اسلام آباد‘ لاہور‘ کراچی‘ حیدر آباد بلکہ ملک کے تمام قابل ذکر شہروں میں اکثر گزرگاہوں پر ایک بینر آویزاں کیا گیا ہے‘ جس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تصویر کے ساتھ ان سے یہ درخواست کی گئی ہے کہ جانے کی باتیں ہوئیں پرانی‘ خدا کے لیے اب آ جائو۔ دیگر کم و بیش سب اخبارات نے اس واقعے کو کوئی اہمیت نہ دیتے ہوئے اسے بلیک آئوٹ کیا ہے‘ ماسوائے حکومت موافق دو (انگریزی و اردو) مؤقر روزناموں کے جنہوں نے نہ صرف اس بینر کی تصویر چھاپی ہے بلکہ اس پر کھل کر تبصرہ بھی کیا ہے اور اسے جنرل راحیل شریف اور افواج پاکستان کے خلاف نفرت انگیز سازش قرار دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ یہ ملک میں مارشل لاء کو دعوت دینے کے مترادف ہے اور اس طرح غداری کا ارتکاب کیا گیا ہے اور اس بات کو خاص طور پر دہرایا گیا ہے کہ جنرل صاحب نہ صرف ریٹائرمنٹ لینے بلکہ جمہوریت کی مکمل حمایت کا بھی اعلان کر چکے ہیں۔
خبر میں اس بینر کے خالق اور اسے ہزارہا کی تعداد میں جگہ جگہ آویزاں کرنے والے کے نام اور شخصیت کا بھی انکشاف کیا گیا ہے لیکن اس کے خلاف کسی ایکشن لیے جانے کی کوئی اطلاع نہیں ہے اور یہ وہی صاحب بتائے جاتے ہیں جنہوں نے آرمی چیف کے ریٹائرمنٹ کے اعلان پر ناخوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسی طرح کے بینر جگہ جگہ آویزاں کیے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ کسی حکومتی شخصیت نے اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے‘ اس کی مذمت تو الگ بات ہے۔ واضح رہے کہ اس خبر میں بیک فائر کرنے کا عنصر بھی موجود ہے کہ جن لوگوں کو اس واقعے کا علم نہیں تھا‘ انہیں بھی ہو گیا ہو گا‘ اور جس نے لوگوں کے جوش و خروش میں اضافہ بھی کیا ہو گا۔
جہاں تک مارشل لاء کا تعلق ہے تو نہ تو اس کا کوئی امکان موجود ہے اور نہ ہی کوئی بھی ذی ہوش شخص اس کا طلب گار یا آرزومند ہو سکتا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ لوگوں کی بہت بڑی اکثریت اس کرپٹ اور نااہل حکومت سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہے جبکہ یہ فریضہ مارشل لاء لگائے بغیر بھی سرانجام دیا جا سکتا ہے۔ آخر جنرل مشرف نے کون سا مارشل لاء لگایا تھا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس دلدل سے نکلنے کے کئی اور طریقے بھی ہو سکتے ہیں جن میں مارشل لاء شامل نہیں ہے۔ اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جنرل صاحب جمہوریت کے حامی ہیں تو اس میں بھی کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جنرل صاحب ہر محبِ وطن کی طرح اس جمہوریت کے حامی ہیں‘ جو صحیح معنوں میں جمہوریت ہوتی ہے اور جمہوریت کی پیروڈی نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں جمہوریت کے نام پر جو خوفناک کھیل کھیلا جا رہا ہے اور جو ملک ... کی آخری حدوں کو چھونے لگا ہے جمہوریت کی اس سے زیادہ توہین ممکن ہی نہیں ہے۔ جو لوگ حکومت پر قابض ہیں یا ماضی قریب میں قابض رہے ہیں‘ موجودہ جمہوریت ان کے نزدیک صرف لوٹ مار کے لائسنس کی حیثیت رکھتی ہے جو سب کے سامنے ہے اور جس کا کوئی ثبوت بھی پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘ حتیٰ کہ اس بدنصیب ملک کی کم و بیش ساری دولت لوٹ کر بیرون ملک بھجوائی جا چکی ہے۔ ہمارے حکمران ملک کے سٹیک ہولڈرز ہی نہیں ہیں کیونکہ ان کی دولت‘ ان کے محلات‘ ان کے کاروبار اور ان کے بچے تک ملک سے باہر ہیں۔ ان کی دلچسپی ملک کے ساتھ صرف اتنی ہے کہ اقتدار کے نام پر اپنے بے پناہ اثاثوں میں اضافے پر اضافہ کرتے چلے جائیں۔
لطف کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ اصل حکمران بھی نہیں ہیں‘ نہ ہی انہیں حکمرانی سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی یہ اس کے اہل ہیں۔ کرپشن کا ایک جمعہ بازار ہے جو انہوں نے گرم کر رکھا ہے اور اگر یہ سلسلہ کسی طرح منقطع بھی ہوتا ہے تو یہ بڑے آرام سے اپنی غیرملکی پناہ گاہوں میں جا چھپیں گے۔ ان کے لیے یہ ملک صرف حکومت کرنے کے لیے ہے‘ یعنی اس کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ۔ کوئی بھی ایمانداری سے کہہ دے کر یہ جمہوریت کسی بھی طرف سے جمہوریت لگتی ہے؟ سیاسی پارٹیاں نہیں‘ یہ باقاعدہ گینگ اور قبضہ گروپ ہیں جو برائے نام الیکشن کے ذریعے باری باری اس ملک کا رہا سہا خون نچوڑنے کے لیے آ دھمکتے ہیں۔اور‘ اگر یہ بات درست نہیں ہے تو حکومت کے خلاف اتنی نفرت کیوں ہے؟ اور اس کے مقابلے میں آرمی چیف مقبولیت کی بلندیوں پر کیوں مسند آرا نظر آتے ہیں؟ کیا یہ صرف ضرب عضب کی وجہ سے ہے‘ ہرگز نہیں بلکہ اپنے کرپشن مخالف خیالات اور سرگرمیوں کی وجہ سے‘ جس کا آغاز کراچی سے ہوا اور اب جس کا رخ پنجاب اور مرکز کی طرف ہوتا دکھائی دے رہا ہے‘ اور اس جہاد میں ملک کے عوام ان کے ہم آواز ہیں۔ کرپشن کا عالم یہ ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان سے لے کر صدر مملکت تک صبح و شام اس کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں اور حکومت کا فرمان یہ ہے کہ اگر ایک پیسے کی کرپشن بھی ثابت ہو جائے تو ان کا نام بدل دیا جائے!
سوال یہ ہے کہ وائٹ کالر جرائم کا ثابت ہونا کیونکر ممکن ہے؟ ایسا چور اپنے پیچھے ثبوت چھوڑ کر کب جاتا ہے۔ جیسے اللہ میاں کو کسی نے دیکھا نہیں ہے اور وہ اپنی قدرتوں سے پہچانا جاتا ہے‘ اسی طرح حکومت کی پہچان اور شناخت اس کی شہرت ہوتی ہے۔ جرائم پیشہ حکومتوں نے اپنا جکڑ بند اتنا مضبوط بنا رکھا ہوتا ہے کہ اس کے آگے کسی کا کوئی چارہ چلنے کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہ جاتا۔ یہ لوگ کرپشن کے ذریعے پیسہ اکٹھا کرتے ہیں اور اس پیسے کے حصار میں محفوظ ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر جو بھی ہوتا رہے‘ ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی‘ ورنہ ہر روز اربوں کے سکینڈل سامنے آتے ہیں اور کسی کو پرِ کاہ کے برابر بھی فرق نہیں پڑتا‘ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
اور‘ یہ جو جمہوریت کو بچانے کی دہائی دی جاتی ہے تو اس لیے کہ اسی کے ذریعے زر اندوزی کا سلسلہ جاری رکھا جا سکتا ہے کیونکہ کرپشن کے خلاف کوئی موثر قانون ہی موجود نہیں‘ بننے ہی نہیں دیا گیا؛ البتہ کرپشن میں ملوث افراد کو بچانے کے لیے ہر طرح کا قانون اور رعایت موجود ہے‘ حتیٰ کہ ملک ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے جس کا نتیجہ ایک زہرخند کی صورت بہرحال موجود رہتا ہے۔ سرمایہ تو سرمایہ ‘ ملک کا ٹیلنٹ بھی دھڑا دھڑ ملک چھوڑ کر جا رہا ہے کہ یہاں اہلیت اور میرٹ نام کی کوئی چیز باقی رہ ہی نہیں گئی۔سو‘ پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومت میں اگر کوئی دم خم باقی رہ گیا ہے تو جس بینر لگانے والے کی شناخت ہو چکی ہے‘ اس کے خلاف کوئی ایکشن ہی لے کر دکھا دے۔ اس کا امکان اس لیے نہیں کہ حکومت نام کی کوئی شے موجود ہی نہیں۔ جس ملک کی حکومت 48 دن تک وزیر اعظم کے بغیر چلتی رہی ہو‘ وہ حکومت کے علاوہ اور کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ سو‘ خاطر جمع رکھیں‘ مارشل لاء نہیں لگنے والا‘ نہ ہی کوئی مارشل لاء کا خواہشمند ہے۔ جمہوریت کی حمایت کا مقصد یہ ہے کہ اس نام نہاد جمہوریت کی جگہ بہتر اور اصل جمہوریت کی راہ ہموار کرنے کے لیے کچھ کیا جائے اور جو مارشل لاء لگائے بغیر بھی ہر طرح سے ممکن ہے۔ کیونکہ اب اخیر ہو چکی ہے‘ اور‘ جنہوں نے گاجریں کھائی ہیں انہیں پیٹ درد شروع ہونے والا ہے اور یہ قانونِ قدرت ہے‘ اسے کون بدل سکتا ہے۔
آج کا مطلع
کیا پوچھ رہے ہو نام اُس کا
بس دیکھتے جائو کام اُس کا