جب چلکوٹ رپورٹ کی اشاعت کے بعد ٹونی بلیئر نے بات کی تو اُن کے چہرے پر پریشانی اور گھبراہٹ کے آثارنمایاں تھے ، اُن کے لہجے میں لڑکھڑاہٹ ، آنکھیں نم آلود، اور زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ اُنھوں نے برٹش، عراق اوراتحادی ممالک کے عراق جنگ کے دوران ہونے والے جانی نقصان اور بعد میں پیش آنے والے واقعات پر تاسف کا اظہار کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آ پ کو اُس شخص کو ترس آتا ہے ،اور آنا چاہیے ، لیکن ٹھہریں، آپ کو یکا یک احساس ہوتا ہے کہ اُنھوں نے اپنے ملک کو جنگ میں جھونکنے پر تہہ دل سے واجب معذرت نہیں کی،اور یہ ندامت کا اظہار اداکاری بھی ہوسکتا ہے ۔
بدنامی کا داغ لیے سابق وزیر ِاعظم نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا تو اُن سے بہت سے تیز و تند سوالات پوچھے گئے، لیکن اُنھوں نے ہمیں دکھایا کہ وہ کس قدر مہان کلاکار ہیں اور کس طرح اُنھوں نے تین انتخابات میں کامیابی حاصل کی ۔ تاہم میڈیا کی یلغار کے سامنے اپنی بہترین کارکردگی کے باوجود اُنہیں اپنے حتمی دفاعی مورچے میں ہی پناہ لینی پڑی کہ اُنھوں نے جو بھی کیا تھا، برطانیہ کے بہترین مفاد کو پیش ِ نظر رکھ کر کیا تھا، نیز اُنھوںنے برطانوی عوام سے کوئی جھوٹ نہیں بولا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ صدام حسین کے بغیر دنیا ایک بہتر اور زیادہ محفوظ جگہ ہے ۔ سابق وزیر ِاعظم کا کہنا تھا کہ اگر کبھی دو بارہ ویسے ہی حالات پیدا ہوجائیں تو اُن کا پھر بھی فیصلہ وہی ہوگا جو اُس وقت کیا تھا۔
بلاشبہ اُن کی ساکھ کو شدید دھچکا پہنچا ہے ۔ چلکوٹ رپورٹ کے بارے میں عمومی تاثر یہی تھا کہ یہ اُن کے تمام گناہوں کو دھوکر سفید کردے گی، لیکن اس کی صاف گوئی نے بہت سوں کو حیران کردیا۔ اس نے 2003 ء میں عراق پر حملے کی بہت سی غلطیوں کو بے نقاب کردیا۔ یہ رپورٹ انٹیلی جنس کی ناکامی سے لے کر یواین کی حمایت کے فقدان، ناقص کوالٹی کی ملٹری کٹ اور عراقی معاشرے کو پہنچنے والے نقصان کا احاطہ کرتی ہے ۔ تاہم اس سے بھی بڑھ کر، اس رپورٹ میں ٹونی بلیئر کی حملے سے بہت پہلے صدر بش کے ساتھ کی جانے والی کمٹ منٹ کا انکشاف کیا گیا ہے ۔ برطانوی وزیر اعظم نے امریکی صدربش کو یقین دلایا۔۔۔''جو بھی ہو، میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔‘‘اس سے اس دیرینہ تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ پارلیمنٹ سے منظوری لینے سے بہت پہلے برطانوی رہنما خفیہ طور پر جنگ کا ارادہ کرچکے تھے ۔
جنگ کا پیش کیا گیا جواز یہ تھا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ تاہم چلکوٹ انکوائری ظاہر کرتی ہے کہ اس حوالے سے انٹیلی جنس غیر واضح تھی، چنانچہ اُس وقت مسٹر بلیئر اور اُن کی کابینہ کو اسے چیلنج کرنا چاہیے تھا۔ بہرحال، جیسا کہ سرجان چلکوٹ کا جائزہ ظاہر کرتا ہے ، ایسی کوئی رپورٹ نہیں تھی جس سے پتہ چلتا ہو کہ صدام حسین کسی طور بھی برطانیہ کے لیے فوری خطرہ تھے۔ سرجان چلکوٹ کا خیال ہے کہ مسائل کے حل کے لیے سفارت کاری کی بھرپور کوشش کی جانی چاہیے تھی اور جنگ کو آخری اور ناگزیر آپشن کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے تھا۔ تاہم صدر بش اور ٹونی بلیئر نے اس کے برعکس، جنگ کو پہلے آپشن کے طور پر استعمال کیا۔
چلکوٹ انکوائری 2009 ء میں سابق وزیر ِاعظم، گورڈ ن برائون نے شروع کرائی تھی۔ اس وقت امکان تھا کہ ایک سال میں یہ انکوائری مکمل ہوجائے گی۔ اب سات سال اور دس ملین پائونڈ خرچ کرنے کے بعد چھبیس ملین الفاظ پر مشتمل یہ رپورٹ تحقیقاتی جائزے کا ایک نادر نمونہ ہے جو بے شمار دستاویزات اور گواہوں کے بیانات کا احاطہ کرتی ہے ۔ بہت سے ناقدین کا خیال تھا کہ 76 سالہ ریٹائرڈ سرکاری افسر انٹیلی جنس افسروں،جنرلوں ، سیاست دانوں اور سرکاری افسروں سے اغماض برتتے ہوئے اُنہیں اس سکینڈل کی ذمہ داری سے الگ رکھیں گے ، لیکن اس رپورٹ نے بہت سوں کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگادیا ہے ۔ اس وقت مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ ٹونی بلیئر کے خلاف سول عدالت میں باقاعدہ مقدمہ چلایا جائے کہ انھوں نے ملک کو عراق جنگ ، جس کا کوئی جواز موجود نہ تھا، میں کیوں جھونک دیا۔ اس جنگ میں ہلاک ہوجانے والے برطانوی سپاہیوں کے اہل ِخانہ بہت دیر سے چلکوٹ رپورٹ کے منتظر تھے ۔ اب وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے نقصان کا باعث بننے والے شخص (ٹونی بلیئر) کو قانون کا سامنا کرنا چاہیے ۔ ایک غمزدہ والدہ نے ٹونی بلیئر کو ''دنیا کا بدترین دہشت گرد‘‘ قرار دیا ۔ وہ اُن کے اظہارِ افسوس سے مطمئن نہیں تھیں۔ بہت سے دیگر والدین، جن کے بیٹے اُس جنگ کی نذر ہوئے، بھی یہی سوچ رکھتے تھے ، وہ بھی عدالت میں جانے کے آپشن پر غور کررہے تھے ۔
اگرچہ بظاہر یہی کہا گیا تھا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں لیکن چلکوٹ کی رپورٹ ظاہرکرتی ہے کہ اصل ہدف عراق میں حکومت کی تبدیلی تھی۔ اقوام ِ متحدہ کے سات سو انسپکٹروں کے سربراہ کے طور پر عراق کے مبینہ ڈبلیو ایم ڈیز تلاش کرنے کے لیے جانے والے ہنز بلیکس(Hans Blix) دی گارڈین میں لکھتے ہیں۔۔۔''میرا نہیں خیال کہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی فوجی کارروائی کی اصل وجہ تھی۔ شاید اقتدار کی تبدیلی ، صدام حسین کو منظر ِعام سے ہٹانا مقصود تھا کیونکہ اُنہیں صدر بش اور ٹونی بلیئر اُس برائی کا ایک حصہ سمجھتے تھے جو نائن الیون کی ذمہ دارتھی، اور یہی جنگ کی اصل وجہ تھی۔‘‘تاہم چلکوٹ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ امریکی حملے سے پہلے عراق میں القاعدہ اپنی موجودگی نہیں رکھتی تھی۔ درحقیقت اس حملے نے عراقی حکومت کی علمداری ختم کردی تو اس میں انتہا پسند گروہ پروان چڑھنے لگے، جن کی انتہائی شکل کو دنیا النصرہ اورداعش کے نا م سے جانتی ہے ۔ باقی تاریخ ہے ۔
یہ رپورٹ اُس وقت منظر ِعام پر آئی جس وقت برطانیہ کو غیر معمولی سیاسی بحران کا سامنا ہے ۔ برایگزٹ کے بعد ڈیوڈ کیمرون مستعفی ہوچکے ہیں، جبکہ ان کی جانشینی کے لیے کنزرویٹو پارٹی میں سہ فریقی جنگ جاری ہے ۔ لیبر پارٹی میں جرمی کوربین کو قیادت سے ہٹانے کی کوشش کی گئی۔ دوسری ''یو کے آئی پی ‘‘ کے رہنما ننگل فاریج نے اپنی زندگی کا مقصد (برطانیہ کو یورپی یونین سے نکالنا) پورا ہونے کے بعد استعفا دے دیا ہے ۔ تاہم چلکوٹ رپورٹ کے تہلکے کے سامنے برطانیہ کا سنگین ترین سیاسی بحران بھی دب کر رہ گیا۔ دوسری طرف ، اگرچہ رپورٹ میں ذمہ داری کا تعین کیا جاچکا ، عراقی عوام کی ابتلا جاری ہے ۔ حالیہ دنوں بغداد میں ہونے والے تباہ کن حملوں میں دوسو پچاس سے زائد افراد ہلاک ہوئے ۔ عراق پر حملے کے تیرہ سال بعد بھی اس کے نتیجے میں پھیلنے والی افراتفری اور انسانی جان کی ارزانی کا کوئی مداوا نہیں ہوسکا۔
اگرچہ چلکوٹ انکوائری رپورٹ عراق کے زحموں پر مرہم نہیں رکھتی لیکن یہ ممکنہ طور پر مستقبل میں ایسی مہمات کا راستہ روکے گی۔ اگر اس کے کرداروں کو عدالت کا سامنا کرنا پڑا، وہ قصور وار ثابت ہوگئے اور اُنہیں سز ا بھی مل گئی تو یہ کارروائی ایک ڈیٹرنس کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو بھی رہنماوں کی مسخ شدہ ساکھ اور دامن پر لگنے والے بدنامی کے داغ بھی مستقبل میں طالع آزمائی کرنے والوں کو سوچنے پر مجبور کردیںگے ۔ جہاں تک ٹونی بلیئر کا تعلق ہے تو اُنہیں 1956 ء میں نہر سویز بحران کے بعد برطانوی تاریخ کے سب سے تباہ کن فیصلے کی روح ِرواں کے طور پر یادر کھا جائے گا۔ یہ ایسے رہنما ، جو دنیا کے عظیم سیاست دانوں کے درمیان خود کو دیکھنے کے خواہش مند تھے، کے لیے ایسی بدنامی چشم کشا ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ تکبر اور خودسری کی کتنی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے ۔