تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     10-07-2016

بوئنگ ٹرپل سیون کا شکریہ

بحیثیت قوم ہماری شاید قسمت ہی خراب ہے اور مسئلہ یہ نہیںکہ صرف قسمت خراب ہے بلکہ خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارا آنے والا ہر حاکم پہلے سے بدتر ثابت ہو رہا ہے۔ حتیٰ کہ ایک ہی شخص جب دوسری اور تیسری بار آتا ہے تو اپنا سابقہ ریکارڈ مزید ''بہتر‘‘ کرتا ہے۔ ہر آنے والا حکمران گزشتہ برے حکمران کا محسن ثابت ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے پچھلے والا حکمران فرشتہ نہ سہی ، مگر بدرجہا بہتر ضرور لگنے لگتا ہے۔
1953ء میں محمد علی بوگرہ امریکہ میں پاکستان کا سفیر تھا، اسے گورنرجنرل غلام محمد نے امریکہ سے طلب کیا اور پاکستان کا تیسرا وزیراعظم بنا دیا۔ ہم سوچتے تھے کہ ایسا کرنا صرف 1953ء میں ہی ممکن تھا اب ایسا نہیں ہوسکتا۔ خیر یہ ایک کہانی ہے اور خاصی طویل ہے۔ گورنر جنرل غلام محمد جسے قدرت اللہ شہاب کی کتاب کی نظر سے دیکھا جائے تو فالج زدہ اورفاترالعقل سا شخص لگتا ہے، جس کی بات بھی آخری دنوں میں کسی کی سمجھ میں نہیں آتی تھی اور اس کی گفتگو کا سلیس ترجمہ اس کی سیکرٹری مس بورل کرتی تھی اور وہی حتمی سمجھا جاتا تھا۔ یعنی جناب گورنر جنرل کی گفتگو کا جو مفہوم بھی مس روتھ بورل بیان کردیتی تھی وہی نافذ ہو جاتا تھا۔ اس وقت ملک غلام محمد کے پرنسپل سیکرٹری کے طور پر قدرت اللہ شہاب کام کر رہے تھے مگر فائنل بات مس بورل کی ہی سمجھی جاتی تھی جو گورنر جنرل کی پرائیویٹ سیکرٹری تھی۔ باقی سٹوریوں پر لعنت بھیجیں۔
پھر یوں ہوا کہ گورنر جنرل کا دل محمد علی بوگرہ سے بھر گیا۔ بنگال سے تعلق رکھنے والا یہ سیاستدان سیاست کے خارزار سے سفارت کاری کے میدان میں اپنے جوہر دکھا رہا تھا کہ اچانک اسے واشنگٹن سے طلب کرکے ملک کا تیسرا وزیراعظم بنادیا۔ پھر دل بھرا تو اس کو گھر بھیج کر ایک سول سرونٹ چودھری محمد علی کو ملک عزیز چوتھا وزیراعظم بنادیا۔ تاریخ کے طالب علم پریشان ہوتے تھے کہ ایسا کیسے ممکن ہے؟ گورنر جنرل صاحب کی طبیعت آئے تو سفیرکو پکڑ کر وزیراعظم بنادیں اور دل آئے تو سرکاری ملازم کو اٹھا کر وزیراعظم بنادیں۔ مگر یہ سب ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہے؛ تاہم یہ پڑھتے وقت ہم تب کے سیاستدانوں کی بے وفائی اور نااہلی پر کڑھتے تھے کہ یہ سب ان کا قصور تھا۔ اگر ہم اس وقت ہوتے تو جلوس نکالتے، حکمرانوں کا تختہ الٹ دیتے، زمین آسمان ایک کر دیتے اور یہ کردیتے، وہ کر دیتے۔ مگر یہ سب خام خیالی تھی۔
عشروں بعد ایسا ہوا کہ معین قریشی نامی ایک شخص امریکہ سے آیا اور پاکستان کا نگران وزیراعظم بنا دیاگیا۔ سب کچھ نہ صرف یہ کہ ہمارے سامنے ہوا بلکہ ہمارے ہوش میں ہوا۔ غالباً 1958ء میں پاکستان میںپاکستان چھوڑ کر امریکہ جانے والے شخص کو جس کی ساری ملازمت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی تھی، اٹھا کر پاکستان کا وزیراعظم بنا دیا گیا اور اس کی وزارت عظمیٰ کسی فاتر العقل گورنر جنرل کی مرہون منت نہیں تھی بلکہ ملک کی دوسری سیاسی پارٹیوں یعنی مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کی قیادت جسے ہم گزشتہ کئی عشروں سے پاپولر قیادت قرار دے رہے ہیں کی رضامندی سے ہوئی۔ یار لوگوں نے تب بڑے لطیفے مشہور کیے کہ معین الدین احمد قریشی عرف معین قریشی کو پاکستان کا وزیراعظم پہلے بنایا گیا اور اس کا شناختی کارڈ بعد میں بنا۔ یعنی باقاعدہ پاکستانی شہری کے طور پر رجسٹرڈ ہونے سے پہلے وزیراعظم بنادیا گیا۔ کسی ستم ظریف کا کہنا تھا کہ اس کا شناختی کارڈ طے شدہ طریق کار کے مطابق بننا خاصا مشکل تھا کہ ان کو اپنے کسی بزرگ کے شناختی کارڈ کا نمبر ہی معلوم نہیں تھا اور ان کے خاندان کا کوئی ریکارڈ بھی موجود نہ تھا، لہٰذا محترم وزیراعظم کا شناختی کارڈ بذریعہ ایجنٹ بنوایا گیا۔ اللہ جانے یہ محض لطائف تھے یا حقیقت۔ تاہم اگر یہ لطائف بھی تھے تو حقیقت کے قریب تر تھے کہ موصوف نے گزشتہ کئی عشروں سے پاکستان کی شکل تک نہیں دیکھی تھی۔
معین قریشی کو اس کی والدہ مرحومہ کی قبر پر لے جا کر فاتحہ بھی پڑھوائی گئی۔ میانی صاحب میں موجود ان کی والدہ مرحومہ کی قبر بھی ڈپٹی کمشنر لاہور نے دریافت کی اور وزیراعظم صاحب کو وہاں لا کر فاتحہ پڑھوائی گئی۔ راوی اس سلسلے میں بالکل خاموش ہے کہ وہ قبر حقیقت میں کس کی تھی۔ گمان ہے کہ صاحبِ قبر اس روز خاصا حیران ہوا ہوگا کہ یہ کون اجنبی اتنے لائو لشکر کے ساتھ اس کی قبر پر فاتحہ پڑھنے آ گیا ہے۔ معین قریشی کی بحیثیت عبوری وزیراعظم تعیناتی نے پورے چالیس سال بعد یعنی محمد علی بوگرہ کے 1953ء میں وزیر اعظم بننے کے بعد 1993ء میں امریکہ سے ایک سکائی لیب کے طور پر بطور وزیراعظم پاکستان، اسلام آباد میں لینڈنگ کی اور ہمارے منہ پر تھپڑ مارا کہ آپ کے حالات اب بھی نہ صرف جوں کے توں ہیں بلکہ پہلے سے بھی گئے گزرے ہوگئے ہیں کہ کم از کم محمد علی بوگرہ پاکستان کا شہری تھا، پاکستان کا سیاستدان تھا اور امریکہ میں پاکستان کا ہی سفیر تھا مگر معین قریشی کو تو پاکستان سے ہجرت کیے بھی تقریباً 35 سال ہوگئے تھے اور اس دوران ان کا پاکستان سے کوئی تعلق نہ رہا۔ وہاں بطور ایگزیکٹو آئی ایم ایف اور سینئر نائب صدر ورلڈ بینک اگر قرضہ دیتے یا وصول کرتے وقت پاکستان کے وفد سے ملاقات وغیرہ ہو جاتی ہو تو یہ علیحدہ بات ہے وگرنہ وہ عملی طور پر نہ صرف یہ کہ پاکستان کے شہری نہیں تھے بلکہ تقریباً تقریباً قومی زبان بھی بھول چکے تھے۔ آفرین ہے ہم پر یا ہمارے سیاستدانوں پر کہ ان کو پورے پاکستان میں ایک بھی ایسا شخص نہ ملا جسے وہ نگران وزیر بنا سکتے ۔ یہ ہمارے سیاستدانوں کے منہ پر ایک ایسا تھپڑ تھا جو خود سیاستدانوں نے مارا۔
