تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     10-07-2016

کچھ شرم اور کچھ حیا کی تلاش میں

عید پر اپنے گائوں لیہ نہ جا سکا۔ اپنے بڑے چچا غلام حیدر کی وفات کی خبر آئی۔ دل دکھی رہا۔ ایک ہی گھر میں انہی کے ساتھ پلے بڑھے تھے۔ شدید خواہش کے باوجود گائوں کا سفر نہ کر سکا تاکہ اپنے کزنز کا دکھ بانٹ سکتا۔ کندھے کی تکلیف نے نہیں جانے دیا۔ ڈاکٹر نے سختی سے منع کر دیا کہ ابھی طویل سفر مت کرو ورنہ تکلیف بڑھ جائے گی اور تین ماہ کا علاج ضائع جائے گا۔ 
چند دن گھر پر اکیلے گزارے۔ بچے خالہ کے پاس لاہور چلے گئے۔ میں اکیلا اور کتابوں کا ایک ڈھیر۔ ٹی وی، فون، ٹویٹر اور فلموں نے کتابوں سے کسی حد تک دور کر دیا ہے۔ رہی سہی کسر netflix نے پوری کر دی ہے۔ ایسے ایسے شوز اور سیریز دیکھنے کو ملتے ہیں کہ بندے کا کہیں جانے کو جی نہیں کرتا۔ 
تین روز پہلے کمرے میں اچانک ایک کتاب پر نظر پڑی جو کئی ماہ پہلے خریدی تھی۔ مسٹر بُکس کے یوسف بھائی یاد آئے‘ جنہوں نے پوچھا کتابیں خریدتے ہیں یا پڑھتے بھی ہیں؟ میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا تھا کتاب خریدنا اور کتاب پڑھنا دو مختلف چیزیں ہیں۔ دونوں کی اپنی اپنی ٹھرک ہے۔ یہ کتاب ہے: The Age of Wrath جو ابراہم ارلی نے کئی برسوں کی تحقیق کے بعد دہلی سلطنت کے بادشاہوں پر لکھی ہے۔ بڑے عرصے سے دلی کے سلطانوں پر پڑھنا چاہ رہا تھا۔ اس کتاب میں ایسا کھویا کہ بیان کرنا مشکل ہے۔ 
سوچ رہا ہوں آج سے ایک ہزار سال قبل ہندوستان کی کیا حالت تھی۔ جنگ و جدل اور خون بہا۔ کوئی رشتہ دار نہیں، کوئی خون کا رشتہ نہیں... بس اقتدار چاہیے۔ ہزاروں انسان حکمرانی کی جنگ میں مارے جاتے۔ باپ بیٹے، بہن بھائی ایک دوسرے کے گلے کاٹ کر رکھ دیتے۔ جو ہم کہتے ہیں کہ یہ کام مسلمان نہیں کر سکتے‘ وہ سب مسلمان ہی کر رہے تھے۔ اب تک میں نے دہلی سلاطین کی اقتدار کی خونیں جنگوں میں کسی ہندو یا سکھ کا کردار نہیں پڑھا‘ جس نے ان تباہیوں میں کوئی کردار ادا کیا ہو۔ سب کچھ مسلمان ہی کر رہے تھے جو ترک اور افغان امرا پر مشتمل تھے۔ سوچتا ہوں اپنے جیسے انسانوں پر حکومت کرنے کا نشہ کتنا طاقتور ہوتا ہے کہ بندہ سب کچھ دائو پر لگا دیتا ہے... اپنی جان‘ اپنے قریبی ترین رشتہ دار بھی‘ اپنے بہن بھائی بھی۔ لیکن اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ اس جنگ و جدل اور خون ریزی میں بھی کوئی شرم اور حیا باقی تھی۔
قطب الدین ابیک کا دور تھا۔ ابھی ہندوستان کے بہت سارے علاقے فتح کرنا باقی تھے۔ ایبک نے یہ کام اپنے ایک جنگجو بختیار خلجی کے ذمے لگایا۔ بختیار ایک سمارٹ، مضبوط، بہادر، سمجھدار اور تجربہ کار جنگجو تھا؛ تاہم ابیک کی طرح اس کی ظاہری شخصیت اتنی متاثر کن نہ تھی۔ وہ ایک گوریلا لگتا؛ تاہم اس کی ظاہری بدصورتی اس کی جسمانی طاقت اور بہادری میں چھپ گئی تھی۔ ایک دفعہ امرا نے اسے کچھ طعنے دیے تو بختیار نے ایک ہاتھی کو لڑائی میں تن تنہا پچھاڑ دیا تھا۔ ابیک کی تیز نگاہ نے ہیرے کو بھانپ لیا تھا اور اس نے اس کو بہار اور بنگال فتح کرنے پر لگا دیا اور بختیار خلجی نے بڑے آرام سے ان علاقوں کو فتح کر لیا؛ تاہم بختیار نے اس جنگ میں ایک بہت بڑا نقصان کیا‘ جب اس نے بدھ مذہب کی قائم ایک یونیورسٹی بھی تباہ کر دی‘ جو بہار میں واقع تھی۔ دراصل بختیار سمجھا کہ یہ کوئی فوجی قلعہ ہے اور بدھ لوگوں کو اس نے برہمن سمجھا۔ جب یونیورسٹی فتح کی گئی تو بہت سارا مال اسباب بھی بختیار کی فوج کے ہاتھ لگا۔ تمام بدھ پیروکاروںکو قتل کر دیا گیا۔ وہاں سے کئی کتابیں ملیں۔ جب مسلمان حملہ آوروں نے کتابیں دیکھیں تو انہوں نے کہا کہ کسی کو بلائیں‘ جو انہیں بتائے کہ یہ کیا ہیں؟ پتہ چلا کوئی زندہ نہیں بچا‘ جو انہیں بتاتا کہ ان کتابوں میں کیا ہے۔ اس وقت پتہ چلا کہ یہ قلعہ دراصل ایک یونیورسٹی تھی۔ 
بہار فتح کرنے کے بعد بختیار اپنی افواج لے کر بنگال میں داخل ہوا جس پر اس وقت سینا خاندان حکمرانی کر رہا تھا۔ بختیار نے جنگی چال چلی۔ اس نے فوج کو آبادی سے بہت دور کھڑا کیا۔ اپنے ساتھ صرف اٹھارہ گُھڑ سواروں کو لے کر وہ شہر کی جانب گیا۔ پُرامن شہر میں کسی نے نہ پوچھا کہ وہ لوگ کون ہیں۔ سب سمجھے گھوڑوں کے تاجر ہوں گے۔ اس طرح بختیار اپنے بندوں کے ساتھ شاہی محل کے گیٹ پر پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے تلوار نکال لی اور حملے کا حکم دیا۔ اس وقت راجہ لکشمنا سینا رات کا کھانا کھانے والا تھا۔ سونے کی پلیٹوں میں‘ جو اس دور کا رواج تھا‘ کھانا پیش کیا جا رہا تھا۔ جب حملے کا پتہ چلا تو بوڑھا راجہ ننگے پائوں محل کے پچھلے دروازے کی طرف بھاگا اور فرار ہو گیا۔ راجہ کی ساری بیویاں، بچے، ملازمین، خادمائیں حملہ آوروں کے ہاتھ لگ گئیں۔ راجہ کا سارا خزانہ بھی بختیار کے ہاتھ لگا۔ تمام ہاتھی بھی لے لیے گئے۔ 
بوڑھا راجہ لکشمنا ادب اور شاعری کا دلدادہ تھا۔ وہ خود بھی شاعر تھا۔ شاعروں اور ادیبوں کی بہت عزت کرتا تھا۔ جنگجو ٹائپ نہیں تھا۔ بنگال میں مقامی لوگوں کے مسلمانوں سے جنگ نہ کرنے کی وجہ ایک قدیم پیش گوئی بھی تھی‘ جس کے مطابق مسلمانوں نے اس خطے میں حکومت قائم کرنا تھی۔ اس لیے بختیار کو بنگال کے ان علاقوں کو فتح کرنے میں زیادہ مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ سب اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر اسے قبول کر رہے تھے۔ بختیار خلجی نے بنگال فتح کرنے کے بعد ہمالیہ کا رخ کر لیا۔ فتح کا نشہ سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ بختیار نے تبت پر حملے کا پلان بنایا۔ اس نے اپنے ساتھ دس ہزار گھڑ سوار لیے‘ لیکن یہ فوجی مہم جوئی بربادی پر ختم ہوئی۔ بدترین موسم نے بختیار کی فوج کو تباہ کر دیا۔ مقامی قبائل نے بھی بہت مزاحمت کی۔ بختیار کو اس مہم سے کچھ نہ ملا اور الٹا بڑی تعداد میں اس کے فوجی مارے گئے اور وہ بڑی مشکل سے اپنی جان بچا سکا۔ 
