آج عید کا تیسرا دن ہے۔ صبح جب سیر کے لیے نکلتا ہوں تو دروازہ کھلتے ہی تر وتازہ ہوا کا ایک جھونکا استقبال کرتا ہے، لیکن آج تو ہوا کا نام و نشان بھی نہیں تھا‘ ایک ایسی گھٹن تھی کہ دیکھی نہ سنی۔ پیڑ پودوں کا بھی جیسے دم گھٹ رہا تھا۔ یہ نہ صرف آکسیجن پیدا کرتے ہیں بلکہ اس کی انہیں خود بھی ضرورت ہوتی ہے جو پوری نہیں ہو رہی تھی۔ کوئی پتا تک نہیں ہل رہا تھا۔ ایک شاخ ذرا سی ہلی تو ہوا کا شائبہ سا ہوا لیکن اس کا سبب بھی یہ تھا کہ ایک چڑیا وہاں سے اڑی تھی جس سے یہ ارتعاش پیدا ہوا۔ چھوٹا پرندہ جب آ کر شاخ پر بیٹھتا ہے تو اس میں کوئی جنبش نہیں ہوتی‘ لیکن اڑتے وقت وہ تھوڑے سے جھٹکے سے اٹھتا ہے تو شاخ ہلتی ہے اور ہوا کا دھوکا سا ہوتا ہے۔ ایسی ہی صورتحال میں کبھی یہ شعر کہا تھا ؎
ہے یہاں عکس ہوا بھی نایاب
شاخ تو آپ ہی لرزی ہے میاں
اسی غزل کے کچھ اور شعر بھی یاد آ رہے ہیں:
خیر‘ جعلی ہے کہ فرضی ہے میاں
رکھ تو لو‘ وصل کی عرضی ہے میاں
جو بلاہم پہ ہوئی ہے نازل
وہ سماوی ہے نہ ارضی ہے میاں
خود ہی سی لیتے ہیں‘ دھو لیتے ہیں
بیوی دھوبن ہے تو درزی ہے میاں
شعر کچّا بھی نکل جاتا ہے
ساری اللہ کی مرضی ہے میاں
اور یہ شعر تو چند روز پہلے ایک خانہ پری میں پیش کر ہی چکا ہوں ؎
رہی کچھ اتنی وسائل کی ہی کمی ‘ ورنہ
پتنگ ہم بھی اڑاتے اگر ہوا ہوتی
ظاہر ہے کہ یہ ہوا کوئی اور ہی تھی... جن دوستوں کی طرف سے عید مبارک کے میسج آئے‘ انہیں بھی عید کی خوشیاں مبارک ہوں۔ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ میں میسج کھول تو سکتا ہوں‘ یعنی اتنا بھی نالائق نہیں ہوں‘ لیکن کر نہیں سکتا‘ اوراگر کوئی بہت ہی ضروری ہو اورکرنا پڑ بھی جائے تو اپنے اٹنڈنٹ لڑکے کی مدد حاصل کرتا ہوں‘ جو ویسے تو تقریباً جاہل ہے لیکن یہ کام کر لیتا ہے۔ اب سوچا ہے کہ یہ ہنر میں بھی سیکھ ہی لوں کہ آدمی کسی بات کا ارادہ کر لے تو ناممکن کو بھی ممکن بنا دیتا ہے۔ سو‘ یہ پہاڑ بھی سر کر لیں گے‘ اس کی ایسی کی تیسی۔ واضح رہے کہ مذکورہ لڑکا عید کی چھٹیوں پر اپنے گائوں گیا ہوا ہے۔
ان میں ایک میسج بہاولپور سے شاعرہ شگفتہ الطاف کا بھی تھا جس کے کناروں پر پھول وغیرہ بنے ہوئے تھے۔ ان سے کوئی آٹھ دس سال پہلے غالباً فیصل آباد کے ایک مشاعرے میں ملاقات ہوئی تھی اور وہ اسم بامسمیٰ تھیں‘ یعنی اپنے نام ہی کی طرح شگفتہ و شاداب‘ لیکن کوئی دو سال بعد انہیں بہاولپور کے ایک مشاعرے میں دیکھا تو بہت افسوس ہوا کہ اتنی مرجھائی ہوئی تھیں کہ میں پہلے تو پہچان ہی نہ سکا۔ بہرحال‘ ان سے وعدہ لیا کہ جیسے بھی ہو‘ پہلے ہی جیسی ہو جائیں‘ اب پتا نہیں کہ موصوفہ نے وہ وعدہ پورا کیا ہے یا نہیں۔
ہوا کی یہ کمی اس لیے بھی زیادہ محسوس ہوئی کہ پچھلے دنوں ایک بہت ہی ہوا دار صبح سے لطف اندوز ہو چکا تھا بلکہ اس کا ذکر بھی کر چکا تھا۔ حالت یہ ہے کہ ایک پھننگ پر ایک پتا ذرا سا ہلا تو تعجب ہوا۔ پھر اس کے ساتھ ہی ایک اور پتا نکل آیا۔ ابھی حیران ہی ہو رہا تھا کہ اتنی جلدی ایک اور پتا کیسے نکل سکتا ہے‘ لیکن جب دونوں پتے پُھرر کے اڑ گئے تو معلوم ہوا کہ ہری چڑیاں تھیں۔ نظر اتنی تو کمزور نہیں ہے لیکن ابھی اتنا اجالا بھی تو نہیں ہوا تھا‘ پھر بھی ع
غلطی کی کہ جو کافر کو مسلماں سمجھا
اس عید پر شہر تو جانا ہوا ہی نہیں کہ بچے سب کے سب یہیں اکٹھے ہو گئے تھے اورخوب رونق لگی رہی کہ عید تو بچوں ہی کے ساتھ ہوتی ہے اور چونکہ بارش اور عید دونوں آپس میں گڈ مڈ ہو گئی تھیں سو‘ ایک عدد قطعہ بھی نازل ہو گیا:
دوڑایا ملاقات کا گھوڑا تھوڑا
تھا اُدھر بھی انتظار تھوڑا تھوڑا
اس بُت سے گلے ملنے سے پہلے ہم نے
بھیگی ہوئی عید کو نچوڑا تھوڑا
پرندے بالعموم غائب ہیں ماسوائے سرخاب کے‘ جسے دیکھ کر کوئی خوشی نہیں ہوئی کہ وہ خود بھی خوش نظر نہیں آ رہا تھا‘ آخر تازہ ہوا کی ضرورت اسے بھی تھی جو مکمل طور پر ناپید تھی۔ ایسے ہی موسم پر کبھی یہ شعر بھی کہا تھا ؎
جو ہم نے دیکھا تو اب دو بارے کھلے ہوئے تھے
کہ حبس تھا اور بٹن تمہارے کھلے ہوئے تھے
اب اس تنہائی میں زیادہ سے زیادہ اپنے ہی بٹن کھولے جا سکتے تھے۔ یقین کیجیے کہ ہوا کا یہ باقاعدہ قحط تھا‘ حتیٰ کہ پیڈسٹل فین منگوا کر لگوایا لیکن اس کی ہوا بھی اس قدر بے جان تھی کہ اب کیا بتائیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اللہ میاں نے ساری ہوائیں سمیٹ کر کہیں ایک طرف رکھ دی ہیں اور یہ مرحلہ ان لوگوں کے لیے اور بھی تکلیف دہ تھا جو صبح صبح تازہ ہوا کے عادی ہو چکے ہوں۔ خدا بھی ہمیں ایسے ہی لمحات میں یاد آتا ہے۔
کتابیں‘ رسالے بہت اکھٹے ہو چکے ہیں‘ سوچتا ہوں انہیں بھی کسی دن بھگتا دوں۔ اس رمضان میں جو آمد ہوئی ہے‘ اس میں تین تو ایسے لحیم و شحیم جریدے ہیں کہ رسالوں کے باقاعدہ پہلوان لگتے ہیں۔ پہلے ''ماہ نو‘‘ کا احمد ندیم قاسمی نمبر نازل ہوا جس کے 272 صفحات ہیں اور قیمت درج نہیں۔ اس کے بعد ایسا ہی بھاری بھرکم ''لوح‘‘ ہے جس کے صفحات 664 ہیں اور قیمت 675 روپے۔ اس کے علاوہ ایک موٹا تازہ رسالہ اور بھی آیا ہے ''ادب عالیہ‘‘ جو حجاب عباسی نے کراچی سے نکالا ہے اور جو اس کا پہلا شمارہ ہے‘ ضخامت کے لحاظ سے یہ بھی کچھ کم نہیں۔ کم و بیش اتنی ہی جسامت میں اردو ترجمے کی روایت کے موضوع پر ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کی کتاب موصول ہوئی ہے جبکہ ان کے ساتھ ہی زاہد مسعود کی پتلی سی کتاب''شہر آشوب‘‘ موصول ہوئی ہے جو 24 صفحات پر مشتمل ہے اور جس میں ملک کے متعدد شہروں کا احوال بیان کیا گیا ہے جو ایک ایک ڈیڑھ ڈیڑھ صفحے کی نثری نظموں پر مشتمل ہے اور جسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ایک اتنی پتلی سی کتاب بھی کتنی ضخیم کتابوں پر بھاری ہو سکتی ہے۔ امید ہے کہ ان کی باری جلد ہی آئے گی کیونکہ ان کے بوجھ تلے بری طرح دبا ہوا ہوں!
آج کا مطلع
سخن سرائی تماشہ ہے‘ شعر بندر ہے
شکم کی مار ہے‘ شاعر نہیں مچھندر ہے