1993ء کے بعد لگتا تھا کہ ملک میں ایسا شاید دوبارہ نہیں ہوگا۔ مگر یہ خیال پھر خام ثابت ہوا اور ہم نے ایک بار پھر ورلڈ بینک کے ملازم کو پاکستان کا وزیراعظم بنا دیا۔ اس بار ہم نے پہلے سے زیادہ سیاسی بے غیرتی کا مظاہرہ کیا اور ورلڈ بینک کے اس نوکر کو عبوری وزیراعظم کے بجائے باقاعدہ پکا وزیراعظم بنا دیا اور اس کی وزارت عظمیٰ کی مدت بہت سے سیاسی وزیراعظموں سے زیادہ لمبی ثابت ہوئی۔ یہ مدت تقریباً تین سال تین ماہ تھی جبکہ امریکہ سے بلواکر وزیراعظم بنائے جانے والے محمد علی بوگرہ کی وزارت عظمیٰ کی مدت تقریباً دو سال چار ماہ اور سرکاری ملازم چودھری محمد علی کی وزارت عظمیٰ کی مدت ایک سال ایک ماہ تھی۔ دیگر پاکستانی وزرائے اعظم کی وزارت عظمیٰ کی مدت بھی اس امپورٹڈ وزیراعظم سے کہیںکم تھی۔ مثلاً خواجہ ناظم الدین ڈیڑھ سال، حسین شہید سہروردی ایک سال ایک ماہ، ابراہیم اسماعیل چندریگر محض دوماہ، ملک فیروز خان نون دس ماہ، نور الامین تیرہ دن، بے نظیر بھٹو پہلی بار ایک سال آٹھ ماہ اور دوسری بار تین سال اور سولہ دن وزیراعظم پاکستان رہیں۔ اسی طرح خود نوازشریف پہلی بار دو سال پانچ ماہ اور دوسری بار دو سال آٹھ ماہ کے لگ بھگ وزیراعظم رہے۔
اسی دوران مزید خوار ہونے والے وزرائے اعظم میں شریف النفس محمد خان جونیجو تین سال دوماہ اس عہدے پر متمکن رہے۔ ظفراللہ جمالی ایک سال سات ماہ اور چودھری شجاعت حسین نے وزارت عظمیٰ پر محض ایک ماہ بیس دن مزے کیے اور پھر گھر کو روانہ ہو گئے تاکہ بقیہ ساری عمر سابق وزیراعظم کہلا سکیں۔ اس دوران بطور نگران یا عبوری وزیراعظم کام کرنے والے غلام مصطفی جتوئی، ملک معراج خالد، میر بلخ شیر مزاری، محمد میاں سومرو اور میر ہزار خان کھوسو کی مدت کا ذکر نہیں کیا کہ آئینی طور پر وہ نوے دن کے اندر الیکشن کروانے اور اقتدار منتقل کرنے کے پابند تھے۔ لہٰذا اس آئینی پابندی کے باعث ان کی مدت کا دورانیہ قابل ذکر نہیں رہ جاتا۔
صورت حال اب یہ ہے کہ ہر بار پہلے سے برا تجربہ ہو رہا ہے اور ہر بار پہلے سے برے حکمرانوں سے پالا پڑ رہا ہے۔ حتیٰ کہ دوسری بار آنے والا حکمران اپنی پہلی باری سے زیادہ برا حکمران ثابت ہو رہا ہے اور تیسری بار آنے والا دوسری بار سے برا حکمران ثابت ہو رہا ہے۔ جس حکمران سے مخلوق خدا تنگ آئی ہوئی تھی بلکہ ایک پنجابی محاورے کے مطابق ''اک نک‘‘ آئی ہوئی تھی، نئے حکمران کے آنے اور اس کے کرتوتوں کے طفیل لوگ اسے اچھے لفظوں سے یاد کرنے لگ جاتی ہے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ جب زرداری صاحب ملک کے صدر بنے تھے تو لوگوں نے کانوں کو ہاتھ لگا کر اسے قرب قیامت کی نشانی قرار دیا تھا۔ مگر اب انہی کانوں کو ہاتھ لگانے والوں میں سے کئی لوگوں کو اپنی بدگمانی پر شرمندہ دیکھا ہے۔
بڑے لوگ اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں اور خود میں بہتری لاتے ہیں اور چھوٹے لوگ انہی غلطیوں سے یہ سیکھتے ہیں کہ اگلی بار حرکت تو یہی کرنی ہے مگر اب اس میں پہلی والی غلطی نہیں دہرانی مگر تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ بنی نوع انسان نے مجموعی طور پر اپنی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ سیاسی تاریخ کے طالب علم کے طور پر جب میں ماضی پر نگاہ دوڑاتا ہوں تو مجھے ''کتا کتا‘‘ کہہ کر اتارے گئے حکمران آج کے حکمرانوں کے مقابلے میں اتنے بڑے لگتے ہیں کہ سیاستدانوں اور حکمرانوں کی موجودہ لاٹ ان کے سامنے بالشتیہ لگتی ہے۔ قائداعظم تو ایک استثنائی شخصیت تھے۔ ان کا مقابلہ تو کجا، آج کے حکمران ان کے پاسنگ بھی نہیں لیکن ماضی کے دیگر حکمرانوں کا بھی آج کے حکمرانوں سے تقابل کیا جائے تو ازحد شرمندگی ہوتی ہے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں؟
زیارت میں قائداعظم کے پسندیدہ باورچی کوبلایا گیا تو اس کا خرچہ سرکاری خزانے کے بجائے قائداعظم نے اپنی جیب سے ادا کیا۔ محترمہ فاطمہ جناح کے کرسی خریدلی گئی تو ناراضگی کا اظہار کیا اور پلے سے ادائیگی کی۔ کابینہ کا اجلاس ہوا تو چائے سرکاری خرچے پر پیش کرنے پر خفگی کا مظاہرہ کیا۔ ادھر یہ عالم ہے کہ لندن میں وزیراعظم کا کیمپ آفس منتقل ہو جاتا ہے اور خبر تب ملتی ہے جب یہ کیمپ اکھاڑا جا رہا ہے۔ کیمپ آفس کی منتقلی کب ہوئی؟ کیسے ہوئی؟ کس طرح ہوئی؟ نوٹیفکیشن کب ہوا؟ کس نے کیا؟ کیا خرچہ ہوا؟ کسی کو پتا نہیں۔ اللہ بھلا کرے اس بوئنگ 777 کا جس کے طفیل یہ راز کھلا وگرنہ کسی کو پتا بھی نہ چلتا کہ کس کس سرکاری افسر نے کتنا ٹی اے/ ڈی اے وصول کیا ہے۔ ایک مشکوک بائی پاس کے طفیل کتنے ضابطے بائی پاس ہوئے ہیں اور ہمہ وقت قرضوں کی متلاشی حکومت نے ٹیکس ادا کرنے والوں کی جیب سے نکلنے والی کمائی کو کس طرح اڑایا ہے؟ قوم کو یہ بوئنگ777 بھی تقریباً 33 کروڑ روپے میں پڑا ہے مگر اس خرچے کے باوجودبوئنگ ٹرپل سیون کا شکریہ کہ اس کے طفیل جمہوری بادشاہت کی بدصورتی اپنی پوری کراہت کے ساتھ ہمارے سامنے تو آئی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved