'' کیا کسی کو شک ہے کہ حضرت عبد الستار ایدھیؒ ایک مہاجر تھے اور افواج پاکستان کے ایک ایک جوان اور افسر نے ' دھرتی کے اس بیٹے‘‘ کی کس قدر تعظیم کی‘ فوج نے کس طرح ان کا جنازہ ادا کیا، آرمی چیف، نیول چیف اور ائر چیف تینوں نے انہیں اس طرح سلامی دی کہ سارا پاکستان ان کے دکھ میں شامل ہو کر رو پڑا‘ پنجاب کے ایک ایک کونے اور کے پی کے کی دور دراز پہاڑیوں اور بلوچستان کے ہر میدان سے ایدھی صاحب کی روح کے ایصال ثواب کی دعائیں گونجتی رہیں اس لیے کہ وہ مہاجر ہونے کے با وجود اس دھرتی کا بیٹا تھا۔۔۔ دور نہ جائیں کچھ عرصہ پہلے امجد صابری کو جب لیاقت آباد میں گولی مار کر شہید کیا گیا تو سارا پاکستان ان کیلئے ایک آواز ہو کر چیخ پڑا پنجاب ، خیبر پختونخوا کا وہ کون سا گھر ہے جہاں ان کے لیے آنسو نہیں بہائے گئے۔ بلوچستان کی وہ کون سی وادی اور مسجد ہے جہاں ان کی روح کے ایصال ثواب کیلئے دعائیں نہیں مانگی گئیں ان کے جنازے میں شرکت کرنے والوں کی ویڈیو ایک بار پھر سے دیکھی جائے تو اس میں ہر زبان کے لوگ نہ جانے کہاں کہاں سے شرکت کرنے کیلئے کئی کئی میل پیدل چلتے ہوئے پہنچے تھے، اس لیے نہیں کہ وہ ایک مہاجر تھا بلکہ اس لئے کہ وہ اسی دھرتی کا بیٹا تھا۔ امجد صابری شہید جب تک زندہ تھے تو ان کا کلام سننے والے انہیں اپنے ہاں مدعو کرنے والے کسی ایک زبان کے شیدائی نہیں تھے بلکہ سب کے سب پاکستانی تھے انہیں پاکستان کے ہر کونے سے بلایا جاتا اور ان کے کلام کو سراہا جاتا رہا۔۔۔کسی ایک نے بھی انہیں یہ کہہ کر دور نہیں کیا کہ امجد تم ایک مہاجر ہو!!کیا کراچی کے لوگ بھول چکے ہیں کہ مولانا عبد الستار ایدھی نے1970ء میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا تھا ۔ وہ دونوں انتخابی حلقوں سے شکست کھا گئے تھے کیا اس وقت تک وہ مہاجر نہیں تھے؟ ا نہیں اس لیے شکست دی گئی کہ وہ دھرتی کے بیٹے نہیں تھے۔عالم صاحب یاد رکھیئے! جس طرح چھوٹے چھوٹے سوراخ بند کمروں میں سورج طلوع ہونے کا پتہ دیتے ہیں اسی طرح کی گئی چھوٹی چھوٹی باتیں انسان کے کردار اور مقاصد کو نمایاں کرتی ہیں؟۔آپ میں سے بہت سے لوگوں کو ماہ رمضان کے حوالے سے ایک نجی چینل کے عالم صاحب کا پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہو ا ہو گا یہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ تھا جس میں وہ اپنے انعامات کی بارش کرنے والا پروگرام کر رہے تھے اور جیسے ہی ان کا یہ پروگرام پیک پر پہنچا تو یک دم انہوں نے بھر پور اداکاری کرتے ہوئے پر سوز آواز میں اپنے کسی قومی نغمے یا کراچی کے حوالے سے تیار کئے جانے والے گیت کے بارے میں فوج کے ادارے آئی ایس پی آر سے بھر پور شکوہ کرتے ہوئے کوئی پانچ منٹ تک سامعین اور نا ظرین کے ذہنوں میں یہ سوچ بٹھانے کی کوشش کی کہ ان کا وہ گیت صرف آئی ایس پی آر یعنی فوج نے اس لیے ٹی وی چینل پر نشر کرنے سے روک دیا ہے کہ وہ اس'' دھرتی کا بیٹا نہیں ہے‘‘۔ عالم صاحب نے انگریزی کا فقرہ I am not the son of soil جان بوجھ کر پانچ چھ مرتبہ استعمال کیا یہ سب فقرے بازیاں کراچی میں بیٹھ کر کی گئیں جہاں کی فضا کو افواج پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی پہلے سے ہی بھر پور کوششیں جاری ہیں۔ جہاں ایک جانب نام نہاد بلوچ علیحدگی کے نام سے سر
گرم ہیں۔ ان کا ساتھ دینے کیلئے را پوری طرح نقب لگائے ہوئے ہے تو دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان کے نام کے پردے میں بھارت اور افغانستان سے ہر طرح کی مدد لینے والی مذہبی تنظیمیں ہیں جو فرقہ واریت کے نام سے آگ اور خون کی ہولی کھیل رہی ہیں میں یہاں پر فوج کے اس ادارے کے ترجمان کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک پاکستانی ہونے کے ناتے سے ان عالم صاحب سے گزارش کرتا ہوں کہ اپنے الفاظ کو ایک بار پھر غور سے سنیں۔ ہو سکتا ہے کہ میری طرح کے اور بھی محب وطن لکھاریوں کو آئی ایس پی آر کے رویے اور طرز عمل سے اختلاف ہو لیکن کیا کسی ایک شخص یا ادارے کی کسی معمولی غلطی یا اس کے چند ایک لوگوں کے تضحیک آمیز رویے سے پورے ملک کی نظریاتی سرحدوں کی مخالفت شروع کر دی جائے؟۔ ملک کے حقیقی نظریے سے بغاوت شروع کر دی جائے یا فوج کے پورے ادارے کو رگیدنا شروع کر دیا جائے؟۔ افواج پاکستان کا دفاع کرنے پر نام نہاد لبرل اور ترقی پسند مجھے اپنی مجلسوں اور اور ای میلز میں فوج کا ایجنٹ اور نہ جانے کن کن بیہودہ الفاظ سے مخاطب ہوتے ہیں۔ میرے شدید ناقدین اور قارئین گواہ ہیں اور یہ ادارہ بھی گواہ ہے کہ ان کے نظر انداز کرنے کے با وجود میرے اندر کا ایک محب وطن پاکستانی پھر بھی نہیں مر سکا اور میں اپنے وطن کے دشمنوں کا پہلے سے بھی زیا دہ طاقت اور ہمت سے مقابلہ کر رہا ہوں اور اس کی مجھے جو قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے اس کا ذکر کردوں تو میرے ناقدین اور اس ادارے سمیت سب کی روح تک کانپ جائے ۔یہ چند الفاظ نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے اس لئے لکھنے پڑ گئے کہ عالم صاحب کہیںیہ نہ سمجھ لیں کہ میں اس ادارے کا دفاع کر رہا ہوں۔
حضرت مولانا عبد الستار ایدھی کی نماز جنازہ کی ادائیگی سے چند لمحے پہلے کی تصاویر پر نظر ڈالیں تو کراچی سے تعلق رکھنے والے صدر ممنون حسین اور رضاربانی آپ کو ہنستے اور مسکراتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیںجبکہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف ایدھی صاحب کے بچوں کو ساتھ لگائے ہوئے دلاسے دیتے ہوئے صبر کی تلقین کر رہے ہیں۔کسی ڈرامے میں مہاجر کا کردار ادا کرنے سے آپ مہاجر نہیں بن جاتے۔ آپ سے یہ سوال اس لئے اٹھایا ہے کہ اگر ایسا نہ کرتا تو چپ اور خاموش رہ کر منافق بن جاتا کیونکہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور سننے کے بعد اگر اس پر احتجاج نہ کیا جائے تو یہ عمل اپنے وطن سے وفاداری کے زمرے میں نہیں آئے گا ....!! ''