تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     14-07-2016

بہرِ تقسیمِ قبور انجمنے ساختہ اند

مارشل لا ملک کی تباہی پر منتج ہوتاہے ۔ کاروبارِ حکومت جنرلوں کا کام نہیں ۔ سوا ل دوسرا ہے، کیا اس کا متبادل تاجروں کی حکومت ہے ؟ ان تاجروں کی، دھن دولت جن کا دین و ایمان ہے ؟
کچھ سرکاری اور کچھ آزاد مگر بے ضرر اخبار نویس وزیرِ اعظم کا استقبال کرنے لاہور کے ہوائی اڈے پرلائے گئے۔ ان میں سے بعض نے فخر کا اظہار کیا کہ سعادت انہیں حاصل ہوئی ۔ ایک آدھ نے تاسف کیا کہ زیادہ وقت بادشاہ سلامت عنایت نہ فرما سکے۔ پل بھر کو شاہی سواری رکی اور روانہ ہو گئی ؎
حیرتیں کہتی ہیں وہ آ کے گئے بھی کب کے 
ذوقِ نظارہ پریشاں ہے کہ دیکھا ہی نہیں 
میاں صاحب بے مروت بالکل نہیں ۔ اگر ان کے ایما پر پرچہ نویس مدعو ہوتے تو ضرور ان کی سرپرستی فرماتے ،جن میں سے ایک نے اعلان کیا تھا کہ واپس آکرفاتح دشمنوں کو مزہ چکھائے گا ۔ قائدِ اعظمؒ کے بعد سے ، اڑسٹھ برس سے، مملکتِ خدا داد میں یہی کاروبار ہے ۔ حکمران طبقے کی باہمی جنگ اور تالیاں پیٹنے والے ۔ عہدِ قدیم کے مزارع جاگیرداروں کی جنگیں لڑا کرتے ۔ ہر دور میں دربار داری با اندازِ دگر ہوتی ہے ۔
فلسفی نے کہا تھا : لکھنے والے کی مرضی ہے کہ بادشاہ بنے یا بھکاری۔ وعدہ یہ تھا کہ کپتان کے بارے میں افواہوں کا جو بازارگرم ہے ، اس کے پسِ منظر میں پھیلی داستاں لکھی جائے ۔ مگر افسوس ، وہ جو میرؔ صاحب نے کہا تھا ؎
مسائل اور تھے پر دل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے 
کالے بادل ایک بار پھر گھر آئے ۔ مون سون کی خوفناک بارشوں سے سیلاب کی پیش گوئی ہے ؎
کن نیندوں محوِ خواب ہے اے چشمِ گریہ ناب
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
صوبائی حکومتوں نے نمٹنے کی تیاری فرمائی ہے اور نہ مرکز نے۔ کراچی کچرے کا ایک عظیم الشان ڈھیر ہے ، اپنے حکمرانوں کی مانند۔ ایشیا کے نیلسن منڈیلا کی حکومت نے برساتی نالوں کی صفائی کے لیے 44کروڑ روپے مختص فرمائے تو ہیں ۔ اکثریت کا خیال مگر یہ ہے کہ خرچ کرنے کی نوبت نہیں آئے گی ۔ پنجاب کے شیر شاہ سوری کو ہم برسات کے پانیوں میں تیراکی کرتا دیکھیں گے ۔ دو چار درجن افسر معطل کر دئیے جائیں گے ۔درباری تالیاں بجائیں گے۔
مقبوضہ کشمیر میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے اور آزاد کشمیر کے گلی کوچوں میں اقتدار کے بھوکوں کی جنگ ۔نو برس ہوتے ہیں، پیپلز پارٹی کا وفد بھار ت سے لوٹ کر آیا ۔ کراچی کے ہوائی اڈے پر اخبار نویسوں سے مخدوم امین فہیم کی ملاقات ہوئی تو فرمایا: دورہ کامیاب رہا مگر بھارت کو شکایت ہے کہ پاکستان تخریب کاری کا ارتکاب کرتاہے۔ کوئی دن میں زرداری صاحب کی حکومت تشکیل پائی تو انہوں نے ارشاد کیا : ہر بھارتی کے دل میں ایک پاکستانی اور ہر پاکستانی کے دل میں ایک بھارتی آباد ہے ۔ اب ان کے فرزند بلاول بھٹو کو یاد آیاہے کہ مقبوضہ کشمیر نام کا ایک خطہ بھی دنیا میں پایا جاتاہے ۔ اچانک ادراک ہوا ہے کہ وہاں انسان بستے ہیں اور ذبح کیے جا رہے ہیں ۔
کشمیر کے شہیدوں سے کس نے وفا کی ؟ آدمی اپنی ترجیحات کا اسیر ہوتاہے ۔ امریکہ ، برطانیہ ، فرانس اور دبئی میں جائیدادیں خریدنے والے شہیدوں کے وارث نہیں بن سکتے ۔ عید الفطر کی سویر پاک فوج کے ایک نوجوان افسر نے معلوم نہیں کہاں سے ، اپنی تصویر بھیجی اور ایک شعر ؎
سو جائو عزیزو کہ فصیلوں پہ ہر ایک سمت 
ہم لوگ ابھی زندہ و بیدار کھڑے ہیں 
اس کے بعد کون سی عید اور کہاں کی عید... چرب زبانی کی وہی گرم بازاری ۔ سری نگر میں گیارہ شہدا کی لاشیں اٹھائی جا چکیں تو وزیرِ اطلاعات نے ایک عدد پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا۔ وہ اپنے کارکنوں کا رونا روتے رہے ، جو آزاد کشمیر کی سفاک حکومت کا ہدف ہیں ؎
