ صدارتی محل دکھاتے ہوئے گارڈ کیا بڑبڑاتا رہا اور افسر لوگ کیا گٹ پٹ کرتے رہے‘ کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ جب سوال ہی سمجھ میں نہ آئے تو وہ جواب کیا دیتے؟ بیچارے چپ چاپ سنتے رہے۔ اوبتے رہے لیکن ہریانہ تو چوہدریوں کا ملک ہے۔ وہ کسی کو بھی ضرورت سے زیادہ نہیں بخشتے۔ وہ بول پڑے۔ افسروں کو افسو س ہو ا۔ انہوں نے قسم کھائی کہ ان دیہاتیوں کے ساتھ ساری بات چیت اب ہندی میں ہوگی۔
آخر صدارتی ہائوس ایسی بھول کیسے کر سکتا ہے؟ صدارتی ہائوس میں میں نے سینکڑوں بار لذیذ کھانے کھائے ہیں لیکن گزشتہ پچاس برس میں ایک بھی موقع یاد نہیں پڑتا جب ہمارے صدر نے خطاب ہندی میں کیا ہو جبکہ غیر ملکی صدور یا وزرائے اعظم ہمیشہ اپنی تقریر اپنی قومی زبان میں کرتے ہیں۔ جن صدور کی مادری زبان ہندی رہی ہے، وہ اپنے آپ کو انگریزی غلامی سے نجات نہیں دلوا سکے۔ پرناب کا تو کہنا ہی کیا! انہیں دلی آئے چالیس برس سے زیادہ ہوگئے لیکن انہیں ہندی کے چار جملے بولنے میں بھی زور پڑتا ہے۔ انہوں نے ساری زندگی دربار داری میں گزاری۔ ان کا پبلک ریلیشن زیرو رہا۔ ان کے علاوہ بھی چار پانچ صدر ایسے ہوئے ہیں جن کی مادری زبان ہندی نہیں تھی لیکن مجھ سے لگ بھگ سبھی صدور نے ہمیشہ ہندی میں بات کرنے کی کوشش کی! کے آرنارائن جی ملیالی تھے اور پہلے وزارت خارجہ میں رہے تھے لیکن وہ بھی سدا مجھ سے پہلے ہندی میں بات کرتے تھے۔ پرناب دا سے درجنوں بار ملنا ہوا‘ ان کے منہ سے کبھی ہندی کا ایک جملہ نہیں سنا ۔ جب بابارام دیو اور مجھ سے ملنے کے لیے2010ء میں وہ دلی ہوائی اڈے پر آئے تو رام دیوجی پر بھی انہوں نے انگریزی جھاڑی۔ مجھے ترجمہ کرنا پڑا۔ اب ریٹائر ہوتے ہوتے بھی ہمارے عزت مآب صدر تھوڑی تھوڑی ہندی بولنے لگیں تو وہ اپنے عہدے کی شان بڑھائیںگے۔ ان کی دیکھا دیکھی دیگر وزراء اور افسر بھی زبانی غلامی سے شاید آزاد ہونے کی کوشش کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved