تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     11-07-2016

اندازے

اندازے ہیں، درست ہوتے ہیں اور نا درست بھی۔ ناچیز کا خیال بہر حال یہی ہے کہ فیصلہ 2018ء میں ہو گا، اس سے پہلے نہیں۔
ابھی کچھ دیر پہلے ایک سیاسی رہنما نے رازداری سے مجھے بتایا کہ نواز شریف حکومت ختم ہونے والی ہے۔ جی نہیں، شیخ رشید کی طرح وہ افواہیں پھیلانے اور پیش گوئیاں کرنے والے آدمی نہیں۔ 39برس سے میں انہیں جانتا ہوں۔ ان کے گرامی قدر والد سے بھی مراسم رہے۔ اپنے مرحوم و مغفور والد کی طرح وہ ایک نجیب آدمی ہیں۔ اس قدر قابلِ اعتماد کہ خالص ذاتی معاملات میں بھی ان سے مشورہ کیا جا سکتا ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ آپ کے اعتماد کو نہ وہ کبھی ٹھیس پہنچائیں گے اور نہ ہی دانستہ کبھی ایسا مشورہ دیں گے جو آپ کے مفاد میں نہ ہو۔
آئندہ چند دنوں میں حکومت اگر رخصت نہ ہوئی؟ پوچھا گیا۔ ان کا جواب یہ تھا: ''اس کے بعد ایک طولانی کشمکش کا آغاز ہو جائے گا، جیسا کہ اس طرح کے حالات میں ہوا کرتا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا۔ 
ایک عشرہ قبل ناچیز نے فیصلہ کیا تھا کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اندازِ فکر کی خبر رکھنے کی کوشش کی جائے۔ آدمی اپنا جج نہیں ہوتا۔ اس کالم کے قارئین اور دنیا ٹی وی کے ناظرین فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کہاں تک اپنے فرائض ادا کرنے میں وہ کامیاب رہا ۔
نواز شریف حکومت کی برطرفی کا راستہ کیا ہے؟ سب سے زیادہ آسان طریقہ بظاہر یہ ہے کہ وزیر اعظم پر دبائو ڈال کر انہیں مستعفی ہونے پر آمادہ کر لیا جائے۔ اس کے بعد قومی اسمبلی میں نون لیگ کی پارلیمانی پارٹی نئے قائد کا انتخاب کرے۔ یہ نیا لیڈر کون ہو گا؟
پیپلزپارٹی کے رہنما بہت دن سے اشارہ کر رہے ہیں۔ اشارہ کیا، بعض تو کھل کر کہہ رہے ہیں کہ چوہدری نثار علی خان وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ یہ بات قابلِ فہم نہیں۔ اس لیے کہ پارٹی کے سربراہ نواز شریف ہیں۔ برصغیر کی سماجی اور نفسیاتی ساخت ایسی ہے کہ اس طرح کی تبدیلی کا وقت آئے تو مقتدرخاندان کا کوئی شخص ہی لیڈر کی جگہ لے سکتا ہے۔ بھارت میں جس طرح نہرو کے بعد اندرا گاندھی، اندرا گاندھی کے بعد راجیو گاندھی اور آں جہان کے بعد ان کی اطالوی اہلیہ۔ سری لنکا میں بندرانائیکے کے بعد مسز بندرا نائیکے۔ شیخ مجیب الرحمن کے بعد حسینہ واجد، بھٹو کے بعد محترمہ نصرت بھٹو، نصرت بھٹو کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو اور پھر جناب آصف زرداری مدظلہ العالی۔
محترمہ کلثوم نواز سرے سے امیدوار ہی نہیں۔ انہوں نے اپنا آرام بڑھانے اور خود کو گھر تک محدود رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ بظاہر یہ فیصلہ اٹل نظر آتا ہے۔ قیاس آرائیوں اور پیش گوئیوں کیا، افواہوں تک میں ان کا نام شامل نہیں ہوتا۔
جہاں تک ان کی صاحبزادی کا تعلق ہے، ذہنی طور پر وہ اپنے والدِ محترم کی جگہ لینے کے لیے تیار ہیں، ہاں مگر فوری طور پر بالکل نہیں۔ با ایں ہمہ وہ ناتجربہ کار ہیں اور ناتجربہ کار لوگوں میں گھری ہوئی ہیں۔ ایک سیاستدان کی حیثیت سے ان کا پہلا فیصلہ ہی غلط ہے۔ غلط ہی نہیں بلکہ تباہ کن۔ پارٹی کے میڈیا سیل کی وہ انچارج بن گئی ہیں۔ کسی تفصیل میں جائے بغیر، مؤدبانہ گزارش یہ ہے کہ اگر ایسے لوگوں کی بات وہ سنیں، جو آزاد اخبار نویسوں کی کردار کشی کے مشورے دیتے ہیں، تو سیاست وہ فرما چکیں۔ لیڈر وہ شخص ہوتا ہے، جو ادنیٰ چیزوں میں الجھنے سے گریز کرے۔ جس کی اولین ترجیح کاروبارِ حکومت کے لیے سیاسی ترجیحات کا تعین ہو۔ اگر اقتدار اسے حاصل ہو تو فیصلے صادر کر سکے۔ اگر اہم ترین نائب کی ذمہ داریاں سونپی جائیں تو پالیسیوں کی تشکیل میں ٹھوس مشورے دے سکے۔ 
سیاست میں مفروضوں پر گفتگو نہیں کی جاتی۔ الاّ یہ کہ بات کو واضح کرنا مقصود ہو۔ لیجیے ہم فرض کرتے ہیں کہ میاں صاحب اپنی صاحبزادی کے حق میں دستبردار ہو جاتے ہیں۔ سینے پر ہاتھ رکھ کر کوئی بتائے کہ کیا ان سنگین مسائل سے وہ نمٹ سکیں گی، جو ملک کو درپیش ہیں۔ دہشت گردی، خارجہ پالیسی، پاک بھارت تعلقات،پاک امریکہ مراسم، کراچی، بلوچستان، معیشت اور امن و امان کی بحالی؟ ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ اس معمولی تجربے کے ساتھ یہ معرکہ وہ سر نہیں کر سکتیں۔
دوسری صورت یہ ہو گی کہ وزیر اعظم قدم قدم پر ان کی رہنمائی کرتے رہیں۔ جہاز کا ایک تجربہ کار پائلٹ جس طرح کو پائلٹ کی رہنمائی کرتا ہے۔ جی نہیں، یہ نہیں ہو سکتا۔ جہاز نہیں، یہ 22کروڑ آبادی کے ایک ایسے ملک کو سنبھالنے کا سوال ہے، جو بدترین حالات میںگھرا ہے۔ پیچیدگیاں ہیں اور بے شمار پیچیدگیاں۔ مثال کے طور پر سول ملٹری تعلقات۔ وہ چیزیں جو منظرِ عام پر نہیں لائی جاتیں بلکہ قریب ترین ساتھیوں سے بھی راز داری کے ساتھ مشورہ کیا جاتا ہے۔ ایسے میں والد محترم کیا سارا وقت ایوانِ وزیر اعظم میں موجود رہیں گے یا وہ ٹیلی فون کے ساتھ چپکی رہیں گی۔ پولیٹکل سائنس کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی بتا سکتا ہے کہ یہ ایک ناقص اور ناقابلِ عمل انتظام ہو گا۔ایسے میں اصل حکمران میاں صاحب ہی ہوں گے۔ پھر اس سے حاصل کیا ہو گا؟
شہباز شریف؟ یقینا وہ وزارت عظمیٰ کے آرزو مند رہے ہیں۔ اس حد تک کہ ایک بار وہ ایک پیر صاحب سے تعویز لینے بھی گئے تھے۔ ایک موقع پر جب اس طرف اشارہ کیا گیا تو انہوں نے کہا تھا:منصب کی آرزو، کوئی گناہ تو نہیں۔ ان سے حسنِ ظن رکھنے والے بعض لوگ سال بھر سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے بڑے بھائی سے بہتر وزیر اعظم ثابت ہو سکتے ہیں۔
بجا ارشاد، وہ ایک متحرک آدمی ہیں۔ بہت سے لوگ اس کے باوجود انہیں اعلیٰ درجے کا ایک منتظم سمجھتے ہیں کہ تمام تر اختیارات وہ اپنی ذات میں مرتکز کر لیتے ہیں۔ دراں حالیکہ نظم و نسق کی سائنس میں یہ ایک بنیادی غلطی سمجھی جاتی ہے۔کابینہ کے آدھے منصب انہوں نے اپنے ہاتھ میں رکھ چھوڑے ہیں۔ ان کے مداح اگر برا نہ مانیں تو آنجناب کسی قدر خبطی واقع ہوئے ہیں۔ سستی روٹی سکیم اور رمضان بازار اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ سستی روٹی سکیم ایک ردِعمل کی پیدوار تھی۔ سات سال ہوتے ہیں، اس ناچیز کے مشورے پر تحریک انصاف پنجاب کے فرشتہ صفت مرحوم صدر احسن رشید نے لاہور میں ان تنوروں کا آغاز کیا، جہاں تین کی بجائے دو روپے کی چپاتی فراہم کی جاتی۔ ہرگز ہرگز یہ ایک سیاسی منصوبہ نہ تھا۔ تحریک انصاف کے سربراہ سے مشورہ تک نہ کیا گیا۔ اس سکیم کا مرکزی خیال یہ تھا کہ اگر کسی محلے کے لوگ تنور کی جگہ فراہم کر دیں تو تنورچی کی تنخواہ عطیات کے پول سے ادا کر دی جائے۔ دس بیس یا سو پچاس آدمی یہ بوجھ اٹھا لیں تا کہ مزدور پیشہ اور غریب لوگوں کی مدد کی جائے۔ گندم کی قیمت 425روپے فی من تھی۔ دو روپے سے زیادہ لاگت کا سوال ہی نہ تھا۔ بڑھتے بڑھتے ان تنوروں کی تعداد تین چار درجن ہوئی تو شہباز شریف گھبرا گئے۔ سامنے کی بات ان کی سمجھ میں نہ آ سکی کہ اگر شوکت خانم ہسپتال جیسا کارنامہ انجام دینے کے باوجود، اس وقت تک عمران خان کی سیاست پروان نہ چڑھ سکی تھی تو چند تنوروں سے کیا ہوتا؟ کروڑوں روپے اور دو برس تک پنجاب کی نوکر شاہی کو جھونک دینے کے بعد آخر کار یہ سکیم بند کرنا پڑی۔ اتوار اور رمضان بازاروں کا معاملہ بھی یہی ہے۔ رمضان المبارک میں چیف سیکرٹری، چار پانچ سیکرٹری اور سینکڑوں سرکاری افسر کار بے فیض میں جتے رہے۔وزارتِ اعلیٰ اور وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داریوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ممکن ہے کہ سول ملٹری تعلقات بہتر ہو جائیں۔ اس لیے کہ شہباز شریف، عسکری قیادت سے تلخی پیدا کرنے کے قائل نہیں۔ جنرل حضرات سے ان کے مراسم نسبتاً بہت زیادہ خوشگوار رہے۔ بڑے بھائی کے برعکس، وہ اس محاذ پر توانائی ضائع کرنے کے قائل نہیں۔ 
سوال دوسرا ہے‘ بفرضِ محال میاں محمد نواز شریف دستبرداری پر آمادہ ہو بھی جائیں تو کیا وہ شہباز شریف کو وزارتِ عظمیٰ تحفے میں پیش کر دیں گے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تفصیل عرض کرنا بدذوقی ہو گی۔ مختصر عرض یہ ہے کہ خاندان میں ان کی مخالفت بہت زیادہ ہے۔ اس ناراضی میں، اس وقت اور بھی اضافہ ہو گیا، جب پاناما لیکس پر تین دن تک انہوں نے معنی خیز خاموشی اختیار کیے رکھی۔ حتیٰ کہ ان کے بلند ہمت صاحبزادے حمزہ شہباز نے بھی، جو عملاً پنجاب کے ڈپٹی چیف منسٹر ہیں۔ اسی پر بس نہیں، ان کی اہلیہ محترمہ تہمینہ درانی نے ایک ایسا بیان جاری کیا، جو بڑے میاں صاحب کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔شبلی کا پھول۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے دستبردار ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ ان کا یہ مزاج ہی نہیں۔ رہی ایک طولانی کشمکش تو اس کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ یہاں ایک اور سوال ابھرتا ہے۔ چند روز یا چند ہفتوں کے بعد اس کشمکش کا انجام کیا مصالحت پرمنتج نہیں ہوسکتا؟ کیوں نہیں ہو سکتا۔
اندازے ہیں، درست ہوتے ہیں اور نا درست بھی۔ ناچیز کا خیال بہر حال یہی ہے کہ فیصلہ 2018ء میں ہو گا، اس سے پہلے نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved