گزشتہ دنوں ایک دن کی بارش نے کوئٹہ کو اس طرح پانی میں ڈبو دیا کہ نہ تو کہیں نکاسی آب کا کوئی رستہ مل رہا تھا اور نہ ہی کسی کو جائے پناہ مل رہی تھی۔ پانی گھروں کے اندر ٹھاٹھیں مارتا رہا۔ یہ تباہی وبر بادی صرف ایک دن کی بارش کا تحفہ ہے جبکہ ابھی مون سون شروع ہوا ہے ہسپتال اس طرح پانی سے بھر گئے کہ مریضوں کو چھتوں پر منتقل کرنا پڑا ۔یہ کوئٹہ جیسے شہر کا حال ہے۔ یہی مناظر تربت اور کوہلو میں بھی دکھائی دیئے ۔ ایسا لگتا ہے گزشتہ 70 سالوں میں کوئٹہ میں نکاسی آب کیلئے سوچا ہی نہیںجا سکا۔ بہاریں آئیں خزاںگزرا ، گرمیاں آئیں اور سردیاں گزر گئیں لیکن کوئٹہ اور بلوچستان ویسے کے ویسے ہیں ۔ بلوچستان پر حکومت کرنے والوں میں سے کسی ایک کو بھی صوبے کے غریب عوام کا خیال نہیں آ سکا؟۔ نہ بجلی ہے اور نہ ہی امن وامان نہ سکول ہیں اور نہ ہی استاد۔ پانی جس کو مل گیا سو مل گیا، باقی سب حیران و پریشان تو پھر یہ سب فنڈز کہاں گئے کدھر گئے زمین کھا گئی یا آسمان چٹ کر گیا ؟۔ ایک دن کی بارش نے کوئٹہ کی اب تک کی سب حکومتوں کی کارگزاری کو بے نقاب کر کے رکھ دیا۔ اب ہر سیاسی جماعت ایک دوسرے کو الزام دے رہی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے چھوٹے صوبے کا صرف ایک صوبائی سیکرٹری اپنے گھر میں65 کروڑ روپے نقد سنبھال کر بیٹھ سکتا ہے تو آج اور کل تک اس سے کم اور بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں نے اپنے اپنے گھروں اور گوداموں میں قوم کی کتنی دولت چھپائی ہو گی ؟۔ پاکستان بننے سے لے کر اب تک پاکستان میں اقتدار اور اختیارات کے مزے لوٹنے والے سیا ستدانوں، سول اور عسکری عہدوں پر فائز لوگوں کی تعداد اگر پانچ ہزار فرض کر لی جائے اور پھر ان پانچ ہزار صاحبان اقتدار و اختیار لوگوں نے اپنے گھروں میں اوسطاً پچاس کروڑ روپے حکومت پاکستان کے فنڈز سے ''کمانے کے بعد سنبھال کر رکھے ہوں‘‘ تو یہ کھربوںبن جاتے ہیں۔ اگر اس پیسے سے پاکستان کے ہرایک قصبے اور گائوں پرایک ایک ا رب روپیہ بھی خرچ کیا جاتا اور اس میںوہ رقم جو ملک بھر میں اب تک ظاہری طور پر خرچ ہوچکی ہے اس میں شامل کر دی جاتی تواب تک بلوچستان کیا پاکستان بھر کے عوام کی زندگیوں میں انقلاب آ چکا ہوتا وہ رقم جو صوبوں کے سالانہ بجٹ کے علا وہ مرکزی حکومت علیحدہ سے صوبوں کو مہیا کرتی چلی آ رہی ہے اس کا بھی حساب کریں تو آنکھیں نم ناک ہو جائیں گی کہ اس قدر لوٹ مار؟ ۔۔۔نہ جانے بلوچستان میں اب تک کتنے مشتاق رئیسانی اور لانگو ہیں جنہوں نے غریب بلوچ عوام کو نوچ نوچ کر کھا نے کے بعدالزامات اسلام آباد اور پنجاب پر لگا دیئے۔ کس قدر شرم کی بات ہے کہ چھوٹے صوبوں کے مجبوروں کو ان کے بڑے ہی کھا گئے۔بلا شبہ پنجاب کی بیوروکریسی اور سیا سی قیا دت نے بھی بلوچستان سمیت پاکستان کے وسائل پر ہاتھ صاف کئے ہیں لیکن اس میں مجرم سندھ اوربلوچستان کے افسران ، سرداران، سیا ستدان بھی ہیں نہ کہ اکیلے پنجاب اور اسلام آباد والے؟۔کیا محترمہ بے نظیر بھٹو دو دفعہ وزیر اعظم نہیں رہیں؟۔ کیا آصف زرداری پانچ سال تک ملک کے صدر نہیں رہے؟۔ کیا پیپلز پارٹی چار دفعہ سندھ کی حکمران جماعت
نہیں رہی؟۔تو اگر سندھ کی یہ قیا دت چاہتی تو سندھ میں بہترین اور چوڑی سڑکوں کا جال ہوتا، سکول، ہسپتال ، بجلی، پانی اور گیس کی کمی نہ ہوتی؟۔ تو پھر اس میں کس کا قصور ہے آپ کی قیا دت کا نہ کہ پنجاب اور اسلام آباد کا؟۔
مشتاق رئیسانی سیکرٹری خزانہ بلوچستان کے گھر سے بر آمد ہونے والے یہ صرف65 کروڑ ہی نہیں بلکہ ایک رپورٹ کے مطابق کلفٹن اور ڈی ایچ اے کراچی میں ان کے ایک ایک ارب روپے کے بنگلوں کی بھی نشاندہی ہو چکی ہے اب اندازہ کیجئے کہ سیکرٹری صاحب کے'' ماسٹرز‘‘ کے پاس کیا کچھ ہو گا اور یہ تو وہ جائداد ہے جو پاکستان میں ہے اب اگر دوبئی اور دنیا بھر میں پاکستان کے تمام حاضر سروس اور ریٹائر سرکاری افسرا ن کی جائدادوں کا سراغ مل جائے تو پورا ملک سر پکڑ کر بیٹھ جائے کہ لٹیرے وہ نہیں جو جیلوں میں ہیں بلکہ وہ سب
ہیں جو اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ان کی قسمتوں کے فیصلے کرتے رہے ہیں ۔۔۔۔ سوچئے کہ اگر پاناما لیکس اور سوئٹزر لینڈ کا مال بھی ایک ساتھ ملک میں واپس آ جائے تو پاکستان کے سب عوام اگر سونے کا نوالہ نہیں تو عزت اور بھر پور لذت کے نوالے ضرور کھاتے نظر آئیں نہ کوئی ہسپتالوں میں ایڑیاں رگڑتا ہوا نظر آئے اور نہ کوئی انصاف کیلئے دھکے کھاتا پھرے۔ایک خواب کی طرح ہی سہی لیکن سوچئے کہ یہ تمام لوٹا ہوا مال اگر ملک کے اندر خرچ ہوتا تو نہ یہاں بجلی جانے کا نام لیتی اور نہ ہی گیس اور پانی کا رونا رہتا؟۔ اگر پاکستان بننے کے بعد سے اب تک ملک میں بر سر اقتدار رہنے والوں کو پکڑ پکڑ کر ان سے تھرڈ ڈگری کے ذریعے اگلواکر ان کا ایک ایک پیسہ واپس لایا جائے تو شائد یہاں سے کوئی باہر جانے کا نام ہی نہ لے اور عام فلائٹس سے نہیں بلکہ چارٹرڈ طیاروں سے ٹورسٹ پاکستان میں اترتے اور دنیا بھر سے لوگ پاکستان میں آنے کیلئے قطاریں لگائے ائر پورٹس پر کھڑے نظر آتے۔ گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر ، خیبر پختونخوا کی طرف نظر دوڑائیں تو سوات، نتھیا گلی، ایبٹ آباد، مانسہرہ، چترال، کاغان ،ناران، بلوچستان اور موہنجو داڑو سے فورٹ منرو تک ادھر پنجاب میں مری سے لے کر چکوال، کھیوڑہ اور چولستان تک ایک ایک کونہ دیکھنے والا ہے ۔ضروری تھا، کہ سیاحتی مقامات میں جدید سڑکوں کا جال بچھا دیا جاتا۔ ہوٹل، پانی ،گیس اور بجلی کی وافر سہولیات فراہم
کر دی جاتیں؟۔مگر افسوس کہ لٹیری بیورو کریسی اور سیا ستدانوں نے آپس میں ایکا کرتے ہوئے ملک کا ستیا ناس کر کے رکھ دیا ۔۔۔۔صرف لاہور سے گنڈا سنگھ والا اور قصور سے دیپالپور تک کی دو رویہ سڑکوں کو سامنے رکھیں تو یہ منصوبہ جنرل مشرف نے 2004-5ء قصور کے ایک جلسہ عام میں شروع کر نے کا اعلان کیا تھا اور اس پر بارہ ارب روپے سے زائد کے فنڈز جاری کئے تھے لیکن یہ منصوبہ ٹھیکیداروں اور افسران کی من مانیوں کی نظر ہوتا رہا۔یہ منصوبہ 2008ء کے بعد پنجاب میں شہباز شریف کے پہلے دور حکومت میں مکمل تو ہو چکا ہے لیکن اگر اس میں سے لوٹے ہوئے مال کی تحقیقات کی جائے تو پنجاب کے نہ جانے کتنے رئیسانی بے نقاب ہوں ؟۔
جنرل مشرف کے دور حکومت میں منظور کئے جانے والے چھوٹے صوبے بلوچستان کے ترقیا تی پراجیکٹس کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایسا لگے گا کہ فوجی حکومت کی سب سے زیا دہ توجہ سندھ اور بلوچستان پر ہی مر کوز رہی ہے۔ پھر یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ سندھ اور بلوچستان کے عوام محرومی کا شکار ہیں سندھ کے رئیسانیوں کی تو اربوں روپوںسے لدی ہوئی سمندری لانچیں پکڑی جا رہی ہیں اور اگر ان لانچوں کا پیسہ سندھ کے ہاریوں اور غریبوں پر خرچ کر دیا جاتا تو اچھے اچھے سکولوں اور ہسپتالوں کی کمی نہ ہوتی اور نہ ہی پانی اور بجلی کی کمی کے ساتھ ساتھ سندھ میں کوئی بے روزگار نظر آتا۔ سندھیوں اور بلوچیوں کو لوٹنے والا سندھ کا کوئی ہاری کوئی براہوی کوئی پشتون اور کوئی چرواہا نہیں ہے بلکہ نقاب اتارا جائے تو سردار، وڈیرے اور شاہوں کے شاہ ہی نظر آئیں گے؟۔ ۔۔۔!!