حمود الرحمن کمشن رپورٹ میں 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب کا بھی ذکر ہے، جس میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح، فیلڈ مارشل ایوب خان کے مقابل تھیں۔ کہا جاتا ہے اگر مادرِ ملت کو بدترین انتخابی دھاندلی کے ذریعے شکست نہ دی جاتی تو شاید مشرقی پاکستان میں مایوسی کی وہ لہر تھم جاتی جو بعد ازاں علیحدگی پسندوں کے کام آئی۔ مادرِ ملت کی 49 ویں برسی پر نواب زادہ نصراللہ خان (مرحوم) سے ایک ملاقات یاد آئی۔ باتوں باتوں میں اس صدارتی انتخاب کا ذکر چھڑا تو بزرگ سیاستدان نے کئی اہم انکشافات کیے۔
صدارتی انتخاب کی آمد آمد تھی۔ ایوب خان کے وزیر قانون چیلنج کے انداز میں کہہ رہے تھے کہ حزب اختلاف کے پاس تو فیلڈ مارشل کے مقابلے میں کوئی امیدوار ہی نہیں۔ حزب اختلاف واقعی ایک سنگین چیلنج سے دوچار تھی۔ پاکستان مسلم لیگ (کونسل) کے صدر خواجہ ناظم الدین ڈھاکہ سے لاہور آئے۔ نواب زادہ نصراللہ خان اور میاں محمود علی قصوری سے ملاقات میں یہی مسئلہ موضوعِ گفتگو رہا۔ خواجہ صاحب نے ڈھاکہ واپس جا کر اپنے بنگالی رفقائے کار سے بھی مشورہ کیا اور ڈھاکہ میں میٹنگ بلا لی، جس میں مغربی پاکستان سے نواب زادہ صاحب کے علاوہ چودھری محمد علی اور میاں محمود علی قصوری شریک ہوئے۔ جماعت اسلامی خلافِ قانون قرار دی جا چکی تھی اور مولانا مودودی سمیت اس کی بیشتر لیڈر شپ جیل میں تھی۔ ڈھاکہ کی میٹنگ میں اس کی نمائندگی چودھری رحمت الٰہی نے کی۔ میٹنگ میں انتخابی مہم کے نو نکات پر اتفاق ہوا، جن میں صدارتی نظام کی جگہ وفاقی پارلیمانی نظام اور بنیادی جمہوریت کے ارکان کے ذریعے بالواسطہ انتخاب کی بجائے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر براہِ راست انتخابات کے علاوہ ایک نکتہ ''اسلامی معاشرے کا قیام‘‘ بھی تھا۔
اب حزب اختلاف کے صدارتی امیدوار کے انتخاب کا مرحلہ در پیش تھا۔ فیلڈ مارشل کے مقابل دو نام ذہن میں آتے تھے۔ ایک ماردِ ملت محترمہ فاطمہ جناح...لیکن سوال یہ تھا کہ وہ پیرانہ سالی میں اس بھاری ذمہ داری کے لیے آمادہ ہو جائیں گی؟ دوسرا نام جنرل اعظم خان کا تھا، جو ایوب خان کے مارشل لاء کے ابتدائی برسوں میں مشرقی پاکستان کے گورنر رہے اور مشرقی پاکستان میں مقبولیت اور نیک نامی کمائی۔ گورنری سے برطرفی نے مغربی پاکستان میں بھی ان کے لیے ''گڈ وِل‘‘ پیدا کر دی تھی۔
امیدوار کے انتخاب کے لیے کراچی میں اجلاس کے انعقاد کا فیصلہ ہوا۔ اس سے ایک روز قبل نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ مولانا عبدالحمید خان بھاشانی نے اپنی پارٹی کی میٹنگ بلا لی۔ (ان دنوں ولی خان ''نیپ‘‘ مغربی پاکستان کے صدر تھے) میٹنگ کا اختتام اس قرارداد پر ہوا کہ حزب اختلاف کے کسی ایسے امیدوار کی حمایت نہیں کی جائے گی جو ایوب خان کا رفیق کار رہا ہو۔ قرارداد میں حزب اختلاف کے نو نکاتی پروگرام سے اسلامی معاشرے کے قیام کا نکتہ حذف کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔
اگلے روز نواب زادہ نصراللہ خان کی زیر صدارت حزب اختلاف کے اجلاس میں مولانا بھاشانی ان دونوں نکات پر ڈٹے ہوئے تھے۔ ان کا مؤقف تھا کہ ایک سیکولر جماعت کی حیثیت سے، ان کی پارٹی اسلامی معاشرے کے قیام کے مطالبے میں شریک نہیں ہو سکتی۔ جبکہ دیگر شرکاء اجلاس کی رائے تھی کہ اعلان شدہ نو نکاتی پروگرام سے اس نکتے کو حذف کرنا اپنی شکست کے پیشگی اہتمام کے مترادف ہوگا۔ بالآخر نواب زادہ نے سخت رویہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ بھاشانی صاحب ان کے ساتھ عوامی لیگ میں اکٹھے کام کر چکے تھے۔ نواب زادہ نے نو نکاتی پروگرام کا مسودہ نکالا اورکہا ''اس کاغذ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک آپ ہی کے دستخ ہیں‘‘۔ (بھاشانی مرحوم انگریزی میں بہت لمبے دستخط کرتے تھے۔ اپنا پورا نام لکھتے ''عبدالحمید خان بھاشانی‘‘)
''لیکن میری پارٹی نہیں مان رہی‘‘ بھاشانی نے عذر پیش کیا۔ ''یہ ہمارا نہیں، آپ کا دردِ سر ہے۔ آپ اپنی پارٹی کو منائیں، ورنہ اس کی صدارت سے مستعفی ہو جائیں‘‘۔ نواب زادہ کا تیر نشانے پر لگا اور بھاشانی اس نکتے سے دستبردار ہو گئے۔ لیکن وہ جنرل اعظم خان کو صدارتی امیدوار بنانے کے خلاف اپنے''اصولی مؤقف‘‘ سے دستبرداری پر آمادہ نہ تھے۔ وہ دراصل ایوب خان کا کھیل کھیل رہے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ مادرِ ملت کسی صورت امیدوار بننے پر تیار نہیں ہوںگی۔
بالآخر رات گئے یہ قافلہ مادرِ ملت کی رہائش فلیگ سٹاف ہائوس کی طرف روانہ ہوا۔ پریس بھی تعاقب میں تھا۔ مادرِ ملت اس اچانک ''پیشکش‘‘ پر حیرت زدہ تھیں اور فیصلے کے لیے کچھ وقت چاہتی تھیں۔ اس پر نواب زادہ کا کہنا تھا کہ قومی پریس ہمارے تعاقب میں یہاں تک پہنچ گیا ہے۔ اب بات چھپائے نہ چھپے گی۔ ہم نے باہر نکل کر اسے ''اچھی خبر‘‘ نہ دی تو صبح کے بیشتر اخبارات میں کچھ اس طرح کی شہ سرخیاں ہوں گی: ''مادرِ ملت نے ایوب خان کے مقابلے سے معذرت کر لی‘‘۔ اس سے قوم میں جو مایوسی پیدا ہوگی اور ایوب خان کو جو نفسیاتی تقویت ملے گی، اس کا اندازہ نہیںکیا جا سکتا۔ بالآخر مادرِملت رضا مند ہو گئیں۔ وہ حزب اختلاف کے قائدین کے ساتھ باہر تشریف لائیں۔گروپ فوٹو کے لیے کیمروں کی فلیش گنیں چمکیں۔ اخبار نویس ایک بہت بڑی۔۔۔ سب سے بڑی خبر کے ساتھ اپنے دفاتر کی طرف رواں دواں تھے۔ یہ بلاشبہ فیلڈ مارشل اور اس کے ساتھیوں کے لیے ایک بم شیل تھا۔
مادرِملت کے صدارتی امیدوار بننے کا فیصلہ، ایک ایسا فیصلہ تھا جس نے پوری قوم میں جوش و جذبے اور ہمت و حوصلے کی نئی لہر دوڑا دی تھی۔ ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک، پشاور سے کراچی اور ڈھاکہ سے چٹاگانگ تک جذبوں اور ولولوں کا ایک سیلاب تھا جو امنڈ آیا تھا۔ مادرِملت کی پذیرائی میں لوگوں کو دن اور رات کا ہوش نہیں رہا تھا۔ قافلۂ جمہوریت راتوں کو ایک شہر سے دوسرے شہر تک سفر کرتا تو دیہی عوام سڑکوں کے دونوں طرف لالٹینیں لیے، مادرِملت زندہ باد کے نعرے لگاتے نظر آتے(لالٹین مادرِملت کا انتخابی نشان تھا۔)
اُدھر مشرقی پاکستان میں جذبوں کی کیفیت اس سے بھی فزوں تر تھی۔ ڈھاکہ سے چٹاگانگ تک ریل کا سفر معمول سے چار پانچ گنا زیادہ وقت لے گیا تھا۔ لوگ ریل کی پٹڑی پر لیٹ جاتے اور تقاضا کرتے کہ ماں دروازے پر تشریف لائیں اور اپنے بیٹوں سے خطاب فرمائیں۔ مشرقی پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے بزرگ سیاستدان اپنے اندرونی جذبات کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے، پلکوں پر ہلکی سی پھوار برس گئی تھی۔ ضعیف چہرے پر جھریاں اور نمایاں ہو گئی تھیں۔
مادرِ ملت مشرقی پاکستان پہنچیں تو نیشنل عوامی پارٹی کے صدر عبدالحمید بھاشانی نے بیماری کی چادر اوڑھ لی اور مادرِ ملت کی انتخابی مہم سے لا تعلق ہوگئے۔ کچھ روز بعد فیلڈ مارشل اپنی انتخابی مہم کے لیے مشرقی پاکستان پہنچا تو بھاشانی کے نائب، مسیح الرحمان ہوائی اڈے پر اسے ہار پہنا رہے تھے۔ نواب زادہ صاحب کے بقول اس کہانی میں جناب بھٹو کا کردار بہت اہم تھا، جنہوں نے فیلڈ مارشل کی طرف سے نیپ کی قیادت کے ساتھ سودے بازی کی تھی اور جو فیلڈ مارشل کے چیف پولنگ ایجنٹ بھی تھے۔
قوم کی طرف سے اپنی گرامی قدر ماں کی یہ پذیرائی فیلڈ مارشل اور اس کے حواریوں کے اعصاب باختہ کیے دے رہی تھی۔ نواب زادہ بتا رہے تھے: مادر ملت انتخابی مہم کے سلسلے میں ملتان میں تھیں کہ لاہور سے میاں محمود علی قصوری کا پیغام ملا، گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالا باغ گورنری سے استعفے کی پیشکش کر رہا تھا تاہم وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ مادرِ ملت برسرِ اقتدار آ کر اس کا کیا صلہ دیں گی؟ نواب زادہ یہ پیغام پاتے ہی ریسٹ ہائوس کی جانب لپکے جہاں مادرِ ملت مقیم تھیں۔ علماء کا ایک وفد ان سے ملاقات کر رہا تھا کہ نواب زادہ اندر داخل ہوئے اور مہمانوں کو توجہ دلائی کہ مادرِملت کی کچھ اور مصروفیات بھی ہیں۔ علمائے کرام روانہ ہو گئے تو مادرِ ملت نے قدرے سختی سے استفسار کیا، یہ غیر اہم لوگ تھے تو میرا وقت کیوں ضائع کیا گیا اور اگر ان کی کوئی اہمیت تھی تو پھر ان سے یہ سلوک کیوں؟ نواب زادہ نے معذرت چاہی اور انہیں گورنر کا پیغام پہنچایا جسے پا کر انہیں روایتی آداب کا خیال نہیں رہا تھا۔ نواب زادہ کہہ رہے تھے کہ گورنر کے استعفے کے ساتھ ہی ایوب خان کی شکست پر مہر لگ جائے گی، بیورو کریسی اور سرکاری مسلم لیگ (کنونشن) کے حوصلے پست ہو جائیں گے۔
''تو ٹھیک ہے، وہ استعفے دیدے‘‘ مادر ملت کا جواب تھا۔ ''لیکن وہ اپنے 'مستقبل‘ کے متعلق کوئی یقین دہانی چاہتا ہے‘‘ نواب زادہ نے کہا۔ ''میں کوئی یقین دہانی نہیں کرا سکتی۔ آپ اپنے طور پر مطمئن کرنا چاہیں تو کر دیں‘‘۔ مادرِملت نے یہ کہتے ہوئے بات ختم کر دی۔
نواب زادہ نے بتایا کہ نواب آف کالا باغ کے ساتھ تو ان کی بول چال تک بند ہے۔ سخت گیر گورنر نے کچھ عرصہ قبل ان کے قتل کا باقاعدہ حکم جاری کیا تھا اور راز فاش ہونے سے اس سازش پر عمل نہ ہو سکا۔ مادر ملت کسی سودے بازی پر آمادہ نہ ہوئیں اور تاریخ ایک نیا موڑ مڑ گئی۔