بختیار خلجی کے لیے یہ ایسی شکست اور بے عزتی تھی جسے وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ واپسی پر اس نے خود کو گھر کے اندر بند کر لیا۔ جب کبھی وہ باہر نکلتا تو اسے ان فوجیوں کی بیویاں اور بچے نظر آتے‘ جو اس کے غلط فیصلے کی وجہ سے مارے گئے تھے۔ ان فوجیوں کی بیویاں اور بچے گھروں کی چھتوں پر سے اسے گالیاں دیتے۔ یوں بختیار خلجی کی ذہنی حالت بگڑنے کے ساتھ ساتھ اس کی جسمانی حالت بھی خراب ہوتی چلی گئی اور وہ بستر سے لگ گیا۔ ایک دن یہ شرم اسے لے ڈوبی اور وہ پچھتاوے کے ساتھ ہی مر گیا۔ بختیار خلجی 1206ء میں فوت ہوا تھا۔ اس کے چار سال بعد قطب الدین ایبک بھی لاہور میں گھوڑے سے گر کر فوت ہوا۔
یہ کتاب پڑھتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ہندوستان میں سب مسلمان حکمران عیاش اور ظالم تھے؟ کیا وہ عوام سے اکٹھے کیے گئے پیسوں پر عیاشی کرتے تھے؟ کم از کم ایک تھا جو ایسا نہیں تھا۔ التتمشں کی موت کے بعد ہندوستان میں اقتدار کی جنگ جاری رہی۔ اس کی بیٹی رضیہ سلطانہ کی ایک طویل داستان ہے۔ اسے کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں؛ تاہم ان خانہ جنگی سے تنگ التتمشں کے چھوٹے بیٹے ناصرالدین محمود کو امرا نے دہلی کا سلطان بنایا تو ماحول بدل گیا۔ اس نے ہندوستان کو ایک اچھے حکمران کی طرح چلایا۔ ناصر محمود ایک نرم دل اور اچھا بادشاہ تھا؛ تاہم اس کے دور میں کاروبارِ حکومت ترکش امیر غیاث الدین بلبن کے ہاتھ میں ہی رہا۔ بلبن نے چالیس برس تک ہندوستان پر بلاواسطہ یا براہ راست حکومت کی۔ بادشاہ ناصرالدین محمود نے بیس برس حکومت کی اور اس کے موت کے بعد بلبن حکمران بنا اور مزید بیس برس حکمران رہا۔ ان چالیس برسوں میں بلبن صرف دو سال اقتدار کی غلام گردشوں سے دور رہا‘ جب دہلی کے امرا نے اس کے خلاف سازش کرکے اسے بادشاہ سے دور کر دیا تھا۔ ناصرالدین محمود جب بادشاہ بنا تو اس کی عمر صرف سترہ برس تھی۔ اسے بادشاہت میں زیادہ دلچسپی نہ تھی۔ اس لیے اس نے سب کچھ بلبن کے حوالے کر دیا تھا۔ ناصرالدین محمود اپنا زیادہ وقت قرآن پاک کے نسخے تیار کرنے میں صرف کرتا تھا۔ اس نے سادہ زندگی گزاری۔ ایک دن اس کی بیوی نے اسے کہا کہ خزانے سے کچھ رقم نکلوا کر ایک ملازمہ خرید لو تاکہ گھر کے کاموں میں مدد دے‘ اسے اکیلے بہت تنگی ہوتی ہے۔ ناصرالدین محمود نے اپنی بیوی کی اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا: یہ خزانہ عوام کا ہے نہ کہ بادشاہ کے ذاتی استعمال کے لیے!
یہ عالی شان کتاب پڑھ کر احساس ہوتا ہے کبھی اس خطے کے مسلمان بختیار خلجی جیسے فوجی جنگجوئوں اور ناصرالدین محمود جیسے حکمرانوں میں کچھ شرم، کچھ حیا، کچھ گریس ہوا کرتی تھی!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved