حضرت رئیس امروہوی
رئیس اپنے متعلقین کے علاوہ پرانے کارکنوں کے لیے بھی کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ دکھی لوگوں کے لیے جیب ہلکی کرنے سے زیادہ نہیں کتراتے‘ کماتے بھی تو بس یہی پانچ ہزار روپے ماہانہ ہیں‘ کیا نہائیں اور کیا نچوڑیں۔ مانا کہ شرر و برق نہیں، شعلہ و سیماب نہیں‘ سیماب وش ضرور ہیں۔ ایک اضطراری کیفیت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب گھر میں ملنے جلنے والوں کا تھوڑا سا بھی اضافہ ہو جائے، عوامی ہو گئے ہیں اس لیے نئے اور اونچے درجے کے ملاقاتیوں سے اور گھبراتے ہیں۔ کیاریوں میں پانی اورکبوتروںکو دانہ ڈالیں گے‘ کبھی میز پر جا کر چند سطریں لکھیں گے۔ حُقے کے کش بے تحاشا‘ بلاوجہ ٹہلنا‘ بیقراری سی دوڑ جاتی ہے۔ ہاں، تقی صاحب کے ہاں شام کی نشست میں بیٹھ بھی جاتے ہیں‘ ملکی عالمی معاملاتِ سیاست پر بے تحاشا گفتگو کے قائل نہیں‘ ایک رائے ضرور ہے، اپنی رائے رکھتے ہیں‘ بولتے کم‘ سُنتے زیادہ ہیں۔ گپ ہانکنا ہو تو خوب چہکیں گے‘ بے ضرر جھوٹ ہزاروں بولے ہوںگے۔ سفارش مطلوب تھی، آج نہیں کل چلیں گے، یار وعدہ رہا‘ دوسری صبح جونہی میں نے صحن میں قدم رکھا جلدی جلدی کمبل اوڑھ جبڑ بجانے لگے۔ گویا سردی کا بخار چڑھ رہا ہے‘ بھانپ بھی چکا تھا‘ دیکھ بھی لیا تھا‘ یہی کہا کوئی ہرج نہیں پھر کبھی دیکھا جائے گا۔ فوراً کھل اُٹھے اور اپنے مطلب کی باتیں کرنے بیٹھ گئے‘ یہ تک بُھول گئے ایک حیلہ ابھی
تراشا تھا‘ اس کا بھرم بھی رکھنا چاہیے۔ نہیں نہیں وہ بڑے دلیر ہیں‘ ایسی باتوں کو نہیں پوچھتے۔ سفارش سرسری کرنے میں حاتم ہیں‘ جتنے چاہے خط لکھوا لیجئے‘ سوچے سمجھے پوچھے بغیر گھسیٹ ڈالیں گے‘ معاملہ اگر واقعی سنجیدہ اور سخت ہے تو یہاں ہمیں رئیس کے وجود کی نفی کرنا پڑے گی۔ بارہا جھگڑ چکا ہوں‘ ہم یہ کہتے ہیں اکثر و بیشتر اُلٹے کاموں ہی کے لیے سفارش طلب ہوتی ہے‘ سیدھا سا کام ہو تو وہ تو دیر سویر ازخود ہی ہو جایا کرتا ہے اور جہاں یاری دوستی کا پیچ ہو وہاں تو یہ دیکھنا بھی نہیں چاہیے‘ یار ہمارا اچھا ہے بُرا ہے کیا ہے‘ ہمیں تو بھرپور تعاون اور سر دھڑ کی بازی لگا دینی چاہیے‘ ہمارا زورِ تقریر وہ چٹکیوں میں اُڑانا خوب جانتے ہیں۔ خطوں میں لمبی چوڑی دلیلیں دیں گے‘ یہ ثابت کر کے رہیں گے ان کی تو کوئی سنتا ہی نہیں‘ میاں میں کیا ہوں، کچھ بھی تو نہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ چند مخصوص لوگوں کے لیے میرے سامنے چل کر گئے اور حکومت وقت سے روپے پیسے، قطعات اراضی وغیرہ سے مالا مال کر آئے۔ میں احسان فراموش کیوں بنوں‘ زرعی ترقیاتی بینک کے صدر کے ایس اسلام سے مجھے ساتھ لے جا کر ملے اور یکمشت وصول کیے جانے والے قرض کو اقساط میں بدلوا دیا اور میں رسوائی سے بچ گیا‘ اس لطف خاص کا شکر کس مُنہ سے ادا کیجئے۔
تمام عمر مخالف بنچوں پر بیٹھتے گزر گئی۔ ایوب خانی فوجی حکومت پر خوب کس کر تنقید کرتے رہے۔ عنانِ اقتدار سنبھالے ہوئے ابھی دو ہی مہینے گزرنے پائے‘ جرأت رندانہ دیکھیے:
بڑی مشکل سے روحِ حریّت کی پرورش کی ہے
دعا یہ کر کے روح حریّت غارت نہ ہو جائے
ہمیں پابندیاں منظور ہیں لیکن یہ خطرہ ہے
غلامی کی کہیں اس قوم کو عادت نہ پڑ جائے
اس حق گوئی اور بیباکی کا صلہ کیا ملتا‘ الٹا یہ ہوا کہ جنگ ستمبر 1965ء میں سب سے اچھے اور مقبول جنگی نغمے لکھنے والے رئیس امروہوی کی پذیرائی تو نہ ہوئی، ان کے یہ ترانے گانے والے مہدی حسن اعزاز و اکرام کے سزاوار بھی ٹھہرے اور تمغہ حسن کارکردگی بھی پایا۔ شورش کاشمیری نے خوب لکھا ہے: رئیس جو کچھ بزبانِ شعر کہتے ہیں ارباب اقتدار کی رسائی اگر بات کی روح تک ممکن ہو جائے تو مُنہ موتیوں سے بھرا جائے یا دار پر کھینچ دیئے جائیں۔ رئیس کا سابقہ ظاہر ہے دوسری صورت سے پڑا۔
مسلم لیگ کو لیگیوں نے دفن کر دیا۔ اسلام کے نام پر حاصل کئے جانے والے پاکستان میں قرآنی ضابطہ حیات کیوں جاری و ساری نہ ہو سکا‘ اس میں ہمارا آپ کا حصہ کم‘ کیا دھرا سبھی کیا علمائے کرام کا ہے۔ یہ لوگ مدرسوں‘ خانقاہوں‘ مسجدوں اور حجروں میں رہے، میدان عمل میں جادہ پیمائی غیر کا حصہ بن گئی۔ یہ طبقہ تھا انگریز کا پروردہ اور سدھایا ہوا‘ انگریز کی نقالی ورثہ تھا ان کا اور ہے بھی۔ حالات اور خصوصاً زاویہ فکر و نظر کچھ سے کچھ ہو کر بات بڑھتے بڑھتے انتخابات اور لامذہبیت تک پہنچی‘ لوگ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاتے ہوئے ''سوشلزم‘‘ کی آغوش میں جا پڑے۔ پیپلز پارٹی اس کی نقیب، رئیس بھی اس کے حامی، کُھل کر ڈٹ کر بھٹو صاحب کی حمایت کی‘ پارٹی ٹکٹ کو جنت کا ٹکڑا کہتے تھے‘ آنے جانے والے سے اس کی تائید کا تقاضا اور فتح و نصرت کی دعا کرتے۔ بھٹو صاحب کے جیتنے کا سان گمان بھی کسے تھا‘ بھلا ہو ملائوں کا‘ آپس میں خوب لڑے اور جمہوریت کی مرغی حرام ہو کر رہی۔ انتخابات بھی اپنی وضع کے ایک ہی ہوئے تھے، سبھی خوش ہوئے، مغرب میں بتیس فیصد حمایت حاصل کر کے پیپلز پارٹی اکثریت بن کر سامنے آئی‘ مشرق سے شیخ مجیب الرحمن پورے جاہ و جلال کے ساتھ طلوع ہوئے‘ یہاں دل میں چور پہلے سے تھا‘ انتقالِ اقتدار میں روڑے اٹکائے گئے‘ کُھلم کُھلا اُدھر تُم اِدھر ہم کے نعرے بلند ہوئے‘ ہاں میں ہاں یہاں سے بھی ملائی گئی۔ بالآخر ملک کے حصے بخرے کر کے اقلیت یہاں غیر قانونی طور پر حکمران بن بیٹھی۔ کام کے کام ان سے کیا ہوتے‘ جاگیردار آگے آگے تھے‘ تمام عقیدت و محبت کے باوجود رئیس نے جہاں جہاں کوتاہیاں ہوئیں آڑے ہاتھوں میں کچھ اس طرح سے لیا:
پیپلز پارٹی نے کیے تھے جو قوم سے
وہ عہد کچھ وفا نہ کیے کچھ وفا کیے
دو گز زمین قبر تھی جس کے نصیب میں
اُس نیم جاں کو ڈیڑھ سو ایکڑ عطا کیے
پیپلز پارٹی سے بدظن ہو کر ہوائی مارشل اصغر خاں کی تحریک استقلال میں محمود الحق عثمانی کے کہے سُنے سے شرکت کا غیر رسمی اعلان چھپوایا گیا۔ اردو قومیت کی فلاح و بہبود اور بقا کا ایک حربہ میں سمجھتا ہوں یہ بھی تھا‘ کچھ ایسا ہی تھا یہ قصہ، اصغر خاں سے باضابطہ ملاقاتیں بھی رہیں‘ دوبارہ انتخابات کا موسم آیا تو حضرت کہتے تو یہ ہیں کہ عالم سرور تھا‘ پھر پیپلز پارٹی میں وارد ہوئے‘ باقاعدہ وفاداری کا اعلان چھپوایا...
آج کا مطلع
یہ شہر چھوڑ دے کہ شرافت اسی میں ہے
رُسوائے شہر! اب تری عزت اسی میں ہے