خوفِ خدائے پاک دلوں سے نکل گیا
اور آنکھوں سے شرمِ سرورِ کون و مکاںؐ گئی
وزیرِ اعظم نے تشویش کے اظہار پہ اکتفا کیا، تاآنکہ پانچ لاکھ سے زیادہ کشمیری کوچہ و بازار سے نکل آئے۔ تب انہیں یا دآیا کہ لاہو رمیں کابینہ کا اجلاس طلب کرنا چاہیے ۔وہ آدمی ، جس نے ایک بار کہا تھا کہ وہ کشمیریوں کی تاریخ کا سب سے بڑا لیڈر ہے ؎
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
دودھ پینے والے مجنوں خون نہیں دیا کرتے اور یہ تو خون پینے والے مجنوں ہیں ۔ اسحٰق ڈار کے مصرع طرح پر وزیرِ اعظم نے گرہ لگائی ہے کہ پاکستان ترقی کے سفر پر گامزن ہے ۔ کون سی ترقی؟اوّل تو دو فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھتی آباد ی میں 4.7فیصد شرح نمو کوئی کارنامہ نہیں ۔ پنجاب کی وزیرِ خزانہ کے شوہرِ نامدار حفیظ پاشا کے بقول مگر یہ اتنی بھی نہیں ، درحقیقت 3.1فیصد ہے ۔ زرِ مبادلہ کے ذخائرضرور بڑھ گئے ۔ وزیرِ اعظم اگرچاہیں تو ان کے بل پر ''دشمن ‘‘ کے سینے پر مونگ دل سکتے ہیں ۔ 
چمکتی دمکتی گاڑیوں میں سوار وزیرِ اعظم اور ان کے رفقا مال روڈ اور پھر گورنر ہائوس کے سبزہ زار سے گزر کر اجلاس کے کمرے میں پہنچے تو راستوں سے کیا چیختے چنگھاڑتے وہ پوسٹر ہٹائے جا چکے تھے، جن میں چیف آف آرمی سٹاف کو مارشل لا لگانے کی دعوت دی گئی ہے ۔ 
پرسوں پرلے روز شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ایک اخبار نویس نے دعویٰ کیا کہ یہ پوسٹر آبپارہ کے ایما پر لگائے گئے ۔ فوجی افسر بھنائے ہوئے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اخبارات کے لیے وہ بیان جاری نہیں کر سکتے ۔ پوچھا جائے تو برہم ہو کر وہ پوچھتے ہیں : کیا ہم ایسے ہی احمق ہیں ۔ اوّل تو مارشل لا کے نفاذ کا سوال ہی نہیں... اور ارادہ ہو تو کیا اس سے پہلے رنگین پوسٹر چھاپے جاتے ہیں ؟ 
کیسی عظیم حکومت ہے ۔ کراچی سے پشاور تک تمام بڑے شہروں میں ہزاروں لاکھوں پوسٹر اور بینر لگانے والوں کو روک نہیں سکتی ، ہٹا نہیں سکتی ۔ ملزموں کی گرفتاری تو کجا ، ان کی نشاند ہی تک فرما نہیں سکتی ۔ انقلاب کے دعوے البتہ بہت ہیں ۔ 
شیخو پورہ اور سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے کم از کم دو وفاقی وزیروں کے بارے میں معلوم ہے کہ اشتہاری مجرم پالتے ہیں ۔ کسی گائوں کی کوئی جھونپڑی اور کوئی کچا پکا گھر ان کے دلاوروں سے محفوظ نہیں ۔ صبح اخبار اٹھائیے تو لگتاہے کہ خادمِ پنجاب علائو الدین خلجی ، بلبن اور سلطان صلاح الدین ایوبی کو مات کر دیں گے ۔ تازہ ترین ارشاد ان کا یہ ہے کہ ہسپتالوں کی حالتِ زار کو روتے افتادگانِ خا ک کی خدمت گزاری کے لیے وہ آخری حد تک جائیں گے ۔ وہ آخری حد کون سی ہے جنابِ والا؟ پنجاب کے سالانہ میزانیے کی دستاویزات یہ کہتی ہیں کہ سالِ گزشتہ 50ارب روپے چھوٹی بڑی ترقیاتی سکیموں پر صرف کیے گئے ، نالیوں اور گلیوں کی تعمیر پر۔ بلدیاتی الیکشن میں ''دشمن ‘‘ کے سینے پر مونگ دلنے کے لیے ۔ عجیب فاتحین ہیں کہ بار بار اپناہی ملک فتح کرتے ہیں ۔ کبھی پنجاب، کبھی سندھ اور مولانا فضل الرحمٰن کا بس چلے تو ایک دن پختون خوا بھی ع
بہرِ تقسیمِ قبور انجمنے ساختہ اند 
خدا نہ کرے کہ ایسا ہو، واقعہ مگر یہی ہے کہ آج اگر مارشل لا نافذ ہو تو آنسو بہانے اور سینہ کوبی کرنے والا شاذ کوئی ہوگا۔ بعید نہیں کہ اکتوبر1999ء کو 70فیصد حمایت کرنے والوں کے مقابلے میں اب کی بار 80فیصد لوگ خیر مقدم کریں ...او رجناب اسحٰق ڈار ایک اور اعترافی بیان لکھ رہے ہوں ۔ 
مارشل لا ملک کی تباہی پر منتج ہوتاہے ۔ کاروبارِ حکومت جنرلوں کا کام نہیں ۔ سوا ل دوسرا ہے، کیا اس کا متبادل تاجروں کی حکومت ہے ؟ ان تاجروں کی، دھن دولت جن کا دین و ایمان ہے ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved