تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     10-07-2016

مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے

پروین شاکر کا مصرع ہے ''ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا‘‘ اور یہ ہجر آج اترا ہے۔۔۔۔ ایدھی اور اس کے لوگوں کے درمیان۔ وہ لوگ جن سے ایدھی نے محبت کی اور اپنی زندگی ان پر وار دی۔ وہ خاک بسر، ٹھکرائے ہوئے لوگ جن کو ایدھی نے گلے لگایا۔ ان کی بہتے آنسوئوں کو اپنی پوروں میں جذب کیا۔ وہ بچے جنہیں مائوں نے جنم دے کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینکا، ایدھی نے ان کو اپنی محبت کے جھولے میں پروان چڑھایا۔ وہ لوگ جو اپنوں کے لیے بوجھ بن گئے، ایدھی نے ان کا بوجھ اٹھایا۔ ایسے ہزاروں ٹوٹے، بکھرے، خستہ حال، بے قیمت لوگ جن کا کوئی نہ تھا، ایک ایدھی ان کا تھا۔ ان کا باپ تھا، ان کا سائبان تھا، ان کا مسیحا تھا، ان کی چھت تھا، ان کا مہربان تھا!
ایک منظر یاد آتا ہے۔ بارہ تیرہ سال کا لڑکا، ٹانگ سے لنگڑا، ہاتھوں سے معذور، عید پر نئے کپڑے پہنے کسی چینل پر انٹرویو دے رہا تھا: ''باپ مر گیا، ماں نے معذور کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا، اب ایدھی ابُّو کے گھر میں رہتا ہوں۔ ایدھی ابُّو نے کہا ہے کہ اب تمہارا علاج کروائیں گے‘‘۔ وہ کس محبت اور مان سے ایدھی کو ابُّو کہہ رہا تھا۔ اس ٹھکرائے ہوئے بچے کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیر رہے تھے۔ آہ! کیا تھا عبدالستار ایدھی! آج رخصت ہو گیا تو دِل غم سے بھر گیا۔ ہاں ایدھی بیمار تھے، بہت بیمار تھے۔ جی کا جانا ٹھہر گیا تھا۔ مگر آج اس شخص کے رخصت ہو جانے سے میرا ملک کتنا غریب، ویران اور اداس ہے ع
فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا ایک ہی شخص
ایدھی پوری دنیا میں پاکستان کا فخر تھا۔ ایدھی ہمارا فخر تھا اور ہمیشہ رہے گا۔ میں سوچتی ہوں جب ننھے عبدالستار کو ماں دو پیسے دے کر کہا کرتی تھی کہ بیٹا اس میں ایک پیسا تیرا ہے اور ایک پیسہ تو نے غریب ضرورت مند پر خرچ کرنا ہے، تو اس ماں کو کیا خبر تھی کہ وہ اس ننھے بچے کے دِل میں دنیا کی سب سے بڑی فلاحی فائونڈیشن کی بنیاد رکھ رہی ہے! ماں کو کیا خبر تھی کہ اس کا ننھا عبدالستار اپنی زندگی میں آگے چل کر ہزاروں لاکھوں ٹھکرائے ہوئے ضرورت مندوں کی مسیحائی کرے گا۔ 
مولانا عبدالستار ایدھی نے میٹھا در میں ایک کمرے پر مشتمل فری ڈسپنسری کی بنیاد رکھی۔ ایک پرانی وین خریدی۔ کہتے ہیں، ایدھی صاحب نے اس پرانی وین کو دھویا، چمکایا، اس پر نیا روغن کیا اور پھر اس پر لکھوا دیا۔۔۔ Poor Man Van ۔ یہ پرانی وین پورے شہر سے لاوارث زخمیوں کو ہسپتال پہنچاتی، لاوارث لاشوں کو اٹھاتی اور ان کے کفن دفن کا انتظام کرتی۔ آج جب ایدھی رخصت ہوئے تو ایدھی فائونڈیشن دنیا کی کئی ملکوں میں بلا معاوضہ خدمات انجام دینے والا سب سے بڑا فلاحی ادارہ ہے۔
ایک کالم میں ایدھی صاحب کی خدمات، شخصیت اور اس جذبے کا احاطہ نہیں ہو سکتا، جس سے سرشار رہ کر انہوں نے زندگی کے آخری سانس تک کام کیا۔ ایدھی صاحب نے اپنی زندگی میں کچھ عجیب و غریب اصول طے کر رکھے تھے، جن پر عمر بھرکار بند رہے۔ مثلاً ایدھی فائونڈیشن نے کبھی حکمرانوں کی امداد قبول نہیں کی۔ وہ سرکار سے ایک پیسہ بھی نہیں لیتے تھے۔ بستر مرگ پر بھی انہوں نے ایسی تمام سرکاری آفرز کو ٹھکرا دیا جن میں ان کو بیرون ملک علاج کے لئے کہا گیا تھا۔ ایدھی صاحب جب بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے، پاکستان کے حکمرانوں اور سیاستدانوں سے سخت نالاں دکھائی دیتے، اس لیے کہ وہ انہی کو پاکستان کے غریبوں کی حالت زار کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔ شدید بیماری سے کچھ عرصہ قبل ایک ٹی وی چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے ایدھی صاحب نے کم و بیش ہر سوال کے جواب میں یہی بات بار بار دہرائی۔ وہ اپنے سادہ میمن لہجے میں یہی کہتے رہے: ''پیسے کی عدم مساوات ہمارے مسائل کی اصل وجہ ہے۔ امیر بہت امیر ہے اور غریب بہت غریب ہے۔ پیسے کی تقسیم انصاف پر مبنی نہیں‘‘۔ وہ پاکستان میں تمام سیاسی اور سماجی مسائل کا حل بھی یہی بتاتے تھے کہ معاشرے سے دولت کی عدم مساوات ختم کر دو، سیاست اور سماج سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ایدھی صاحب کہا کرتے کہ میں حکمرانوں سے پیسے نہیں لیتا، میرا ادارہ عام آدمی کے پیسوں سے چلتا ہے۔ اور عام پاکستانی کا بھی ایدھی کے ساتھ اعتبار کا ایک اٹوٹ رشتہ تھا۔ ایک منظر مجھے یاد آتا ہے۔ لاہور کی مال روڈ کے فٹ پاتھ پر خاکی رنگ کے سوتی کپڑوں میں ملبوس، سر پر جناح کیپ پہنے ایک بوڑھا شخص جھولی پھیلا کر بیٹھا تھا اور لاہور کے تاجر اس جھولی میں لاکھوں روپے ڈالتے جا رہے تھے۔ یہ مولانا عبدالستار ایدھی تھے۔ سائیکلوں، موٹر سائیکلوں پر گزرتے ہوئے عام لوگوں کو جب خبر ہوتی کہ ایدھی صاحب کسی فلاحی مہم کے لئے شہر کے فٹ پاتھ پر بیٹھے ہیں تو وہ اپنی سواری روکتے اور ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حسب توفیق اپنا حصہ ڈالتے جاتے۔ آخر لوگ ان پرکیوں اعتبار کرتے تھے؟ اس لیے کہ وہ جانتے تھے ان کے عطیے کا ایک ایک پیسہ صحیح اور جائز جگہ پر خرچ ہو گا کیونکہ اس ادارے کو خرچ کرنے والے عبدالستار ایدھی ہیں۔ 
کیا نایاب اور کمال شخص تھا کہ جاتے ہوئے بھی اپنی آنکھیں عطیہ کر گیا۔ میں سوچتی ہوں جس شخص کو ایدھی کی آنکھ کا ریٹنا لگے گا وہ اس دنیا کوکس نظر سے دیکھے گا! ان آنکھوں کو تو ہمیشہ دکھی انسانیت کے روگ ہی نظر آئے۔ ان کا دِل انسانیت کے درد سے بھرا رہتا۔ آج اس دل کی دھڑکن تھم گئی ہے۔ وہ ہاتھ جو دستِ مسیحا تھے، آج سرد ہو چکے ہیں۔ وہ میمنی لہجہ، وہ آواز خاموش ہے۔ آبِ زم زم سے غسل دیا جا چکا۔ نیشنل سٹیڈیم میں نماز جنازہ ادا کی جا چکی۔ کراچی شہر میں یہ ایک اور یاد گار جنازہ تھا۔ وہ جو ہزاروں زندگیوں میں روشنی کی جگمگماتی کرن تھا، آج بجھ گیا! ؎
کل شام خورشید مثال ایک شخص مٹی کے سپرد کر دیا ہے
زمیں کے اندر بھی روشنی ہو مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved