ملک بھر میں عبدالستار ایدھی کے ہونے والے جنازے دیکھ کر پتہ چلا کہ بادشاہ کون ہوتا ہے؟ ہمارے اخبار نویس اور کالم نگار بلاوجہ پاکستانی خزانے میں محفوظ کی ہوئی غریبوں کی رقم پر گزر اوقات کرنے والوں کو‘ خدا جانے کیوں بادشاہ کہتے اور لکھتے رہتے ہیں؟ اصل بادشاہ عبدالستار ایدھی تھا‘ جو ڈنکے کی چوٹ پر بھیک مانگتا اور ضرورت مندوں پر خرچ کرتا۔ خود عاجزی اور انکسار کا پیکر تھا جبکہ بادشاہ اس کی خدمت میں حاضر ہوکر سلام پیش کرتے۔ دوسری طرف ہمارے بادشاہ ہیں کہ غریب کی جیب سے پیسہ چرا کر مکرتے رہتے ہیں اور اپنے کارندوں سے کہلواتے ہیں کہ بادشاہ سلامت نے تو غریبوں کا پیسہ اپنی ذات اور خاندان پر خرچ نہیں کیا۔ ہمارے بادشاہ اپنے پورے خاندان کو پی آئی اے کے بوئنگ طیارے میں لے کر پاکستان واپس آئے تو یہ خبریں شائع ہوئیں کہ پی آئی اے کا777 طیارہ حاصل کرنے کا خرچ‘ شاہی خاندان نے اپنی جیب سے کیا تھا۔ کچن میں کام کرنے والے ایک وزیر نے جسے عرف عام میں کچن کیبنٹ کا رکن کہتے ہیں‘ وضاحت کی کہ اس طیارے کا خرچ وزیراعظم کے ایک صاحبزادے نے اپنی جیب سے ادا کیا تھا۔ یہ صاحبزادے بھی غیر ملکی نہیں‘ جن سے پاکستانی قوم حساب نہ مانگ سکے۔ آخر کار وہ ہمارے وزیراعظم کے بیٹے ہیں۔ ان کے پاس جتنی دولت بھی ہے‘ اس میں ان کے والد گرامی کا کچھ نہ کچھ حصہ تو ہو گا اور جو حصہ ہے‘ اس کا حساب مانگنا ہر پاکستانی کا حق ہے۔ خود وزیراعظم نے ٹیلی ویژن پر آکر اعلان کر رکھا ہے کہ ان کے صاحبزادوں کے پاس جتنی دولت ہے‘ وہ انہوں نے خود کمائی ہے لیکن جو حساب کتاب بتایا گیا‘ اس کے مطابق تو بچوں کو والد محترم کی طرف سے رقم ملی اور انہوں نے اپنی صلاحیتیں استعمال کرتے ہوئے اس میں بے تحاشہ اضافہ کیا۔ گویا سیڈ منی انہیں والد محترم سے ملی تھی‘ جس میں پے در پے فصلیں اگاتے ہوئے وہ اضافہ در اضافہ کرتے چلے گئے۔
جہاں تک مجھے معلوم ہے‘ صاحبزادے کے والد محترم ‘حکومت پاکستان کے خرچ پر لند ن میں علاج کرانے گئے۔ میںایک معمولی سا صحافی ہوں۔ مجھے دفتر کی طرف سے میڈیکل الائونس ملتا ہے‘ جس میں دوائوں اور ہسپتالوں کے اخراجات شامل ہیں۔ میں گزشتہ چھ مہینوں سے زیر علاج ہوں۔ لاہور کے بہترین ہسپتالوں کے ڈاکٹروں سے علاج کراتا ہوں۔ اسی طرح میری بیوی کو بھی دفتر کی طرف سے علاج کی سہولیات میسر ہیں۔ لیکن مجھے جو تنخواہ ملتی ہے‘ میں اسی میں ہی دونوں میاں بیوی کے علاج کراتا رہتا ہوں اور خدا کا شکر ہے‘ تنگ دستی محسوس نہیں کی۔ اس میں کوئی خاص بات نہیں۔ اگر میری آمدنی کم ہو تو میرا حق ہے کہ میں طبی اخراجات دفتر سے حاصل کروں۔ مگر ہمارے بادشاہ سلامت ایک طرف تو اپنی تقریروں میں خاندانی خوش حالی کے دعوے کرتے ہیں۔ مثلاً انہوں نے پاناما لیکس کے سوال پر جو تقریریں کیں‘ ان میں انہوں نے خاندانی دولت مندی کا ذکر بڑے فخر سے کیا اور پی آئی اے کا بوئنگ طیارہ مفت استعمال کرنے پر کچن کیبنٹ کے ایک رکن نے جو دعویٰ کیا‘ وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ موصوف نہ تو وزیر خزانہ ہیں‘ نہ ہی وزیراعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری اور نہ ہی ان کے ذاتی منشی، انہوں نے کس بنیاد پر دعویٰ کیا؟ کہ جہاز پر رقم کس نے خرچ کی؟ وہ کابینہ کے رکن ہیں۔ وزیراعظم کے خاندانی ملازم نہیں ‘جو انہیں خبر ہو کہ جہاز کا خرچ ان کے کس صاحبزادے نے اداکیا تھا؟
سننے میں آیا تھا کہ وزیراعظم جب بغرض علاج لندن روانہ ہوئے تو ان کے ساتھ تین مزید طیارے وہاں گئے تھے۔ افوا ہ یہ ہے کہ یہ سب پی آئی اے سے مفت لئے گئے تھے۔کچن میں کام کرنے والے ترجمان وزیر کے لئے مناسب ہو گا کہ وہ ان تین طیاروں کے بارے میں بھی بتا دیں کہ ان کے اخراجات‘ وزیراعظم کے کس صاحبزادے یا صاحبزادی نے ادا کئے تھے؟ اگر وزیراعظم کی طرف سے رقم ادا کرنے والا کوئی دوسرا شخص تھا تو اور بات ہے۔ اگر کچن کیبنٹ کے رکن کو رقم دے کر کہا گیا تھا کہ وہ پی آئی اے کو ادائی کرے ‘ تو اس کی تحقیق کرناچاہیے کہ کیا پی آئی اے کو پوری رقم ادا کی گئی ہے؟ یا وزیر موصوف نے ڈنڈی مار لی ہے۔ ان دنوں کرپشن کے بڑے چر چے ہیں اور وزیراعظم کی ٹیم کرپشن کے سوال پر جوابات دینے سے گھبراتی ہے۔ پارلیمانی کمیٹیوں کی میٹنگوں کا حال ہی دیکھ لیں کہ اپوزیشن جب حکومتی ٹیم سے پاناما لیکس کا حساب مانگتی ہے تو اس کے اراکین‘ فوراً بلک اٹھتے ہیں اور منہ سے کف چھوڑتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''آپ تو ہمارے وزیراعظم سے حساب مانگنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہم آپ سے بات نہیں کریں گے‘‘۔ اپوزیشن والے کہتے ہیں: ''کیا یہ کمیٹی جھک مارنے کے لئے بنائی گئی ہے‘‘؟ الزام وزیراعظم اور ان کے خاندان پر لگا ہے۔ اگر اپوزیشن کا یہ مطالبہ مان بھی لیا جائے تو خاندان کے تین نام ان میں یقینی ہیں۔ پاناما لیکس میں حسین نواز‘ حسن نواز اور مریم نواز کے نام تو باضابطہ موجود ہیں۔ جب ان تینوں کی انکوائری ہوگی تو ان کے وسائل کا سراغ بھی لگایا جائے گا اور یقینی طور پر ان کے ذرائع آمدنی بھی سامنے آئیں گے‘ جن میں یقینی طور پر والد محترم کا حصہ نکلے گا۔ ایک خاندان کی آمدنی کو خاندان کے سربراہ سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ خصوصاً ہمارے حکمران خاندان کی جو ساخت ہے‘ اس میں سب کی دولت ملی جلی ہوا کرتی تھی۔ اقتدار کے دبائو نے اس خاندان کو اپنے حصے علیحدہ علیحدہ کرنے پر مجبور کر دیا۔
اقتدار کی دولت بڑی ظالم ہوتی ہے۔ اس نے مضبوط رشتوں میں جڑے ہوئے خاندان کو الگ الگ کر دیا اور آج یہ حالت ہے کہ میاں محمد شریف مرحوم کا خاندان بھی اپنے حسابات علیحدہ علیحدہ کرکے دکھانے پر مجبور ہو گیا۔ جو بھی اس خاندان کے بارے میں جانتا ہے‘ اسے یہ سن کر بڑی تکلیف ہوئی ہو گی کہ دولت کی خاطر یہ لوگ بھی الگ الگ ہو سکتے ہیں مگر کیا کیا جائے؟ بادشاہت جس میں دُور سے بہت جاہ وجلال نظر آتا ہے درحقیقت اسے بھیک مانگنے والے عبدالستار ایدھی نے حقیر کر کے رکھ دیا۔ وہ بھیک جمع کر کے بادشاہت کرتا رہا اوردنیا اس کے سامنے ادب و احترام سے سر جھکاتی رہی۔ مرنے کے بعد بھی اس کی بادشاہت میں فرق نہیں پڑا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ‘ اس کی عزت و احترام میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسے دفن کرتے وقت‘ افواج پاکستان نے19توپوں کی سلامی دی۔ صرف دو سلامیاں حقداروں کو ملیں۔ ایک سلامی غاصب ‘ قاتل اور جھوٹے کو دی گئی‘ جس کی واحد وجہ یہ تھی کہ مرتے وقت وہ اقتدار پر قابض تھا۔ جن دو فرشتہ نما انسانوں کو یہ اعزاز ملا وہ حضرت قائداعظم محمد علی جناح ؒ تھے اور دوسرے عبدالستار ایدھی۔ ایک نے انتہائی طاقتور دشمن کو شکست دی اور دوسرے نے اپنے عوام کے دل جیت کر بادشاہی پائی۔ جو اقتدار اور دولت پر قبضہ کر کے بادشاہ بنے بیٹھے ہیں‘ وہ ایک فقیر سے بھی کم تر ہیں۔ عبدالستار ایدھی نے اپنی زندگی میں‘ موت کے وقت جسم کے تمام صحت مند حصوں کو بطور عطیہ دینے کا اعلان کر رکھا تھا۔ لیکن موت کے وقت جسم کا کوئی بھی عضو‘ قابل استعمال نہیں رہ گیا تھا کہ بطور عطیہ دیا جا سکے۔ صرف آنکھیں ہی اس قابل تھیں جو عطیہ کر دی گئیں ۔ عوام محو حیرت ہیں کہ ہمارے بادشاہوں کے ساتھ یہ نا انصافی کیوں ہو رہی ہے؟ کاش! دونوں حکمران بھائیوں کو ایدھی صاحب کی ایک ایک آنکھ دے دی جاتی۔ وہ اپنے عوام کو اسی طرح انصاف سے دیکھیں جیسے ایدھی مرحوم دیکھا کرتے تھے۔ عوام کا بھی فائدہ ہوتا اور ہمارے انصاف سے محروم بادشاہوں کا بھی فائدہ ہو جاتا۔ انہیں بھی خلق خدا دعائیں دیا کرتی‘ جو انہیں شاید ہی نصیب ہوں۔