تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     15-07-2016

ماضی کے مزار.....

میرے دوست ارشد شریف کی طرف سے ایک مختصر سا ٹیکسٹ پیغام تھا: ڈان کے سینئر صحافی حسن اختر فوت ہوگئے ہیں ۔
بُلھا کیہ جاناں میں کون....
ڈان بیورو اسلام آباد کے ساتھ بہت یادیں وابستہ ہیں۔ بہت کچھ وہیں سے سیکھا۔ سینئر صحافی حسن اختر ان یادوں کا حصہ تھے۔ جب ایڈیٹر احمد علی خان کی کمال مہربانی سے 1998 ء میں ملتان ڈسٹرکٹ رپورٹر سے اسلام آباد کے صحافی میں تبدیل ہوا تو زندگی ہی بدل گئی۔ مجھے پتہ نہیں تھا اسلام آباد میں کیسے رپورٹنگ کرنی ہے۔ جمشید رضوانی سے ملتان میں رات گئے پریشانی کے عالم میں پوچھتا: یار اسلام آباد میں کیسے پورٹنگ کروں گا ۔ انجانا سا خوف تھا ۔ اسلام آباد پہنچا تو ضیاء الدین بیوروچیف تھے۔ انہوں نے اسلام آباد میں زراعت کی بیٹ دی۔ اسی بیٹ کی وجہ سے ڈاکٹر ظفرالطاف سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ضیاء صاحب سے پوچھا: سر کیسے رپورٹنگ کرنی ہے۔ کافی دیر مجھے سمجھاتے رہے۔ آخر میں بولے ''اگر محنت کرو گے تو تمہارا اپنا فائدہ ہے، نہیں کرو گے تو تمہیں اخبار سے نکالے گا کوئی نہیں۔ یہاں اخباروں میں کچھ لوگ کام نہیں کرتے وہ پھر بھی برسوں سے نوکری پر قائم ہیں۔ انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا، تمہیں بھی کچھ نہیں کہا جائے گا۔ تمہاری اپنی چوائس ہے‘‘۔
بیورو سے میں دھیرے دھیرے واقف ہونے لگا۔ کیا دن تھے۔ کیسے کیسے لوگ وہاں آتے، گفتگو ہوتی۔ احمد حسن علی صاحب کے ہاں ہر وقت جمگھٹا لگا رہتا۔ لگتا پورا شہر امڈ آیا ہے۔ وہ اپنی آدھی سے زیادہ تنخواہ مہمان نوازی پر خرچ کردیتے۔ ایچ۔ کے برکی صاحب کو پہلی دفعہ وہیں دیکھا۔ دراز قد، خوبصورت اور دبنگ آدمی۔ سب احترام اور خوف کی وجہ سے ان کے سامنے چپ رہتے۔ وہ جس کو چاہتے ڈانٹ سکتے تھے۔ اور شٹ اپ کال اتنی خوفناک ہوتی کہ اگلے ایک سال تک کوئی دوبارہ ان کے سامنے زبان کھولنے کی جرأت نہ کرتا۔ ایک دن مجھے زور سے ڈانٹا اور کہا اوئے ملتانی! تمہیں تمیز نہیں میں بات کر رہا ہوں اور تم نے درمیان میں ٹوک دیا۔ میں شرمندہ ہوگیا اور معافی مانگی۔ وہ ہر شام دفتر آتے، علوی صاحب کی میز پر بیٹھتے، چائے اور بسکٹ منگوائے جاتے۔ برکی صاحب سب کچھ سن سکتے تھے لیکن بھٹو کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں۔ وہ بھٹو صاحب کے بہت قریب رہے تھے۔ ضیاء صاحب اور برکی صاحب کی بحث تیز ہوجاتی تو ضیاء صاحب ہی مسکرا کر چل دیتے۔ ایک لیجنڈ کے مطابق بھٹو صاحب اس وقت تک پریس کانفرنس شروع نہ کرتے جب تک برکی صاحب نہ پہنچ جاتے۔ ان کی اپنی رائے تھی اور ایسی رائے تھی جس کے سامنے کسی کی رائے نہ ٹھہر سکتی تھی۔ علوی صاحب میرے جیسے نئے رپورٹرز کے لیے ایک سایہ دار درخت تھے۔ پیسے نہ ہوتے تو ان سے مانگ لیے۔ واپس کیے نہ کیے۔ انہیں فرق نہ پڑتا تھا۔ ہم جونیئر رپورٹرز جب ضیاء الدین سے اپنی کسی غلطی پر ڈانٹ کھا کر منہ لٹکائے اپنی کرسی کی طرف جا رہے ہوتے تو وہ مسکرا کر اپنی طرف بلاتے۔ چائے منگواتے، بسکٹ کھلاتے۔ ضیاء صاحب کا دفاع کرتے اور ہمیں سمجھاتے۔ 
ضیاء الدین کی خوبی تھی انہیں کوئی بات کہنی یا کرنی ہوتی تو وہ خود رپورٹر کے پاس چل کر آتے۔ دفتر میں احتشام الحق ہر پندرہ دن بعد مٹھائی منگواتے اور ہم سب کھاتے۔ احتشام کا مخصوص جملہ ہوتا آج کیا بکر مجید ہے۔ مطلب کیا خبر ہے۔ اکرام ہوتی کی گپ شپ اور زندگی سے بھرپور قہقہے اور اچانک سنجیدہ ہو کر لڑنے پر تل جانا۔ میں نے فرینک ہونے کی کوشش کی تو لتاڑ کر رکھ دیا۔ اگلے دن خود آئے اور دو چار گالیاں دیں اور پھر پکی دوستی ہوگئی۔ الیاس صاحب ایک ایسے انسان تھے جن سے ہم سب متاثر تھے۔ وہ عمر رسیدہ ہونے کے باوجود ہمارے مقابلے پر رپورٹنگ کرتے اور کمال کرتے۔ رفاقت علی نے سپریم کورٹ کی رپورٹنگ کو وہ رنگ دیا کہ مزہ آجاتا۔ رفاقت سے زیادہ بہتر سپریم کورٹ کی رپورٹنگ شاید ہی کسی نے کی ہو۔ فراز ہاشمی میری طرح جذباتی اور ہر ایک سے بحث اور لڑنے کے لیے تیار۔ فراز ہاشمی بھی پل میں تولہ اور پل میں ماشہ لیکن دل کا صاف۔ جو بات ہو منہ پر کہہ دیتا۔ راجہ ذوالفقار کچھ عرصہ رہے۔ پھر بی بی سی چلے گئے۔ انصار عباسی انہی دنوں لندن سے ماسٹرز کر کے لوٹے تھے۔ انصار عباسی کی خوبی تھی وہ سمجھتے کوئی غلط کہہ رہا ہے تو اسے منہ پر ٹوک سکتے تھے ماسوائے برکی صاحب کے۔
ایک دن مزہ آیا۔ جنرل مشرف کو مارشل لاء لگائے چند دن ہوئے تھے‘ انصار عباسی جنہیں بیوروکریسی رپورٹنگ کا ماسٹر سمجھا جاتا تھا‘ بڑے خوش خوش دفتر آئے۔ سب نے پوچھا: انصار خیریت ہے۔ بولے: بڑی خبر ہاتھ لگ گئی ہے۔ سب نے ان کی طرف دیکھا۔ بولے: جنرل مشرف نے آج پہلی پوسٹنگ کی ہے۔ اپنے پرانے دوست طارق عزیز جو گریڈ اکیس میں ہیں‘ انہیں بائیس گریڈ کی پوسٹ پر اپنا پرنسپل سیکرٹری لگا دیا ہے۔ یہ غیرقانونی ہے۔ سب نے مشترکہ قہقہہ لگایا۔ انصار حیران ہوئے۔ کسی نے کہا: یار جنرل مشرف نے پورا ملک غیرقانونی طور پر لے لیا۔ ایک گریڈ کی غیرقانونی تعیناتی کیا حیثیت رکھتی ہے۔ انصار عباسی کی خوبی تھی‘ اگر مذاق انجوائے نہ کرتے تو مسکرا کر ٹال جاتے۔ دفتر میں اور جن سینئر حضرات سے ہم ڈرتے تھے‘ وہ محمد یٰسین تھے۔ ان سے مذاق کا استحقاق صرف علوی صاحب کو تھا۔ وہ پنڈی بیوروکے معاملات دیکھتے اور رپورٹرز پر خاصی سختی کرتے۔ جب میں نیا نیا آیا تو کچھ دن ان کی نگرانی میں دیا گیا تاکہ مجھے کچھ پالش کیا جائے۔ خبروں کے حوالوں سے میری قسمت ہمیشہ اچھی رہی ہے۔ پہلا دن تھا اور میں ایک خبر لایا جو یٰسین صاحب کو پسند آئی اور سٹی پییج پر لیڈ لگ گئی۔ 
صوفی اختر اکائونٹس دیکھتے۔ بلاشبہ ایک مہربان انسان اور ہر کسی کی مدد کو تیار ۔ ایک دن دفتر کے فوٹوگرافر شاہ نواز نے مجھ سے پانچ ہزار روپے مانگے۔ میری تنخواہ بہت کم تھی لیکن دے دیے۔ دفتر میں انہیں سب ماموں کہتے۔ اگلے ماہ جونہی مجھے تنخواہ کا چیک ملا۔ وہ اگلے دن میرے پاس پھر آ گئے‘ یار ذرا پانچ ہزار روپے تو دو۔ میں کچھ حیران ہوا لیکن پھر لکھنوی انداز کی مروّت میں پھر دے دیے۔ چلیں ماموں کو ضرورت ہو گی۔ جب تیسرے ماہ ماموں نے پھر مجھ سے پانچ ہزار روپے مانگے تو میں جھجک گیا۔ میں نے سوچا لگتا ہے‘ ماموں نے مجھے مسلسل ماموں بنا لیا ہے۔ میں ہی ملا ہوں جس سے ماموں ہر ماہ پانچ ہزار روپے کا بھتہ لیتا ہے۔ میرے چہرے پر گھبراہٹ دیکھ کر ماموں بولے بیٹا، ہم نے دفتر میں ایک کمیٹی ڈال رکھی ہے۔ آپ کا نمبر دسواں ہے۔ کل بیس لوگ ہیں۔ ایک لاکھ روپے ملے گا۔ تم نے اس سے اپنی گاڑی لینی ہے۔ میں نے شرمندگی محسوس کی۔ ماموں بولے: یہ ہماری بدمعاشی سمجھ لیں۔ اس دفتر میں سب کو کمیٹی ڈالنی پڑتی ہے۔ ماموں شاہ نواز نے کہا: ہاں اگر اس دوران پیسوں کی ضرورت پڑے تو لے سکتے ہو لیکن کمیٹی کی ادائیگی سے ایک دن پہلے واپس کرنے ہوں گے۔ جس دن کمیٹی دینی ہوتی تو پھر ماموں کی آنکھیں ماتھے پر اور پھر بھانجا نظرنہ آتا۔ ایسی سخت وصولی ہوتی ہم سب ڈر کر پیسے ہاتھ میں لے کر بیٹھے ہوتے۔ یوں ماموں شاہنواز کی وجہ سے میں نے سیکنڈ ہینڈ گاڑی خریدی۔ 
تاہم ایک صاحب تھے جن کا اپنا رکھ رکھائو تھا۔ وہ شام کو دفتر آتے۔ ان کی میز کے قریب کسی کو جانے کی جرأت نہ تھی۔ ان کا ڈرائیور پہلے آتا، ان کا سامان ان کی میز پر سجاتا۔ اس کے بعد وہ آتے اور اپنی میز پر بیٹھ کر وہ خبر لکھنا شروع کرتے۔ بہت کم بات کرتے۔ کبھی کبھار ان کا موڈ اچھا ہوتا تو وہ احتشام یا علوی صاحب کی میز پر آجاتے، برکی صاحب مذاقاً دُور سے ان پر کچھ جملے کستے۔ وہ اپنی خبر فائل کرنے کے بعد اسی انداز میں گھر لوٹ جاتے۔ ان کا ڈرائیور پہلے آتا۔ ان کی میز پر سے ان کا سامان سمیٹتا اور پھر وہ بھی چل دیتے۔ میں نے ایک دن رفاقت سے پوچھا: یہ صاحب کون ہیں؟ رفاقت ہمیشہ میری مدد کو تیار رہتا۔ رفاقت نے کہا: یہ حسن اختر ہیں۔ ان کے رکھ رکھائو اور انداز کی وجہ سے دوست انہیں نواب صاحب کہتے ہیں۔ یہ فارن آفس کی بیٹ کرتے ہیں۔ ان دنوں فارن آفس سب سے سنجیدہ اور سینئر صحافی ہی کر سکتا تھا۔ وہ ایک ایک لفظ پر دیر تک سوچتے رہتے کہ کون سا لفظ مناسب رہے گا۔ ان کے علاوہ کسی کو جرأت نہ ہوتی کہ وہ فارن آفس کی خبر کرے۔ انہیں میں نے بہت کم مسکراتے دیکھا ۔تاہم مجھے بریک تھرو اس وقت ملا جب شاہین صہبائی امریکہ سے لوٹے اور اسلام آباد بیورو بیٹھنا شروع ہوئے۔ لندن سے ناصر ملک لوٹ آئے۔ ماحول بدل گیا ۔ دوست ناراض ہونا شروع ہوئے کہ میں ان کی بیٹ کی ایکسکلوسو خبریں فائل کرتا ہوں۔ شاہین صہبائی کو میری خبروں میں کچھ جان نظرآئی تو انہیں نے ایڈیٹ کرنا شروع کیں ۔ ناصر ملک بھی پروفیشنل تھے اور مجھے اوپر ابھرنے میں مدد دی۔ میری خبریں اب شاہین صہبائی کی حوصلہ افزائی اور ناصر ملک کی ایڈیٹنگ کی وجہ سے ڈان کے فرنٹ پیچ پر چھپنا شروع ہوگئیں۔ ڈان میں نام کے ساتھ خبر چھپنا کوئی مذاق نہیں ہوتا تھا۔ شروع میں کولیگز خوش ہوتے اور کسی دن ناخوش بھی!
اور پھر میں نے پانچ سال رپورٹنگ کے بعد ڈان چھوڑ دیا۔ ڈان اسلام آباد سے شروع ہوگیا تھا ۔ بیوروآفس ختم ہونے کے ساتھ ہی پورا کلچر بدل گیا۔ وہ دوستیاں، ماحول ، علوی صاحب کی محفلیں۔۔شہر بھر کے لوگوں کا ڈان میں آنا ، سنجیدہ بحثیں کرنا، سب کچھ ختم۔۔پھر ضیاء الدین لندن ٹرانسفر ہوگئے۔ اور پھر زندگی بدل گئی۔ پہلے شاہ نواز ماموں کی اچانک وفات ہوئی تو برکی صاحب تنہائی کے ہاتھوں موت سے شکست کھا گئے۔ علوی صاحب انہیں آخری مرتبہ ہسپتال سے مل کر لوٹے تو افسردہ تھے۔ بولے: برکی نے مجھے اپنے قریب بلایا اور کہا: یار علوی میں ابھی نہیں مرنا چاہتا ۔ ایک دن احمد حسن علوی بھی فوت ہوگئے۔ یوں لگا دل جیسے رک گیا ہو ۔ پھر یٰسین صاحب، محمد الیاس اور اب حسن اختر۔ ایک ایک کر کے سب کچھ بکھر گیا۔ ماضی کے مزار بنتے گئے۔ یادیں باقی رہ گئیں۔ وقت کے بے رحم سمندر نے ایک ایک کو نگل لیا۔ ڈان کی پوری ٹیم بکھر گئی۔ سب کچھ ختم ہوگیا۔ ع
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں!
اب حسن اختر بھی چل دیے۔
بس ایک خیال آتا ہے۔ شاید علوی صاحب ابھی بھی آسمانوں پر اپنی محفل سجاتے ہوں، وہاں محمد یٰسین اپنے اوپر کسے گئے جملوں پر شرماتے ہوں، حسن اختر ان سب سے ذرا فاصلہ اور رکھ رکھائو رکھتے ہوں ، محمد الیاس کے بھرپور قہقہوں سے محفل منور ہوتی ہو، ماموں شاہ نواز ابھی بھی کمیٹی ڈالتے ہوں اور کیا پتہ دبنگ برکی صاحب ابھی بھی سب کو یہ کہہ کر ڈانٹتے ہوں...... اوئے چولاں نہ مارو......!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved