تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     13-07-2016

بازاری راج

آج کرّۂ ارض کی پلیٹ ٹیکٹونکس کے بارے میں لکھنا تھا مگر افسوس کہ کئی گھنٹے ایک تلخی کی نذر ہوئے ۔ جیسا کہ گزشتہ ماہ عرض کیا تھا، اگست یا ستمبر کے اختتام پر میں کالم نویسی سے سبکدوشی کا ارادہ رکھتا ہوں۔ احباب اس پر حیرت زدہ ہوئے۔ بہت سوں کا کہنا یہ تھا کہ وہ قومی میڈیا میں جگہ بنانے کا خواب دیکھتے ہیں اور میں کئی برسوں کی محنت سے حاصل شدہ اپنی کمائی ضائع کرنے جا رہا ہوں۔
صحافت میں آپ عافیت سے نکل جاتے ہیں ۔ یہاں خریدار بہت ہوتے ہیں ۔ ترغیبات کے عوض آپ بک جائیں تو ظاہر ہے کہ آپ نے اپنی دنیا اور آخرت برباد کر لی۔ اگر آپ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق سچ بولتے ہیں تو بہت سے لوگوں کو یہ ناگوار گزرتا ہے۔ گزشتہ ہفتے اخبارات میں کسی غیر معروف انگریز صحافی کے حوالے سے ایک خبر چھپوائی گئی۔ اس کے مطابق جنرل اشفاق پرویز کیانی کے سوئٹزرلینڈ میں خفیہ اکائونٹ موجود ہیں ۔ میرے والد چونکہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے گہرے دوست رہے اور ان کے بارے میں لکھتے رہے ؛ لہٰذا ایک صاحب نے اس موقع پر ان کا مذاق اڑانے کی کوشش کی۔ ان کی خدمت میں عرض کی کہ جنرل کیانی اگر چاہتے تو نائن الیون اور اس کے بعد کی صورتِ حال پر دس ملین ڈالر مالیت کی ایک کتاب لکھ سکتے تھے۔ میرے والد نے انہیں اس کا مشورہ دیا تھا لیکن وہ خاموش رہے۔ جنرل کیانی دنیا بھر میں لیکچر دے کر خطیر رقم کما سکتے تھے۔ یہ سب جائز اور حلال رقم ہوتی لیکن انہوں نے گوشۂ عافیت میں رہنا پسند کیا۔ کیا ایسا شخص جو صر ف احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہوئے اربوں روپے کی آمدن ٹھکرا رہا ہے وہ سوئٹزرلینڈ میں اکائونٹ کھولے گا؟ بعد میں وہ خبر جھوٹی ثابت ہوئی لیکن ان صاحب نے معذرت کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس سے قبل بھی وہ سوشل میڈیا پر مختلف تنازعات کی زد میں رہے ہیں ۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے۔ 
آج پھر انہوں نے میرے والد کی پیروڈی کی۔ ظاہر ہے کہ مشہور شخصیات کی پیروڈی ہوا ہی کرتی ہے اور اس میں برا ماننے والی کوئی بات نہیں۔ یہ بات البتہ اخلاق سے گری ہوئی ہے کہ کسی شخص سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ اپنے والد کا تمسخر اڑانے میں شریک ہو جائے۔ جنرل کیانی والی بات بیچ میں رہ گئی۔ ان کا تاثر ان کے بھائیوں بالخصوص کامران کیانی کی وجہ سے خراب ہوا۔کیا جنرل کیانی اس میں قصور وار تھے؟ اندازہ اس سے لگائیے کہ شہباز شریف نے ٹی وی پر یہ بتایا: کامران کیانی لاہور رنگ روڈ کا کام ٹھیک نہیں کر رہا تھا۔ اس پر میں نے دو بار جنرل کیانی کو مطلع کیا اور تیسری بار کامران کیانی کو فارغ کردیا۔ 
جنرل کیانی نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے ساتھ خوشدلانہ تعلقات قائم رکھے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ کام وہ نہیں کر سکتے تھے کہ جس جس شخص سے کامران کیانی ملاقات کرے، ا سے یہ کہیں کہ میرے بھائی کے ساتھ کاروبار مت کرنا۔ لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ جنرل کیانی کا بیٹا سروش کیانی کیا کام کرتا ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی سکبدوشی سے ایک برس قبل تک وہ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ میں سولہ ہزار روپے ماہانہ کی نوکری کر رہا تھا۔ 
صحافیوں کی خریداری میں سب سے زیادہ متحرک کون ہے؟ یہ کھل کر نہیں لکھا جا سکتا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ نون لیگ کی حکومت میں بہت سے بڑے حکومتی اداروں کی سربراہی صحافیوں کو دی گئی ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور عمران خان دونوں سے میرے والد کی گہری دوستی تھی اور دونوں ہی کسی کو کچھ دینے دلانے والے نہیں تھے۔ عمران خان تو خیر تحریکِ انصاف اور شوکت خانم کے لیے فنڈز اکٹھے کرتے رہتے ہیں ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور میرے والد دونوں ہی اپنی اولادوں کے لیے اچھی ملازمتیں نہ ڈھونڈ سکے۔ اس کے باوجود صحافت میں آپ کو کرپشن کے طعنے سنتے پڑتے ہیں۔ آپ ہر کسی کو پکڑ کر سمجھا نہیں سکتے۔ جنرل کیانی گوشۂ گمنامی میں رہتے ہیں ؛ چنانچہ وہ عافیت میں ہیں۔ ہم صحافت کے میدان میں عافیت کے دائرے سے باہر ہیں۔ 
میں نے کچھ خواب دیکھ رکھے ہیں۔ میں ایک سیدھا سادا بلکہ اللہ لوک ٹائپ کا نوجوان تھا۔ پھر پروفیسر احمد رفیق اختر میری زندگی میں آئے۔ کچھ دعائیں انہوں نے تعلیم کیں، جنہیں پڑھتے پڑھتے آج کسی حد تک میں عقل کی بات کرنے لگا ہوں۔ آج اگر میں کچھ ہوں تو والدین کے علاوہ پروفیسر صاحب ہی کی وجہ سے۔ ان کے لیے میں ایک گھر تعمیر کرنا چاہتا ہوں، جس کی بنیاد میں میرا اپنا پسینہ بہے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ اپنے والد سے ایک روز یہ کہہ سکوں کہ صحافت اورکسی حد تک سیاست کے میدان میں، ایک بھرپور اننگ آپ نے کھیلی ہے۔ اب آپ سبکدوش ہو جائیے(سیاست میں وہ براہِ راست تو ملوث نہیں ہوئے لیکن پاکستانی سیاست میں ان کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ ان کی پرجوش حمایت کے بغیر کپتان یہاں تک کا سفر کبھی طے نہ کر سکتا۔) ریٹائرمنٹ باعزت ہونی چاہیے۔ بہت سے legends اس انداز میں سبکدوش ہوتے ہیں، جو ان کے شایانِ شان نہیں ہوتا۔ میں اپنی ماں کو اپنے پیسوں سے حج کرانا چاہتا ہوں۔ نیکی کے کاموں میں خرچ کر کے وہ خوش ہوتی ہیں۔ میں اپنی شریکِ حیات کو کچھ تحائف دینا چاہتا ہوں۔ دوسری طرف صورتِ حال یہ تھی کہ چار برس قبل جہاں سے میں نے آغاز کیا تھا، ترقی اور بہتری تو دور کی بات، آج میں اس سے چار قدم پیچھے ہی تھا۔ پھر میں نے ایک نئے پیشے میں قدم رکھا اور یہ بہت ہی مبارک ثابت ہوا۔ بازارِ صحافت میں عقل کے خریدار بہت کم ہیں۔ بازاریوں اور خوشامدیوں کا راج ہے۔ اسی نفسا نفسی میں رمضان ٹرانسمیشن ایک سٹیج ڈرامے کا سا روپ اختیارکر گئی ہے۔ اس سارے تماشے میں ہمیں تماشہ بننے کی کیا ضرور ت ہے؟
اگست کے اختتام یا ستمبر تک میری کتاب مکمل ہو جائے گی۔ آخری مضمون اس پر لکھ کر میں کالم نویسی سے توبہ کر لوں گا۔ البتہ سوشل میڈیا پر تحقیقاتی نوٹس میں لکھتا رہوں گا۔ فیس بک کا ایڈریس یہ ہے facebook.com/bilal.urrashid۔ انشاء اللہ ہر سال ایک آدھ کتاب میں لکھتا رہوںگا اور میڈیا میں کہیں نہ کہیں اس کا تذکرہ بھی ہوجائے گا۔ آپ سب کی محبتوں کا بہت شکریہ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved